امت مسلمہ کے حالات تاریخ کے دریچوں سے

ایک ہو مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے!

23،/دسمبر 1949ء کی سیاہ رات میں ہنومان گڑھی کے مہنت”ابھے رام داس“ نے اپنے کچھ چیلوں کے ساتھ  بابری مسجد میں گھس کر عین محراب کے اندر ایک مورتی رکھ دی جس کے خلاف اس وقت ڈیوٹی پر مقرر کانسٹبل ”ماتوپرشاد“ نے صبح کو تھانہ میں حسب ذیل رپورٹ درج کرائی۔

”ابھے رام داس، سدرشن داس اور پچاس ساٹھ نامعلوم لوگوں نے مسجد کے اندر مورتی استھاپت (نصب) کرکے مسجد کو ناپاک کردیا ہے۔ جس سے نقص امن کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔“

اس رپورٹ کو بنیاد بناکر فیض آباد کے سٹی مجسٹریٹ نے دفعہ 145کے تحت مسجد اوراس سے ملحق گنج شہیداں کو قرق کرکے مقفل کردیا اور پریہ دت رام چیرمین کو اس کی حفاظت کے لئے رسیور مقرر کردیا، نیز فریقین کے نام نوٹس جاری کیا کہ اپنے اپنے دعویٰ پر ثبوت پیش کریں، سٹی مجسٹریٹ کا یہ غیرمنصفانہ عمل زبان حال سے بتارہا ہے کہ مسجد میں بت رکھنے کی کارروائی گہری سازش کے تحت عمل میں لائی گئی تھی، ورنہ ایک قدیم جمعہ وجماعت سے آباد مسجد کے بارے میں ثبوت طلب کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟

سیدھی بات یہ تھی کہ کانسٹبل ماتوپرشاد  کی رپورٹ کے مطابق مجرمین کو قرار واقعی سزا دی جاتی اور مسجد سے مورتی نکال کر اس مسئلہ کو ختم کردیا جاتا،تعجب کی بات ہے کہ جس کو حکومت سعودی عرب نے امن کا پیغام بر تک کہا تھا انہیں پنڈت جواہر لال نہرو کو مولانا حسین احمد مدنی،مولانا ابوالکلام اور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی نے اس سنگین معاملہ پر توجہ دلائی اور انھوں نے نام و نہاد کے تحت یوپی کے وزیراعلیٰ گووند بلبھ پنت کو لکھا کہ اس مسئلہ کو فی الفور حل کریں،پنڈت نہرو نے کی شہ پر ہی پہلی مرتبہ نمازیوں کے لۓ تالا بند ہوا،بعد میں راجیو گاندھی نے تالا کھلواکر ہندو فریق کو پوجا کی اجازت دے دی۔پنڈت نہرو کے دکھاوے پر کہنے کے بعد بھی اس سلسلے میں کوئی مثبت کارروائی نہیں کی گئی، اور مذہبی جانبداری و اقتدار سیکولرزم اور قانون و انصاف پر غالب رہا، گویا ملک کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی قربانیوں کا اولین صلہ آزاد ہونے کے بعد یہ دیاگیا کہ ان کی قدیم متبرک عبادت گاہ میں مورتیاں رکھ دی گئیں اوراس کے منبر ومحراب جو اب تک رکوع و سجود سے آباد تھے بند کردئیے گئے۔

اس حادثہ کے وقت مولانا آزاد نے کہا تھا کہ ”میرے ذہن میں یہ سوال گونج رہا ہے کہ مستقبل میں مسلمانوں کو ایک ملت کی حیثیت سے قبول کیا جائے گا یا نہیں، اگر اس کا جواب اثبات میں ملتا ہے تو بابری مسجد سے بت ہٹادئیے جائیں گے،اور اگر آئندہ چل کر اس کی نفی ہوتی ہے تو انتظار کیجئے دوسری مسجدوں میں بھی اس طرح کے حادثات پیش آسکتے ہیں۔“6 دسمبر 1992کی سیاہ رات میں اللہ کے گھر کو شہید بھی کردیاگیا۔ 

چند‌ سال پہلے شہید بابری مسجد‌ پر رام مندر تعمیر کے غیرمنصفانہ فیصلے پر سواۓ چند علماء اور چند ذی روح عوام کے سب نے مہر لگا دی،پٹنہ بہار کے ایک ڈاکٹر صاحب تو اتنا تک کہتے تھے،کہ بابری مسجد‌ لے لو اور مسلم پسماندہ کو مراعات دو،قانون میں ترمیم کرو،گویاکہ ہماری عبادت گاہوں کو توڑ دو،اس کے بدلے میں ہمیں دنیا میں اچھے سے زندگی گزارنے کی بھیک دو،گویا حکومت بھارت نا ہوا (معاذ اللہ)اللہ ہوا۔جن کو صرف قبروں پر ہی صرف شرک نظر آتا ہے،وہ کہاں ہیں؟

جب بابری مسجد کا قضیہ چل رہا تھا اس وقت کچھ محبت کے علم بردار یہ کہہ رہے تھے کہ ایک مسجد کے لیے مسلمانوں کا خون بہانے سے بہتر ہے کہ بابری کی زمین مندر کے حوالے کر دیا جائے،

اللہ کی شان دیکھے کچھ دن بعد ہی بھارت کی حکومت N.R.C اور C.A کا کالا قانون پاس کرنا چاہا تو ہر مسلمان سڑک پر آگیا۔کہاں ہیں’ وہ بے غیرت اور بی شرم مسلمان جب اللہ کا گھر بت پرستوں کی عبادت گاہ میں بدل گیا،تمہارے دلوں ہلکا سا درد تک نا ہوا،اور جب تمہارے گھر کی باری آئ،تو ہر ایک روڈ پر۔واہ رے بے غیرت مسلمان۔

 آج سنبھل جامع مسجد پر جبرا قبضہ اور دفاع کی صورت میں کئی مسلمانوں کی شہادت سے انہیں یہ سبق لینا چاہیے کہ اگر محبت کے نام پر مسجدوں کی قربانی دیتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب ان نفرت کی پجاریوں آتنک وادیوں کو ہندوستان کی ہر مسجد بت کدہ نظر آئے گی اور ہر مسجد بابری مسجد کی کہانی دہرائے گی۔

جو سالوں سے خود کو ہندوستانی مسلمانوں کا مسیحا بنتے ہیں بخدا روز محشر انہیں جواب دینا ہوگا کہ تمہارے ہوتے ہوئے مسجد کیسے شہید ہو گئی کیونکہ صلاح الدین ایوبی سے کسی نے پوچھا تھا کہ تم مسکراتے کیوں نہیں تو صلاح الدین ایوبی نے کہا تھا کہ روز محشر خدا مجھ سے پوچھے گا بیت المقدس غیروں کے قبضے میں تھا اور تم مسکرا رہے تھے تو میں کیا جواب دونگا۔

بابری مسجد کی شہادت پر جس نے صبر کرنے کی تلقین کی تھی جواب انہیں بھی دینا ہوگا۔

ریاض سیزن میں اللہ کے مقدسات اور حدود کی خلاف ورزی اور ہمارے مقدس ترین حرم کعبہ کے نمونے کو ایک اسٹیج کے طور پر استعمال کرنے کے حوالے سے جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے اس سے ہم خوفزدہ، دہشت زدہ اور مایوس ہیں۔اداکاروں اور سجاوٹ کے لیے جس کے ارد گرد ننگے رقاص اور ماڈلز گھومتے ہیں، ایسا منظر کہ اگر یہ دنیا کے کسی ملک میں ہوتا تو عالم اسلام میں چاروں طرف سے تنقید و تنقیص شروع ہو جاتی،اگر اغیار کرے تو ناجائز اور حرام اور مسلم حکمران کرے تو جائز(معاذ اللہ)۔واہ شرک و بدعت کا جھوٹا و مکار رونا رونے والوں۔واہ رے گستاخ رسول ﷺ کے نام پر ہزاروں بہنوں کا طلاق کرانے والوں،واہ رے اہل بیت ،مولی علی کرم اللہ وجہہ اور امام حسنین رضی اللہ عنہما کے نام پر ایک دوسرے مسلمانوں نا سمجھنے والوں،کہاں تمہاری غیرت ایمانی،کہاں ہیں خود کو توحید کے رکھوالے کہنے والے،کہاں ہیں خود تاجدار مدینہ ﷺ کا غلام کہنے والے،کہاں ہیں،مولی علی کرم اللہ وجہ،خاتون جنت سلام اللہ علیھا اور ان کے منور فرزند کے غم میں جھوٹے رونے والے،کیا سب کی غیرت ایمانی مر چکی ہے؟

اے مسلمانوں تم دنیا کو فریب دے سکتے ہو لیکن اللہ کے  کرام کاتبین سب لکھ رہے ہیں۔

ضروری بات!

اتنی بڑی‌ بے حرمتی اور گستاخی ہوئ حرمین شریفین کی سرزمین اور اس سرزمین میں جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صالح صحابہ رہتے تھے،کہاں ہیں لوگوں کو جہنم اور جنت میں جانے کا فتویٰ باٹنے والے؟

 خانہ کعبہ اللہ کا گھر ہے اور اس کی حفاظت کرنا اور اس کی حرمت کا تحفظ ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔

انبیاء کے وارثوں کا یہ حال دیکھنا افسوسناک اور دل دہلا دینے والا ہے کہ حرمین شریفین کی سرزمین میں علماء کے رہتے ہوۓ،امام حرم  قانون اسلامیہ کی پامالیوں پر بھی خاموش ہے،ایک مولانا صاحب نے اس کے خلاف آواز بلند بھی کیا تو ان کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید کر دیا گیا۔

تاریخ گواہ ہے کہ جب جب قانون الہی کا مذاق اڑایا گیا،خانہ کعبہ کی حرمت  سے چھیڑ چھاڑ کی گئ،

اس وقت عذاب الھی کا مزہ پورے ملت کو چکھنا پڑا ہے۔ 

مقدس مقامات کو سیر و تفریح ​​کے لیے استعمال کرنا ایک ایسا گناہ ہے جو تباہی اور بربادی کا باعث بنتا ہے،

اس کا کوئی ذہن تصور بھی نہیں کر سکتا اور اسے منطق سے سمجھا نہیں جا سکتا۔

جو مسلمان اللہ کے نافرمان ہیں، اور جو بد اخلاق ہیں،ان کے لیے بھی یہ ایک بری بات ہے۔

حتی کہ فاسق مسلمان بھی بیت اللہ کی تعظیم کرتے ہیں اور تمام اہل اسلام خواہ ان کی تقویٰ، علم اور عقائد کوئ بھی ہو،خانہ کعبہ کو تعظیم و تکریم کی نگاہ سے دیکھتے ہیں،ان کے دلوں میں کسی بھی قیمت پر اللہ کے گھر کے خلاف چھوٹی سی بات نہیں آسکتی۔

 سر زمینِ حرمین شریفین کے علمائے کرام اور ذمہ داران کا فرض ہے کہ وہ اس فحاشی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، کیونکہ ان کی نگرانی میں اور ان کے ملک میں جو کچھ ہوتا ہے اس کے لیے وہ قیامت کے دن انفرادی طور پر اللہ کے سامنے جوابدہ ہوں گے۔ عالمِ اسلام پر نظر ڈالتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ احساس کی لہریں مجسم سوال بن کر پوچھتی ہیں کہ ”کیا ہم اسی قوم کے فرزند ہیں جسے ”خیر الامت” کے لقب سے سرفراز کیا گیا تھا؟ آج ہماری غیرت و حمیت کو کیا ہوا کہ دوسروں کی گداگری اور چاپلوسی کو اپنا شعار بنا چکے ہیں؟ دوسروں کی ذہنی غلامی کو اپنی سعادت خیال کرتے ہیں۔” اور پھر جب کوئی جواب نہیں بن پڑتا تو اقبالؔ کی روح متاعِ کارواں کے لُٹ جانے پر ماتم کناں نظر آتی ہے اور جب اس لُٹ جانے پر بھی ”کچھ نہ کھویا” والی حالت طاری ہرتی ہے تو تڑپ اُٹھتی ہے۔

 اے خدا، یہ ایک مکروہ ہے جو آپ کو منظور نہیں ہے۔ 

 مسلمانوں یہ بات اپنے دل و دماغ میں پیوست کرلو کہ ہمارے لیے اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے اور اللہ کے سوا کوئی طاقت اور قوت نہیں۔

خلیفہ اول سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے لے کر آج تک جتنے بھی مسلم حکمران گزرے ہیں اور جنہوں نے نبی کریم ﷺ کے نقش قدم پر چل کر فیصلے کیے اور قانون الہیہ سے کسی بھی حالت میں سمجھوتہ نہیں کیا اسی وجہ سے دشمنان اسلام بھی ان نیک و سعید شخصیتوں کو تکریم و تعظیم کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

اس حقیقت سے کوئی بھی ذی شعور انکار نہیں کر سکا کہ اگر کرۂ ارض پر بسنے والے سر کروڑ مسلمانوں کے دلوں میں وحدتِ ملّی کا احساس اجاگر کر دیا جائے تو وہ آج بھی باطل کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہو سکتے ہیں کہ ان سے ٹکرانے والی قوتیں پاش پاش ہو جائیں۔ اگر آج بھی شمعِ توحید کے پروانے لَا اِلٰهَ کا عقیدہ پختہ کر لیں اور ”نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر” اپنے تمام اختلافات کو دفن کر کے محبت و اخوت کے پھریرے لہراتے ہوئے شانہ بشانہ کھڑے ہو جائیں تو دنیا کی کسی قوم میں یہ طاقت نہیں کہ وہ ہم پر مسلط ہو جائے۔دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں ہمارے آستانوں پر جُبّہ سائی کرنے پر مجبور ہوں گی۔ پھر یہودیوں کی کیا مجال کہ وہ آنکھ اُٹھا کر بھی مصر کی طرف دیکھیں! دشمنوں میں کہاں جرأت کہ ہماری سرحدوں کے پاس بھی پھٹک جائے، اسرائیلیوں کا کیا حوصلہ کہ وہ بیت المقدس اور اس کے اطراف میں بسنے والے مسلمانوں کو اپنے ناپاک قدموں تلے روندیں۔

آج جب کہ مسجد اقصےٰ سے اُٹھنے والے دھوئیں نے مسلمانوں کی آہوں میں آگ بھر دی ہے۔بیت المقدس کی سرزمین حرم کے پاسبانوں کو پکار رہی ہے کہ اے اہلِ وفا! تم کہاں ہو؟

آؤ اور میری حرمت کو پامال کرنے والوں کو نیست و نابود کر دو۔تو دنیائے اسلام کو وقت کے چیلنج کو قبول کرتے ہوئے اتحاد و یگانگت کی راہ پر گامزن ہو جانا چاہئے اور حرم کے دشمنوں کی گھناؤنی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے ہمیں ایک شیشہ

 پلائی ہوئی دیوار بن جانا چاہئے۔جب جب مسلمان متحد ہوتے ہیں تو ان کی اجتماعی قوت میں خوب اضافہ ہوتا ہے۔مسلمان مشکلات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوتے ہیں اور ان کی بات دنیا میں وزن رکھتی ہے۔مسلم معاشرے میں اتحاد و اتفاق کے نتیجے میں امن و استحکام پیدا ہوتا ہے۔اتحاد کے سبب مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت اور انتشار کی وجہ سے ہونے والے بے انتہا نقصانات سے بچا جا سکتا ہے۔نبی کریم ﷺ کے وصیت اور آپ ﷺ کا  پیغام امن پوری دنیا تک پہنچانا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔جب مسلمان متحد ہوں گے تو وہ اس ذمہ داری کو بہتر طریقے سے ادا کر سکیں گے۔

اتحاد و اتفاق کے باعث مسلمان معاشی طور پر بھی مستحکم ہوتے ہیں۔باہمی تعاون اور مشترکہ منصوبوں کے ذریعے وہ اپنی اقتصادی حالت کو بہتر بنا سکتے ہیں۔مسلمانوں میں انتشار اور فرقہ واریت کے باعث نہ صرف ان کی اجتماعی قوت کمزور ہو جاتی ہے بلکہ اس کا فائدہ ان کے دشمن اٹھاتے ہیں۔ فرقہ واریت کی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان لڑائی جھگڑے، نفرت اور بغض و حسد پیدا ہوتا ہے جو کہ امت مسلمہ کے لیے تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔آج کے دور میں جہاں اسلام اور مسلمانوں کو مختلف پریشانیوں کا سامنا ہے،اتحاد کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ہمیں اپنے چھوٹے چھوٹے اختلاف کو بھلا کر ایک ہو کر ماضی کو بھول کر نبی کریم ﷺ کے وصیت کو پورا کرنے کے لۓ مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’تم مومنوں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رحمت و محبت کا معاملہ کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی اورنرم دلی میں ایک جسم جیسا پاؤ گے، جب اس جسم کا کوئی حصہ بھی تکلیف میں ہوتا ہے تو سارا جسم تکلیف میں ہوتا ہے اور اس کی ساری رات بیداری اور بخار میں گزرتی ہے‘‘(او کما قال ﷺ۔صحیح بخاری: 6011)

 ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہادی برحق ﷺ نے ارشاد فرمایا۔

’’یقیناً مومن آپس میں مضبوط بنیاد کی طرح ہیں، وہ ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کرمضبوط ہوتے ہیں اور آقا دو عالم ﷺ نے اپنی انگلیوں کو انگلیوں میں ڈالا‘‘(او کما قال ﷺ۔صحیح بخاری۔481)

ایران اور سعودی عرب‌ اور دیگر مسلم ممالک کا جھگڑا ایک طرف”اور اتحاد امت ایک طرف۔

ہم آپس میں جیسے بھی رہیں لیکن غیر اگر ہم پر یلغار کرے تو مل جل کر اس کا مقابلہ کریں گے۔(انشاء اللہ۔آمین یارب العالمین)

مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے میں ایک مضبوط اور قوی بنیاد کی طرح ہے،مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح جڑ کر رہنا چاہیے،جس طرح زنجیر کی کڑیاں ایک دوسرے سے جڑی ہوتی ہیں،جس طرح ایک بنیاد اور دیوارکی اینٹیں ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوتی ہیں ،اسی طرح ایک مسلمان،دوسرے مسلمان سے مل کر ہی شیشہ پلائی دیوار بنتا ہے۔نیکی اور خیر کے کاموں میں باہمی اتحاد اور باہمی اشتراک ایک اہم دینی، اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے۔اگر ایک مومن دوسرے مومن کو اپنی قوت نہ سمجھے اور اسے ضائع ہونےکیلئے چھوڑ دے تو اس کامطلب یہ ہے کہ وہ خود اپنی کمزوری کا سامان کر رہا ہے۔

حرمین کا تحفظ صرف عربوں کے اوپر نہیں بلکہ ہر مسلمان پر فرض ہے۔

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے!

آخر میں!

سورا بھاسکر کی شادی سے پہلے اور شادی کے بعد کی دو الگ الگ متوازی تصویریں فیس بک اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر مسلم مخالف لوگ شائع کر رہے ہیں اور یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مسلم لڑکا سے شادی کے بعد وہ کیسی ہو گئ ہے۔دراصل ایسے لوگ عورتوں کی ننگی تصویریں دیکھنے کے بعد انہیں کپڑوں میں ملبوس عورت بدصورت نظر آرہی ہے۔

تحریر: ریاض فردوسی۔9968012976

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے