تحریر: طارق انور مصباحی، کیرالہ
عہدمغلیہ میں مرہٹوں نے شیواجی (1627-1680) کی قیادت میں ملک میں افراتفری مچائی،اس کے بعدبھی جنگ آزمائی کرتے رہے۔یہ خانہ جنگیاں انگریزوں کے لیے آسانی پیدا کررہی تھیں،یہاں تک کہ انگریزوں نے بھارتی حاکموں اور راجاؤں کوایک دوسرے سے لڑا کر ملک پر قبضہ کرلیا ۔ مرہٹوں کی تاریخ سے ان کے حقائق وعزائم کوسمجھنے میں آسانی ہوگی ۔
آزادی ہندکے بعدکانگریس کی مرکزی حکومت نے بھارت کے مشہور مؤرخ تارا چندکوتاریخ آزادی ہند کی تاریخ رقم کرنے کی ذمہ داری سپردکی تھی۔
تارا چندنے آزادی کی تاریخ انگریزی زبان میں بنام "History of the Freedom Movement in India”ر قم کی ۔
اس کا اردوترجمہ ’’تاریخ تحریک آزادی ہند ‘‘کے نام سے ،قومی کونسل برائے فروغ زبان اردو (دہلی)نے شائع کیا ہے ۔اس کتاب کے اقتباسات اس مضمون میں سپرد قرطاس کیے گئے ہیں ، کیوں کہ یہ کتاب بھارت میں قابل اعتماد اورمعتبرومستند ہے۔
مراٹھا راشٹرکی تشکیل کے لیے مرہٹوں کی کوششوں کا تذکرہ آرایس ایس کے آئیڈیل اورہندومہا سبھاکے سابق صدرونایک دامودرساورکر (1883-1966)نے اپنی کتاب ’’سکس گلوریس ‘‘ میں بڑے فخریہ انداز میں کیا ہے۔اس نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ پورے بھارت سے مسلم حکومت کا قریباً خاتمہ ہوچکا تھا اور ہر جگہ ہندوحکومت قائم ہوچکی تھی ،حالاں کہ یہ بالکل غلط ہے۔
ساورکر نے دوسری بات یہ لکھی کہ مراٹھاقوم ملک بھر میں ہندوحکومت کے قیام کی قیادت کررہی تھی ،حالاں کہ یہ بھی غلط ہے ۔
دراصل مراٹھا قوم مراٹھی حکومت قائم کرنا چاہتی تھی اور مراٹھالوگ ہندوراجاؤں کو بھی اپنا دشمن سمجھتے تھے ،جیسے مسلم حکمرانوں کو ۔
ساورکر نے لکھا:
It is already mentioned at the end of the last chapter that the Hindus had completely uprooted the foreign Muslim empire from India and Hindus States had, once again, been established everywhere and the Muslims did not, in fact, wield any imperial authority over the land of Hindustan. But while the Hindu nation was thus inextricably involved in a gigantic millennial war to root out the Muslim imperial power from India and while all its energies and time were utilized in that direction, European nations like the Portuguese, the French, the Dutch and especially the English had already commenced their efforts at establishing their rule over India secretly or even openly.
The Marathas who had assumed the leadership of the Hindu nation at that time had simultaneously to face all these European nations just when they were carrying on a life and death struggle with the Muslims. Althoug they had been mostly successful in the end in arresting the progress of the Portuguese, the French, the Dutch and the English, however, shrewdly availed themselves of the opportunity, they got, when the Marathas were engaged in the struggle with the Muslim powers, and gradually but firmly established their foot-hold in the Bengal trampling under their feet the weaker Muslim Nawabs over there
Thereafter they pushed on their aggressive moves and established, though not de jure yet de facto, sovereignty over the territory right upto Delhi. Naturally they soon came to grips with the Marathas, who had to lead the Hindu nation at that time
Six Glorious Epochs of Indian History page 456
printed by Ajay Printers Navin Shahdara Delhi
ترجمہ:آخری باب کے خاتمہ میں یہ بیان کردیا گیا ہے کہ ہندولوگ مکمل طورپر بیرونی مسلم حکومت کو بھارت سے باہر کرچکے تھے ، اور ایک بارپھر ہرجگہ ہندو ریاستیں قائم ہوچکی تھیں،اور حقیقی طورپر مسلمان لوگ بھارت کی سرزمین پر کوئی حاکمانہ اختیار نہیں رکھتے تھے ، بلکہ جس وقت ہندوقو م مسلم حکمراں طاقتوں کوانڈیا سے باہر کرنے کے لیے اس طرح پیچیدہ انداز میں ایک بڑی ہزارسالہ جنگ میں مصروف تھی، اور جب اپنی تمام طاقت اور ساراوقت اسی سمت میں خرچ کرچکی تھی ، اس سے قبل ہی یورپین قومیں جیسے پرتگالی ،فرانسیسی،ڈچ اور خاص کر انگریز انڈیا میں اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے پوشیدہ یاظاہر ی طورپر اپنی کوششیں شروع کرچکی تھیں۔
مرہٹہ جو اس وقت ہندو قوم کی قیادت کررہے تھے ،انھیں عین اس وقت تمام یورپی اقوام کا سامنا کرنا پڑا جب کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ زندگی وموت کی جنگ لڑ رہے تھے۔
گرچہ وہ پرتگالیوں ،فرانسیسیوں ،ڈچ اورانگریزوں کی ترقی روکنے میں انجام کاربہت کامیاب ہوئے تھے ،اس کے باوجوجب مرہٹہ مسلم طاقتوں کے بالمقابل جدوجہدمیں مشغول تھے، اس دوران انگریزوں نے جو موقع ملا، بڑی ہوشیاری سے اس کا فائدہ اٹھایا اور دھیرے دھیرے کمزور مسلم نوابوں کو قدموں تلے روندتے ہوئے بنگال میں مضبوطی کے ساتھ اپنے پاؤں جما لیے۔ اس کے بعدانھوں نے اپنے جارحانہ اقدام کو اور تیز کردیا اور یہاں سے لے کر دہلی تک پورے خطے پر اپنی حکمرانی قائم کر لی ، گرچہ وہ حکمرانی اب تک قانونی حکومت نہیں تھی ،اور مملکت کے زیراختیار تھی۔ نتیجہ کے طور پر یہ لوگ جلد ہی مرہٹوں کو گرفت میں لینے لگے ، جو اس وقت ہندوقوم کی قیادت کرتے تھے۔
مذکورہ بالااقتباس میں ساورکرنے بہت کچھ خلاف حقیقت لکھ دیا ہے ،مثلاً مرہٹوں نے بھارت کے تمام علاقہ جات سے مسلم حکومت کاخاتمہ کر دیا تھاکہ اسی درمیان یورپی اقوام یعنی فرانسیسی ، پرتگالی ،ڈچ اورانگریز بھارت میں داخل ہوئیں اور اپنا اقتدار قائم کرنے میں لگ گئیں ۔ آخر کارانگریزوں نے بنگال میں اپنی حکومت قائم کرلی ،پھروہ رفتہ رفتہ ملک بھر پر قابض ہو گئے ۔
حقیقت تویہ ہے کہ اگر مرہٹہ مسلم حکومت کے ساتھ برسرپیکار نہ ہوتے توانگریزوں کویہ موقع نہیں ملتا کہ وہ ملک پرقبضہ کرلیں۔
یہ بھی غلط ہے کہ مراٹھاقوم ملک میں ہندو بادشاہت کے قیام کی کوشش کررہی تھی ۔دراصل وہ لو گ ایک خودمختار مراٹھا حکومت چاہتے تھے۔ مؤرخ تاراچندکی عبارتوں سے مرہٹوں کے اصل حقائق منکشف ہو جائیں گے،اورساورکر کی غلط بیانی کا پردہ فاش ہوجائے گا ۔
مراٹھا قوم ’’مراٹھا راشٹر‘‘ قائم کرنا چاہتی تھی ۔
مرہٹوں کی حکومت کا دائرہ مہاراشٹر کے مختصرحصہ تک محدود تھا۔مرہٹہ اپنے علاوہ تمام اہل ہندکو غیرملکی سمجھتے تھے اوران کے ساتھ برتاؤ بھی غیر ملکیوں جیساکرتے تھے ۔خواہ وہ ہندوہوں ،یا مسلم ۔غیرمراٹھیوں کو وہ اپنا غیر سمجھتے تھے۔
مؤرخ تارا چندنے لکھا:’’مرہٹوں کوایسے مواقع حاصل تھے،جوکسی دوسری جماعت کومیسر نہ تھے۔وہ ایک جگہ آباد تھے۔ جغرافیائی حالات ان کی پشت پناہی کر رہے تھے۔جوان کوبہمنی یامغل حکمراں کے دسترس سے محفوظ رکھتے تھے۔ان کی ایک مشترک زبان تھی، اوروہ ایک ہم جنس وہم نوع قوم تھے ۔ راجپوتانہ کے راجپوتوں کے برعکس جواس وقت کل آبادی کی صرف 6:فیصدی ہیں اور دوآبہ میں جاٹوں کے بھی برعکس جن کی تعداد کل آبادی کی 8:فی صدی ہے۔مرہٹہ اس وقت مہاراشٹر کی کل آبادی کی ایک تہائی کے برابر ہیں اورپورے صوبہ میں وسیع دائرہ میں پھیلے ہوئے ہیں ۔
گزشتہ زمانہ میں بھی غالباً ان کی آبادی کی نسبت وہی تھی جوآج ہے۔ان کے مذہبی مصلحین نے ان کے دل کے اندر اخلاق اعلیٰ پیداکرنے کا جوش بھر دیاتھا۔شیواجی کی فوجی اورسیاسی ذہانت نے ان کوایک ایسی جماعت بنادیا تھا جس کے پاس ایک مملکت تھی،لیکن یہ تمام خصائص بیکار ہو گئے ،کیوں کہ مرہٹوں کے عزائم تنگ تھے۔ان کا سوراجیہ کا جوتخیل تھا ،وہ کل ہندوستان کوایک متحدہ ملک تصورکرنے سے عاری تھا،کیوں کہ اپنے سوراجیہ کے حدود کے باہر کے کل علاقے کووہ بیرونی ملک سمجھتے تھے،اس لیے اسے اپنی ملک گیری کی ہوس کی مہم بازی کا مناسب میدان خیال کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ جب وہ مغل شہنشاہیت سے اقتداراعلیٰ کے حصول کی جنگ کررہے تھے ، توشمال کی ہندو جماعتوں جاٹ، راجپوت ،بندیلا،بنگالی اور اڑیسہ وغیرہ کوانہوں نے اپنا دشمن بنالیا‘‘۔
(تاریخ تحریک آزادی ہندجلداول :ص142 )
کیا مرہٹوں کا مقصد ہندوراشٹر کا قیام تھا ؟
مؤرخ تاراچندنے شیواجی کے بارے میں لکھا:
’’ مرہٹوں کے کچھ مؤرخین نے یہ خیال ظاہر کیاہے کہ وہ ’’ہندو پد شاہی‘‘ قائم کرنا چاہتا تھا،یعنی مغلوں کی شہنشاہیت کے بجائے ہندوراج،لیکن مرہٹہ کی پوری تاریخ میں ’’سوراج‘‘ملک گیری سے نمایاں طور پر ممتاز نظر آتا ہے،یعنی اس سرزمین پرجس میں مرہٹے آبادتھے ،ان کی ایک باضابطہ حکومت اور اس مملکت (سوراجیہ )کے باہر کی وہ مملکت جو مرہٹہ سواروں کے شکار کی مسرت بخش زمین تھی،اورمرہٹوں کے خراج عایدکرنے کا ایک جائزوسیلہ بھی تھی‘‘۔(تاریخ تحریک آزادی ہندجلد اول: ص206)
مؤرخ تاراچندنے مزیدوضاحت کرتے ہوئے لکھا کہ شیواجی کامقصدہندوپدشاہی کی بجائے ایک خودمختار حکومت قائم کرناتھا۔
تارا چند نے لکھا:’’شیواجی اوران کے بعدپیشوابھی ’’ملک گیری ‘‘کی مہم تمام قریبی ریاستوں میں چلاتے رہے۔خواہ وہ ہندوہوں یا مسلمان، اور وہ ہندؤوں کواسی طرح نچوڑ لیتے تھے ،جس طرح مسلمانوں کونچوڑتے تھے۔شیواجی ایک مذہبی لہر کی چوٹی سے ابھراتھا،لیکن اس تحریک میں کوئی جنگجویانہ وطن پرستی نہ تھی۔تکارام اوردوسرے مرہٹہ رشی تنگ نظر متعصب لوگ نہ تھے،اوران کا بھگتی کامذہب علاحدگی پسندی پرمبنی نہ تھا۔ دراصل وہ ہندومذہب اوراسلام کے پیروؤں کوایک دوسرے سے ملانا چاہتے تھے۔
وہ ہندومذہب میں موروثی پوجا ، توہم پرستی اوریاتراؤں وغیرہ کو ناجائز سمجھتے تھے،اورمسلمانوں میں عدم رواداری کے جذبہ کی بھی مذمت کرتے تھے۔شیواجی ان کواپنا گرومانتا تھا،اسی لیے وہ ’’زندہ رہو،اورزندہ رہنے دو‘‘کی پالیسی پرعمل کرتا تھا۔وہ مسلمان بزرگوں ، اسلام کی کتاب مقدس اورمسجدپراعزازواکرام کی بارش کرتا تھا۔اس بات کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے کہ اس نے اسلامی مذہبی مراسم اور رواج کے منانے میں کبھی کسی قسم کی رکاوٹ ڈالی ہو،یامسلمانوں کوہندؤں سے مختلف سطح پررکھاہو‘‘۔
(تاریخ تحریک آزادی ہندجلداول :ص206)
مؤرخ تاراچندنے شیواجی کے بارے میں لکھا:’’اس کی ملازمتوں کا دروازہ تمام بااہلیت اشخاص کے لیے کھلاہواتھا۔خواہ وہ برہمن ہوں یاپربھوس (یعنی کایستھ)یا مرہٹہ ،یکساں مواقع سب کوحاصل تھے،حتی کہ مسلمان بھی اعلیٰ عہدوں میں شامل کیے جاتے تھے۔اس کی پالیسی کا آخر مقصدکیاتھا؟اس کے بارے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا ‘‘۔
(تاریخ تحریک آزادی ہندجلد اول :ص206)
شیواجی کی رواداری
شیواجی نے ہندومسلم منافرت کبھی نہیں پھیلائی ،لیکن آج شیواجی کے نام لیوا غلط راہ پرجاچکے ہیں۔
تاراچندنے شیواجی کے بارے میں لکھا:’’اپنی سلطنت میں رواداری ،انصاف ،مساوات اس کی پالیسی کے اصول تھے‘‘۔
(تاریخ تحریک آزادی ہندجلداول: ص207)