ازقلم: مدثر احمد، شیموگہ۔کرناٹک۔9986437327
راجستھان کے اودے پورمیں گستاخ رسول کی توہین کرنے والی نوپورشرماکی تائید کرنےو الے ایک درزی کو دو مسلم نوجوانوں نے موت کے گھاٹ اتار دیاتھا، جس کے بعد راجستھان میں حالات بےحد کشیدہ ہیں۔یہ حرکت جمہوری نظام میں ناقابل قبول ہے اور اس کی مذمت ہونی چاہیے اور ملک کے مختلف علاقوں سے مسلمانوں کی ملی،سیاسی اور سماجی تنظیموں کے علاوہ دینی اداروں اور علماء نے بھی اس حرکت کی بھرپور مذمت کی ہے اور مذمتی بیانات کے انبار سوشیل میڈیا سمیت ملک کے بیشتر اخبارات میں نمایاں طو رپر دکھائی دے رہے ہیں۔جمہوری نظام میں کسی کو سزادینا خصوصاً شرعی معاملات میں سزا دینے کااختیار کسی کو نہیں ہے،سوائے عدالتوں کے۔اودے پورکے نوجوانوں نے جو حرکت کی ہے وہ پوری طرح سے داعش کی مشابہت رکھتی ہے،اس سلسلے میں بھارت کے آئین کے مطابق انہیں سزا ملنی ہی چاہیے۔وہیں دوسری جانب پچھلے دس سالوں سے ملک میں جو حالات پیدا ہوئے ہیں اور درجنوں مسلمانوں کو سرعام قتل کیاگیاہے اور مسلمانوں کا جینا حرام کیاگیاہے وہ بھی معاملات قابل مذمت ہیں۔آج اودے پورکے معاملے میں قصوروار نوجوانوں کی جو مذمت ہورہی ہے وہ مذمت شائدہی اس سے پہلے سیلاب کی شکل میں مسلمانوں کے قتل عام کے دوران دیکھی گئی ہے،یہاں تک کہ خود مسلمانوں نے اتنے بڑے پیمانے پر مذمتی بیانات جاری نہیں کئے ہیںنہ ہی ان میں تلملاہٹ دیکھی گئی ہے۔تب اور اب میں بہت فرق دیکھاجارہاہے،ہم یہ نہیں کہہ رہے ہیں کہ اودے پورکے واقعہ کی مذمت نہیں کرنی چاہیے،بلکہ ہم یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ جو تڑپ اور تلملاہٹ سے اس وقت مذمتی بیانات جاری ہورہے ہیں اُن بیانات کو اخلاق، جنید،پہلو خان، نجیب، اترپردیش کے نعمان، جھارکھنڈ کے مظلوم انصاری، آسام کے ابو حلیفہ اور ایازالدین،مغربی بنگال کےدیناپور کے ناصرالحق، محمد سمیر الدین،محمد ناصر، جھارکھنڈ کے اصغر انصاری،عثمان انصاری اور میوات کے عمرمحمد جیسےنوجوانوں نے کی موت بھی قابل مذمت ہے اس پر شائد مسلم طبقہ اتنی تیزی اور حرکت کے ساتھ مذمتی بیانات جاری نہیں کیاہے۔حق کی لڑائی میں لڑنے والے صدیق کپن، شمس تبریزاور محمد زبیر جیسے صحافیوں نے بھی حق کی لڑائی لڑنے کےا لزام میں جیلوں کو بھیجا گیاہے، جس پر مسلم قیادت کی خاموشی ہی قابل مذمت ہے۔دنیا جانتی ہے کہ آج جو پرچوں پر مذمتی بیانات جاری کررہے ہیں اُن کے دلوں میں کیاہے،یقیناً دنیا دکھائوے کی ہوگئی ہے۔جہاں اپنے ظلم کا شکار ہورہے ہیں اُن کیلئے کوئی آواز بلندنہیں ہورہی ہے اور دکھائوے کیلئے کئی مذمتی بیانات جاری ہورہے ہیں۔سوال یہ بھی ہے کہ جو علماء اس وقت جیلوں میں ہیں اُن کی رہائی کیلئےکوئی فکرنہیں ہے۔مولانا کلیم صدیقی جیسے فعال عالم دین جیل کی صعبتوں کو جھیل رہے ہیں،اس پر مسلمانوں کی نظر کمزور ہوچکی ہے۔فہرست لمبی ہے جس پر مسلمانوں کی جانب سے مذمت ہونی باقی ہے،اگر سب کا وکاس سب کاساتھ کے فارمولے پر کام کرناہی ہے تو مسلمانوں کے وکاس اور مسلمانوں کے ساتھ بھی ہونے کی ضرورت ہے۔ہم مذمت کرتے ہیں ڈھکوسلے مذمتی بیانات کے۔