سیاست و حالات حاضرہ

پاپولیشن پالیسی پر تنقیدی جائزہ

امن و امان سے ملک ترقی کرتا ہے

تحریر:محمد اورنگ زیب مصباحی

ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان روز بروز جمہوریت کے سنگم سے نکل کر آمریت اور پرسنلیشن کے گڈھے کی جانب بڑھ رہا ہے اور اس پر روک تھام کرنے والا کوئی مضبوط و مستحکم نظر بھی نہیں آرہا ہے ہم پچھلے نو سالوں کا جائزہ لیں تو فرقہ واریت عروج پر ہوگیا ملک میں فساد اور بھگوا دہشتگردی عام ہو گیا، پھر ایک ایک کرکے قوانین میں ترمیم و تبدیلی سے ہر روز کھٹکتی ہے کہ کہیں آج بھی کوئی قانون دستور ہند سے حذف نہ کیا گیا ہو، مظلوم شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ کس کس تبدیلی اور ترمیم پر احتجاج کریں کیونکہ ایک احتجاج ختم ہونے سے قبل دوسری تبدیلی یا ترمیمی قانون پاس ہوجاتا ہے، گویا بی جے پی حکومت اور اس کے ہمنواؤں کو کسی احتجاج کو ختم کرنے کا ایک ہی طریقہ کار ملتا ہے کہ کوئی دوسرا متنازع قانون یا بل پاس کریں، اس طرح دستور ہند کو بتدریج بدل دیا جائے، اور اس کے لیے ہر محاذ انہیں شدت پسندوں کے کنٹرول میں ہے ۔
بالخصوص یوپی میں آدتیہ ناتھ کی قیادت والی بی جے پی حکومت ہر روز نت نئے فرقہ وارانہ بیانات اور مسلسل نفرتوں کا مظاہرہ کرتی ہے، جس عدل و انصاف اور دستور ہند پر خطرات کے کالے بادل منڈلاتے نظر آ رہے ہیں، ابھی دو دن قبل یوپی حکومت کی جانب سے قانون سازی میں ایک قانون کو منظوری دے دی گئی ہے جو کہ ہندوستانی باشندوں کے بنیادی حقوق پر پابندی عائد کرتا ہے، جبکہ آئین ہند ہمیں ذاتی، مذہبی، جسمانی، معاشرتی اور فکری حقوق کی آزادی دیتا ہے، لیکن موجودہ حکومت اپنے شاطرانہ چالوں سے پاپولیشن پالیسی لانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے، جس میں وضاحت کی گئی ہے کہ دو سے زائد بچے پیدا کرنے پر پابندی ہے، اور اس پر عمل درآمد نہ کرنے والوں پر سخت کاروائی کی جائے گی اور وہ یوں کہ انہیں سرکاری محکموں اور ملازمتوں سے دور کر دیا جائے گا، کسی قسم کی سیاسی اسمبلی انتخابات کے لیے آزادی نہیں ہوگی، اور انہیں سرکاری تمام سہولیات سے محروم کر دیا جائے گا، بلفظ دیگر وہ غلام ہوں گے انہیں کسی بھی قسم کی آزادی نہیں ہوگی۔ بلکہ جو آزادی ہے اسے چھین لی جائے گی۔
بنظر عمیق موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ مرکزی حکومت ہمیشہ آزادی چھیننے والا قانون لاتا ہے جیسے این آر سی، سی اے اے، یو اے پی اے، ٹرپل طلاق، دفعہ ۳۷۰ کا ہٹایا جانا اور پھر پاپولیشن پالیسی، ان سب میں کہیں نہ کہیں یہ بات پوشیدہ ہے کہ حکومت آزادی چھیننا چاہتی ہے، این آر سی میں کاغذات صحیح نہ ہونے پر حق رائے دہی سلب وغیرہ وغیرہ۔
دراصل یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت کی کارکردگی انتہائی مایوس کن اور ناقص رہی ہے، عوام میں ان کے تئیں برہمی اور غم و غصہ پائی جاتی ہے اور پھر الیکشن بھی قریب تر ہے جس کے لیے انہیں وہی پرانا آئیڈیا ملا یعنی فرقہ وارانہ ایجنڈا اور اس میں کافی مہارت بھی رکھتے ہیں یوگی جی؛ ۔
بی جے پی حکومت کی عادت رہی ہے کہ جب قانون سازی ہوتی ہے اس وقت قانون سب کے لیے ہوتا ہے مگر جیسے ہی اس پر عمل کی باری آتی ہے تو اسے مسلمانوں کے ساتھ مختص کر دیا جاتا ہے، اس پر عمل صرف مسلمان ہی سے کرایا جاتا ہے، حالانکہ بی جے پی نیتا اور ان کے کٹر حمایتی کسی بھی قانون کی خلاف ورزی کرنے میں جھجھک محسوس نہیں کرتا اور نہ ہی ایسا کرنے پر ان پر کاروائی ہوتی ہے حتی کہ کچھ مواخذہ بھی نہیں ہوتا برعکس اس کے انہیں راج نیتاؤں،پولیس محکمہ اور عدالت کی طرف سے سپورٹ کیا جاتا ہے انہیں ان کاموں میں بڑھاوا دیا جاتا ہے، ان ساری چیزوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا حقیقت سے کچھ بھی بعید نہیں کہ پاپولیشن پالیسی بھی ابھی سب کے لیے اور عمل کے لیے صرف مسلمان، کیونکہ ابھی سال دو سال قبل کئی ایسے ویڈیو ملے جن میں بھگوا لباس میں ملبوس لوگوں کو مسلمانوں سے ڈراتے ہوئے پروچن دے رہے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ اولاد پیدا کریں، تاکہ انہیں ہندوستان سے بھگانے میں یا غلام بنانے میں مددگار ثابت ہو، اور دو سال بعد اچانک کیا ہوگیا کہ پاپولیشن پالیسی لائی جا رہی ہے ، جبکہ انہیں کی حمایتی اینکرز کے مطابق کورونا بیماری میں کچھ فیصد آبادی کم ہوگئی، دال کچھ کالا نہیں بلکہ پوری دال ہی کالی ہے۔
ملک کی تعمیر و ترقی کی راہ میں پاپولیشن کبھی رکاوٹ نہیں بنتی، بلکہ کہیں نہ کہیں مددگار ثابت ہوتی ہے، شرط یہ ہے کہ ملک کا نظام درست ہو، اس کا چلانے والا لیڈر خرافاتی ذہن کا نہ ہو بلکہ امن پسند اور دوراندیش ہو، کیونکہ جب ملک میں امن و امان ہوگا تو چاہے پاپولیشن کتنی بھی بڑھ جائے ملک بدستور ترقی کی جانب گامزن ہوگا، اس کی موجودہ مثال ملک "چین ” ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ آبادی وہیں ہے اس کے باوجود لگی ہوئی پاپولیشن پالیسی بتدریج ختم کر رہی ہے، اور تعمیر ترقی اور تعلیم تربیت میں بھی پیش پیش ہے، بلکہ سارے سپر پاور حتی کہ امریکا کو بھی پیچھے چھوڑتے ہوئے اولیت کے مقام پر فائز ہے۔ اس لیے ایسے خیالات اور قوانین کے ذریعے ملک کی تعمیر و ترقی گمان کرنا محال کے مترادف ہے ، ایسے حالات میں جبکہ ملک میں امن و امان کا شائبہ تک نہیں، ہر روز ملک بِکتا چلا جا رہا ہے اور پورے ملک میں بھگوا دھاری دہشت پھیلی ہوئی ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ ملک کی امن و امان خراب نہ کرے بلکہ ملک میں امن و سلامتی قائم رکھیں، یقیناً ملک ترقی کرے گا۔

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے