ازقلم : محمد ایوب مصباحی
صبح نمودار ہوئی لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گھر کی خوشیوں میں اندھیرا چھانے والا ہے، افق فلک پر آفتاب دنیا اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ تجلیاں بکھیر رہا تھا اور ادھر ڈر تھا کہ کہیں گھر کے سورج کو گہن نہ لگ جائے، لیکن ترقیاں یوں ہی نہیں مل جاتیں، سروں پر تاج یوں ہی نہیں سجاے جاتے، اس کے لیے کچھ قربانیاں دینی پڑتی ہیں، جس سے محبت ہے اس پر سب کچھ قربان کرنا پڑتا ہے ، اس کی ہر بات کاخیال رکھنا پڑے گا، اگر مال کا سوال کردے تو بےدریغ مال صرف کرنا پڑے گا، جان مانگ لے توہنستے ہنستے موت گلے لگا پڑے گا لیکن یہ دونوں تو امر تو چکے تھے۔ بس تیسری چیز ابھی باقی تھی تھی،آج اس کا سوال ہوگیا ، آج دوست نے جان پدر کا سوال کردیا آج یہ کہ دیا کہ اپنی سب سے محبوب چیز ہمارے نام پر قربان کرو۔
اب مخالف بھی نظر جاۓ دیکھ رہے تھے کہ دیکھتے ہیں جسے اس قدر اعزاز و مراتب سے مرصعہ کیا ہے جسے اپنا سب سے گہرا دوست بنایا ہے کیا وہ اس کے موزوں بھی ہے؟ یہ یک مشت خاک تو معصیت و ارتکابِ نہ روا کا دلدادہ ہے،اسے تو نفس امارہ سے آراستہ وپیراستہ کیا گیا ہے ، معصیت تو اس کے ضمیر میں ہے۔ ہاں وفاداری کا ثبوت اگر کوئی فراہم کراسکتاہے تو وہ ہم ہیں، فرماں برداری اور اطاعت شعاری تو ہمارا شیوہ ہے۔
لیکن کسی کو کیا معلوم تھا کہ یک مشت خاک جسے فسادی اور خوں ریز تصور کیا جارہا تھا وہ آج "جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے ” کا مظہر اتم بننے والا ہے،ایک دوست کے کہنے پر اپنی دوستی کو سچ کردکھانے کے لیے، مخالفوں کا منہ بند کرنے کے لیے اپنے سینے پر ضبط کا پتھر رکھ کر بیٹے کی ماں سے کہ رہاہے : فرزند کو تیار کرو، دعوت میں جانا ہے، اور ہاں چھری اور رسی بھی دے دینا، ماں نے کہا: اے میرے سرتاج! دعوت میں جارہے ہو یا شکار پر، دعوت میں چھری اور رسی کا کیا کام! خیر چھری اور رسی بھی رکھ دی گئی کچھ دور جنگل میں جاکر باپ بیٹے سے کہتا ہے: اے مرے جگر پارے! میں نے خواب میں تمھیں اپنے ہاتھوں سے ذبح کرتے ہوئے دیکھا ہے، بتاؤ تمھاری کیا راے ہے؟ باپ زبان حال سے یہی کہ رہا تھا کہ اے بیٹے! میرا دوست یہ چاہتا ہے کہ میں تمھیں ذبح کر دوں اس نے مجھے اپنا گہرا دوست بنایا ہے اگر میں تمھیں ذبح نہیں کروں گا تو میری دوستی سچی ثابت نہ ہوگی۔ بیٹا نہایت محبت بھرے لب ولہجہ میں اپنی فرماں برداری اور اطاعت شعاری کا ثبوت فراہم کرتےہوئے، اور آنے والی تمام نسل انسانی کو یہ پیغام دیتے ہوئے "کہ باپ کچھ بھی کہے بیٹے کا کام غیر معصیت میں صرف باپ کی اطاعت ہے”کہا: اباجان! آپ کو جو حکم ملا ہے وہ کر گزریے ۔ میری زبان پر آپ کے فیصلے پر کبھی کوئی حرف نہیں آۓ گا ، مجھے آپ صبرو رضا کا پیکر پائیں گے، حسن کردار کا آئنہ دار دیکھیں گے، مجھے آپ اپنے دوست کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم دیکھیں گے۔
کتنا پرکیف منظر تھا! کیا عجب سماں تھا! چشم فلک نے نظارہ دیکھا، شجر وحجر غرض کہ کائنات کی ہر شئ آج ورطئہ حیرت میں ہے ، مخالفین استعجاب کے عالم میں انگشت بدنداں ہیں، کیا ایک باپ آج اپنے بیٹے کے گلے پر چھری چلادے گا! کیا الفتِ دوست شفقتِ پدری پر غالب آجاۓ گی! کیا ایک ماں کے احساسات وجذبات کویوں ہی پامال کردیا جائے گا! لیکن جب باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل زمین پر لٹایا اور چھری چلانا شروع کی تو اب ان کا دعوی :جو باپ کی خلافت کے وقت کیا تھا کہ یہ فسادی اور خوں ریز ہے خلافت کا اہل نہیں۔”بدل گیا۔ اب وہ یہ نہ کہ سکتے تھے: کہ” آگئ خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کیا؟ "جب انھوں نے باپ کی اپنے مالک حقیقی سے محبت میں صداقت دیکھی، جب حکم خداوندی پر جذبۂ ایثار دیکھا جب بیٹے کا شوق قربانی دیکھا تو سمجھ گئے کہ شب و روز تسبیح و تہلیل میں مصروف عمل رہنے والے اس خلافت کے مستحق کیوں نہ ہوۓ جو ان کے باپ آدم کو دی گئی اور اب وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے :
آگئی خاک کی چٹکی کو ہی پرواز ہے بس!
اللہ تعالی نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ جنت سے دنبہ بھیجا اور اس کی قربانی ہوئی حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک بار پھر اپنی دوستی میں سچے ثابت ہوۓ کہ ذکر الہی سننے کے فرط اشتیاق میں ساری بکریاں لٹادیں اور اس طرح محبت پر سارا مال قربان کردیا۔ نارِ نمرود میں کود کر جان کا نذرانہ پیش کیا اور نور نظر اسماعیل پر چھری چلاکر اولاد بھی خالق ارض و سماں کے حکم پر قربان کرنے کی عملی تصویر پیش کی اور اس طرح خلت یعنی گہرے دوست کا مقام ومرتبہ سے سرفراز ہوۓ۔
اس کا صلہ یہ ملا کہ پروردگار نے اپنے خلیل کی اس ادا کو تا قیام قیامت زندہ وجاوید رکھنے کے لیے خیرِ امت کے لیے واجب قراردیا نوع انسان کی ازل ہی سے مخالفت کرنے والے فرشتوں کا منہ بھی ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا اور انھیں یہ باور ہوگیا کہ انسان صرف شر وفساد کا مسکن و گہوارہ نہیں، بلکہ اگر یہ اپنے خالق حقیقی سے عشق حقیقی کے اسرار ورموز کا محرم بن جائے تو تمام اعزازی تمغے اسی کے سر پر سجادیے جائیں۔ اب ہمیشہ فرشتے زبان حال سے یہی کہتے تھے:
تا سر عرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے
آئی بس خاک کی چٹکی کو ہی پرواز ہے