بڑا ہی عجیب المیہ اور سانحہ ہے آج کے دور کا کوئی بھی منھ اٹھا کر فیس بک پر چلا آتا ہے اور مفتی بن فتوے نشر کرنے لگتا ہے۔ فلاں چیز حلال ہے، فلاں حرام، فلاں مباح ہے تو فلاں بدعت ایک لمبی فہرست ہے کیا بیان کیا جائے اور کس کو چھوڑا جاوے آمدم بر سرِ مطلب کہ ایک جناب نے ایک پوسٹ نشر کی کہ جو حضرات ویڈیو، تصویر وغیرہ کے عدمِ جواز کے قائل ہیں ان کو چاہئے دنیا سے قطع تعلق اختیار کرلیں من و عن جیسا انہوں نے کہا ویسا میں نے نہیں لکھا اختصار طلب کرتے ہوئے فقط مفہوم بیان کردیا کہ مطلب ان کے لکھنے کا یہی نکلتا ہے۔
اب آتے ہیں اصل مدعا پر کہ تصویر کشی کیا مطلقا حرام ہے یا نہیں؟
اولا تو اس میں علمائے سلف و خلف کا ایک ہی قول ہے کہ مطلقا تصویر حرام ہے اس کے متعلق احادیث میں بہت ہی سخت ترین وعیدیں وارد ہوئی ہیں مثلا "ان اشد الناس عذابا عند اللہ یوم القیامة المصورون” یعنی بروزِ قیامت اللہ تعالی کے نزدیک سب سے زیادہ سخت ترین عذاب تصویر بنانے والوں کو ہوگا وغیرہ وغیرہ۔
دوسری بات یہ ہے کہ عہدِ رواں کے علماء کے مابین اختلاف ہوا تصویر کشی کے معاملات میں تو ایک گروہ نے علمائے سلف و خلف کی اتباع و پیروی کی اور مطلقا اسکی حرمت کا قول کیا اور فریقِ ثانی نے جواز کا قول تو کیا مگر مطلقا نہیں بلکہ تاویل کی کہ وہ جو موبائل فون، کیمرے اور دیگر سوشل میڈیا ذرائع سے تصویریں بنائی جاتی ہیں وہ مثلِ عکس ہیں یوں ہی جیسے آئینہ میں اور پانی میں صورتوں کا چھپنا وغیرہ مزید وہ تصویر جو عکس کے مثل نہ ہو مستقل ہو وہ سب کے سب بالاتفاق حرام ہیں فریقین کے یہاں اور ایسا بھی نہیں جو حضرات مطلقا حرمت کے قائل ہیں ان کے یہاں جبر و اکراہ ہے حاجتِ شدیدہ، حالت ملجئہ کی صورت میں ان کے یہاں بھی رخصت ہے جیسا کہ اہل علم پر مخفی نہیں۔ خیر ہمیں اس سے کوئی بحث نہیں سب کی اپنی اپنی دلیلیں ہیں۔
اس مسئلے نے واضح کردیا تاکہ کوئی غبار نہ رہ جائے اب آتے ہیں اصل بات کی طرف جیسا ہمارے ایک نامعلوم عالم صاحب کیا پتہ درسگاہ و جائے تعلیم و تعلم سے آشنائی رکھتے بھی ہیں کہ نہیں انہوں نے تابڑ توڑ اندھیرے میں لٹھا مار دیا ہدف پر لگا تو بلیوں اچھلیں گے نہیں تو کوئی بات نہیں کہہ رہے ہیں کہ۔۔۔۔۔۔!!!
"جو حضرات ٹی وی، ویڈیو، فوٹو گرافی، لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کے عدم جواز کے قائل ہیں انھیں اپنے موقف پر سختی سے قائم رہنا چاہئے۔ جو چیزیں حرام ہوتی ہیں ان کی خرید و فروخت کھانا پینا اور استعمال بھی حرام ہوتا ہے۔ مزارات، مدارس، کاروباری مقامات اور گھروں سے کیمرے، ٹی وی، ویڈیو، اسمارٹ فونس، کمپیوٹرس کو نکال پھینکنا ہوگا۔ اخبارات، رسائل اور جرائد پڑھنا بند کرنا ہوگا کیونکہ ان میں فوٹوز چھپتی ہیں۔ آدھا کارڈ، پین کارڈ، ووٹر کارڈ، پاسپورٹ، جائیداد کی خرید و فروخت کے وقت فوٹو اسکائنگ سے مکمل گریز کریں”
یہ رہی من و عن ان کی عبارت گویا حضرت صاحب ہماری روزی روٹی، سانس لینے، پیشہ کاروبار وغیرہ وغیرہ آپ پڑھ ہی سکتے ہیں ان کے منقول مقولہ کو سب پر پابندی عائد کر رہے ہیں۔
دیانت داری کے ساتھ سائل ہوں کیا یہ انتشار نہیں قوم کے مابین دست بستہ گزارش کرتا ہوں ایسا کام کرنے سے گریز کریں اور باز آجائیں اگر اتحاد نہیں کرسکتے تو انتشار بھی نہ پھیلائیں پھر یہی کہوں گا فروعیات میں نہ پڑے اصول میں کوئی کمی ہو ضرور مطلع فرمائیں اللہ عقلِ سلیم عطا فرماۓ ہمیں بھی اور جملہ احبابِ اہل سنت کو بھی۔
ازمحمداختررضاامجدی
متعلم جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی مئو یوپی الھند