تحریر: صدام حسین قادری مصباحی دیناج پوری مغربی بنگال
روزہ شریعت میں اسے کہتے ہیں کہ کہ انسان صبح صادق سے غروب آفتاب تک بہ نیت عبادت، اپنے آپ کو قصداً کھانے پینے اور عمل زوزیت سے روکے رکھے َ
اسلام کے اور احکام جیسے بتدریج فرض کئے گئے اسی طرح روزہ کی فرضیت بھی بتدریج عائد کی گئی، نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ابتدا میں مسلمانوں کو صرف ہر مہینے تین کے روزے رکھنے کی ہدایت فرمائی تھی َ مگر یہ روزے فرض نہ تھے َ پھر دو ہجری میں رمضان کے روزوں کا حکم قرآن کریم میں نازل ہوا اور سال میں ایک مہینے کا روزہ رکھنا اسلام کا چوتھا رکن قرار پایا مگر اس میں اتنی رعایت رکھی گئی کہ جو لوگ روزہ رکھنے کے طاقت کے باوجود روزہ نہ رکھنا چاہیں وہ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلادیا کریں بعد میں حکم نازل ہوا اور عام لوگوں کے لیے یہ رعایت منسوخ کر دی گئی اور یہ رعایت صرف ان لوگوں کے حق میں باقی رکھی گئی جو روزہ رکھنے کو تو رکھ لیں لیکن بھوک پیاس کی برداشت ان پر دشوار ہو مشقت بھی اٹھا نی پڑے َ مثلاً زیادہ بوڑھے مرد یا بوڑھی عورتیں یا حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتیں َ
اسلامی روزے کی غرض وغایت قرآن کریم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ کہ روزہ خدا ترسی کی طاقت انسان کے اندر مستحکم کر دیتے ہیں َ
تقویٰ کی مثال پر غور کر ے:-
گرمی کا موسم ہے روزہ دار کو سخت پیاس لگی ہے مکان تنہا ہے کوئی ٹوکنے والا ہاتھ روکنے والا نہیں کوری صراحی میں صاف ستھرا نکھرا ہوا ٹھنڈا اس کے سامنے موجود ہے مگر پانی نہیں پیتا َ
روزہ دار کو سخت بھوک لگی ہے، بھوک کی وجہ سے جسم میں ضعف بھی محسوس کر تا ہے َ نفیس خوش ذائقہ مرغن غذا میسر ہے کوئی شخص اسے دیکھ نہیں سکتا کسی کو کان وکان خبر نہ ہو گی مگر وہ کھا تا نہیں َ
پیاری دل پسند بیوی گھر میں موجود ہے جہاں نہ خویش ہے نہ بیگانہ، نہ اپنا ہے نہ پرایا َ محبت کے جذبات اسے ابھارتے ہیں َ الفت نے دونوں کو ایک دوسرے کا شیدا بنا رکھا ہے لیکن روزے دار اس سے پہلو تہی اختیار کر تا ہے َ وجہ یہ ہے کہ خدا کے حکم کی عزت اور عظمت اس کے دل میں اس قدر جا گزیں ہے کہ کوئی جذبہ بھی اس پر غالب نہیں آ سکتا اور روزہ اسی عظمت و جلال الہی کے دل میں قائم ہونے کے باعث ہوا ہے یہ ظاہر ہے کہ جب ایک ایماندار آدمی خدا کے حکم کی وجہ سے جائز، حلال پاکیزہ خواہشوں کے چھوڑ نے کی عادت کر لیتا ہے تو وہ بالضرور خدا کے حکم کی وجہ سے حرام ناجائز اور گندی عادتوں اور خواہشوں کو چھوڑ دےگا اور ان کے ارتکاب کی کبھی جرات نہ کرے گا َ
یہی وہ اخلاقی برتری ہے جس کا روزے دار کے اندر پیدا کرنا اور اسے مستحکم کر دینا شرع کا مقصود ہے َ اسی لئے غیبت فحش بد زبانی بد کلامی اور بری باتوں اور تمام گناہوں سے روزے میں بچے رہنے کی سخت تاکیدیں احادیث میں آئی ہیں َ چنانچہ ارشاد ہے کہ جو روزہ دار جھوٹ کہنا، لغو بکنا اور فضول کاموں کو کرنا نہیں چھوڑتا تو خدا کو کچھ پرواہ نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے َ
ایک حدیث میں ہے کہ روزہ سپر ہے جب تک اسے پھاڑا نہ گیا ہو َعرض کی گئی کس چیز سے پھاڑے گا؟ ارشاد فرمایا ” جھوٹ یا غیبت سے”
الغرض گناہ و معصیت کسی قسم اور کسی درجہ کی ہو مسلمان کے لئے ہر زمانے اور ہر موسم میں حرام ہے لیکن رمضان کے مبارک مہینہ میں یہی ممانعت اور زیادہ موئکد اور اشد ہو جاتی ہے َ بد گوئی، بد نظری، بد زبانی حرام ہمیشہ ہی ہیں َ رمضان میں کہنا چاہئیے کہ حرام تر ہو جاتی ہیں اور دن تو خیر اتنی بڑی عبادت یعنی حکم الہی کے احترام میں نفسانی لذتوں سے دوری میں بسر ہوتا ہی ہے َ روزہ دار کی رات بھی گویا عبادت میں بسر ہوتی ہے َ تو پورے مہینہ بھر کے رات دن کا ایک ایک گھنٹہ یہ سمجھنا چاہیے کہ اسلامی سپاہیوں کے روحانی پریڈ کا زمانہ ہے غفلت کسی لمحہ نہ چاہئیے َ
پھر طب جديد اور طب قدیم سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ روزہ جسمانی بیماریوں کے دور کرنے کا بہترین علاج اور جسم انسانی کے اصلاح کے لئے ایک بہترین نسخہ ہے َ روزہ آہستہ آہستہ بھوک پیاس کی آنچ سے تمام اندرونی اور بیرونی بدن کے فضلات کو جو بدن میں بیکار پڑے رہتے ہیں اور صحت انسانی کو برباد کرتے رہتے ہیں، جلا کرنیست ونابود کر دیتا ہے تو بدنی صحت و تندرستی جیسی روزے کی بدولت حاصل ہوتی ہے کسی اور ذریعہ سے میسر نہیں آ سکتی اے ہمارے رب ہمیں دین حق پر استقامت عطا فرما۔