ملک کے ناگفتہ بہ حالات کسی پر مخفی نہیں ہیں ہر طرف سے مسلمانوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے لیکن قوم مسلم خاموش تماشائی بنی ہوئی اپنی تنزلی، گرتی ہوئی عمارتیں دیکھ رہی ہے کسی کو کھل کر بولنے کی ہمت نہیں ہو رہی ہے بعض تو ایسے بھی مسلمان کہلوانے والے ہیں جو حکومت کی تلوا چٹائی باعث عزت سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے ذلت و خواری اس کے سر پر مسلط کر دی گئی ہے۔
جو سیاسی لیڈر اسدِ ہند اپنی جان ہتھیلی میں رکھ کر حق بیانی کرتا ہے مسلمانوں کے لیے لڑتا ہے آواز اٹھاتا ہے اپنا خون تک دینے کو تیار ہے اپنی زندگی مسلم قوم کی حفاظت و صیانت کے لیے وقف کر دی ہے آج اسی کو لباس مسلمانی میں اغیار کا فضلہ خور کہہ رہا ہے کہ اسد کے بیانات اشتعال انگیزی پر منحصر ہوتے ہیں یہ فضلہ خور کیا سمجھیں گے کہ یہ اشتعال انگیز بیان ہے یا حق گوئی بے باکی پر منحصر حقیقت افروز کلام ہے کیا اس نے نہیں سنا؟
آئین جواں مرداں حق گوئی وہ بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
لباس مسلمانی میں ملبوس درندے کو ایسی تقریر کرنے کی کیا ضرورت تھی اگر پیٹ بھرائی کی بات تھی تو ویسے ہی حکومت سے بہت کچھ مل رہا ہے اسی سے گزارا کر لیتا اگر تقریر میں حق بیانی کرنا نہیں آتا ہے تو تقریر ہی نہیں کرتا مگر کبھی رام کے لیے امکان نبوت ثابت کر کے کبھی مسلمانوں کے حق میں بولنے والی ذات کی توہین کر کے کروڑوں مسلمانوں کے دلوں کو زخمی تو نہ کرتا یاد رہے۔
نا حق کے لیے بولے تو تقریر بھی فتنہ
تقریر ہی کیا خامۂ و تحریر بھی فتنہ
حال میں ایک ہی ہفتے میں کہیں مسلمان کے گھر سے جھنڈے اکھاڑا گیا اور وہاں بھگوائی جھنڈا لہرایا گیا کہیں مسلمان نیتا ہونے کی وجہ سے اسے گولی مار کر قتل کر دیا گیا کہیں مسلمان بیٹی کو بیچ راہ میں پکڑ کر مارا گیا کہیں مسلمان کو گوشت کھانے کی بنا پر مار کر نیم جان کر دیا گیا لیکن سب خاموش ہیں ممبر رسول میں پیر کے آنے پر نعرہ بازی عروج پر ہے پیر کے فضائل بیان کیے جا رہے ہیں لیکن ان حساس مسئلوں پر گفتگو نہیں ہو رہی ہے بس دو جملے یہاں کے دو جملے وہاں کے پھر نعرہ ہی نعرہ لیکن یاد رہے۔
نا حق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرۂ تکبیر بھی فتنہ
حال ہی میں عظمت ڈگری کالج، جین ڈگری کالج، شری رام کالج کا واقعہ در پیش ہوا جس میں چوالیس لڑکیاں ہندو لڑکے کے ساتھ کیفے میں خواہشات کی گرمیاں سرد کرتی ہوئی پکڑی گئیں لیکن یہ حال صرف انھیں کالجیز کا نہیں ہے بلکہ اکثر کالجز کا یہی حال ہے کثرت سے لڑکیاں مرتد ہو رہیں ہیں خنزیر خوروں سے بغل گیر ہو رہی ہیں لیکن تعلیم کے نام پر ان کو شہوت پرستی کی ماں باپ نے مکمل اجازت دے رکھی ہے ایمان ہاتھ سے جائے جائے لیکن مغربی تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے ہائے کیا زمانہ آ گیا ایک وقت تھا خنزیر خوروں کے بغل میں بھی کوئی جا کر بیٹھنا پسند نہیں کرتا تھا آج یہ وقت ہے کہ خنزیروں خوروں کے لیے مسلم ماں باپ نے اپنی بیٹیوں کو ایسے چھوڑ دیا ہے جیسے جنگل میں بھیڑیوں کے بیچ میں بکری۔
ایسی تعلیم سے کہا فایدہ جس سے ایمان جان مال کسی کی بھی حفاظت نہ ہو سکے یاد رہے۔
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
ازقلم: محمد جسیم اکرم مرکزی
جامعۃ الرضا بریلی شریف