بابری مسجد کی شہادت ہندوستان کی تاریخ کا ایک سنگین اور متنازعہ واقعہ ہے جس نے پورے ہندوستان میں سیاسی، سماجی اور مذہبی بحران پیدا کر دیا۔ 6 دسمبر 1992 کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور سنگھ پریوار کے حامیوں نے ایودھیا میں بابری مسجد کو شہید کر دیا، جس کے بعد پورے ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے، جنہوں نے ہزاروں افراد کی جان لے لی۔ یہ واقعہ نہ صرف ہندوستان بلکہ عالمی سطح پر بھی متنازعہ اور شدید ردعمل کا باعث بنا۔
یہ واقعہ ہندوستان کے لیے ایک نیا موڑ تھا، جس نے نہ صرف بھارت کی سیاسی تاریخ کو بلکہ اس کے معاشرتی و مذہبی منظر نامے کو بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔ بابری مسجد کی شہادت کا معاملہ آج تک بحث و مباحثہ کا موضوع بنا ہوا ہے، اور اس واقعہ کے نتائج آج بھی ہندوستان کی سیاست، سماج، اور فرقہ وارانہ تعلقات پر گہرے اثرات ڈال رہے ہیں۔
اس مضمون میں ہم بابری مسجد کی تاریخ، اس کی شہادت کے اسباب، اس کے بعد کے سیاسی اور سماجی اثرات، اور اس کی قانونی پیچیدگیوں کو تفصیل سے بیان کریں گے۔
بابری مسجد کا تاریخی پس منظر
بابری مسجد کا تذکرہ ہندوستان کی تاریخ میں ایک متنازعہ مقام رکھتا ہے۔ اس کی تعمیر کا آغاز 1528 میں مغل بادشاہ بابر کے حکم پر ہوا تھا۔ ایودھیا، جو کہ ہندو مذہب کے پیروکاروں کے لیے ایک مقدس شہر تھا، میں واقع اس مسجد کی تعمیر نے بعد میں ایک سنگین بحث کو جنم دیا۔ ہندو قوم پرست تحریک کے مطابق، یہاں پر ایک قدیم رام مندر موجود تھا جسے بابر کے حکم پر توڑا گیا تھا اور اس کی جگہ مسجد تعمیر کی گئی تھی۔ دوسری طرف، مسلمانوں کا کہنا تھا کہ بابری مسجد کی تعمیر ایک معاہدے کے تحت ہوئی تھی اور اس کا کسی قدیم مندر سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
بابری مسجد کے حوالے سے تنازعہ نے تب مزید شدت اختیار کی جب 19 ویں صدی میں کچھ ہندو تنظیموں نے یہ دعویٰ کیا کہ مسجد کو رام کی جائے پیدائش پر بنایا گیا تھا۔ ان دعووں نے سیاسی اور مذہبی محاذ پر نیا تناؤ پیدا کیا اور اس کے بعد اس مسئلے پر عوامی سطح پر بحث شروع ہو گئی۔ 1949 میں مسجد کے اندر ایک ہندو مذہبی علامت رکھنے والے مجسمے کو رکھ دیا گیا، جس کے بعد حکومت نے مسجد کو سیل کر دیا تھا، اور پھر 1980 کی دہائی میں اس تنازعے میں مزید شدت آئی۔
1980 کی دہائی: فرقہ وارانہ تناؤ کا آغاز
1980 کی دہائی میں بھارت میں ہندو مسلم تعلقات میں مزید کشیدگی دیکھنے کو ملی۔ 1986 میں ایودھیا کی ضلعی عدالت نے ہندووں کو بابری مسجد میں درشن کرنے کی اجازت دے دی، جس سے ہندو قوم پرست تحریک کو مزید تقویت ملی۔ اس دوران، سیاسی میدان میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیڈروں نے اس مسئلے کو اپنے انتخابی مفاد کے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔
لال کرشن آڈوانی کی قیادت میں 1990 میں "رتھ یاترا” شروع کی گئی، جو ایودھیا تک پہنچی۔ اس یاترا کا مقصد رام مندر کی تعمیر کے لیے عوامی حمایت حاصل کرنا تھا۔ آڈوانی کی رتھ یاترا کے دوران ہندو قوم پرستی کی لہر میں تیزی آئی اور پورے ملک میں ہندو مسلمانوں کے درمیان تناؤ بڑھا۔ اس دوران مسلمان اپنے عقیدے اور حقوق کے دفاع میں سرگرم ہوئے، اور دونوں برادریوں کے درمیان تصادم کے امکانات بڑھ گئے۔
6 دسمبر 1992: بابری مسجد کی شہادت
6 دسمبر 1992 کا دن ہندوستان کی تاریخ میں ایک سیاہ باب کی مانند ہے۔ اس دن بی جے پی اور سنگھ پریوار کے حامیوں نے ایودھیا پہنچ کر بابری مسجد کی عمارت کو منہدم کر دیا۔ ہزاروں کی تعداد میں ہندو کارکنوں نے مسجد کے گنبدوں کو گرا دیا اور عمارت کو مکمل طور پر تباہ کر دیا۔ اس واقعہ کے دوران پولیس اور حکومت کی طرف سے کوئی مؤثر کارروائی نہیں کی گئی، جس کی وجہ سے ہجوم کو مسجد کی شہادت کا موقع مل گیا۔
اس دن کے بعد، پورے ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے۔ مسلم اکثریتی علاقوں میں ہندوؤں کے خلاف تشدد کیا گیا اور ہندو اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کے خلاف ردعمل سامنے آیا۔ ان فسادات میں ہزاروں افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہندوستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا اور پورے ملک کی سیاسی صورتحال بدل گئی۔
سیاسی اثرات
بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہندوستان کی سیاست میں ایک نیا موڑ آیا۔ بی جے پی نے اس واقعہ کو اپنے سیاسی مفاد کے لیے استعمال کیا اور اس کے نتیجے میں پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ 1991 میں بی جے پی کی اقتدار میں آنے کی راہ ہموار ہوئی، اور 1996 میں وہ پہلی بار مرکزی حکومت کا حصہ بنی۔
مسلمانوں کے ساتھ حکومت کی بدسلوکی اور بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلمانوں نے احتجاج کیا اور اس بات کی مانگ کی کہ انہیں اپنے حقوق دیے جائیں۔ اس دوران سیکولر جماعتوں نے اس بات پر زور دیا کہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم کی جائے، لیکن بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کے سخت موقف نے یہ کوششیں ناکام بنادیں۔ اس کے بعد ہندو قوم پرستی اور مسلمانوں کے حقوق کے درمیان ایک مسلسل جنگ کا آغاز ہوا۔
قانونی پیچیدگیاں اور مقدمات
بابری مسجد کی شہادت کے بعد اس معاملے کو حل کرنے کے لیے کئی قانونی جنگیں لڑیں گئیں۔ سب سے اہم مقدمہ ایودھیا کی زمین کے مالک ہونے کے حوالے سے تھا۔ مسلمانوں نے یہ دعویٰ کیا کہ بابری مسجد ان کی ملکیت ہے اور اس کی شہادت ایک غیر قانونی عمل تھا۔ دوسری طرف، ہندوؤں نے یہ دعویٰ کیا کہ رام کی جائے پیدائش پر مسجد کی تعمیر کی گئی تھی اور اس کے بدلے میں وہاں رام مندر کی تعمیر کی جانی چاہیے۔
الہ آباد ہائی کورٹ نے 2010 میں فیصلہ دیا جس میں ایودھیا کی زمین کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ ایک حصہ ہندو، دوسرا مسلم اور تیسرا حصہ سکھوں کے حوالے کیا گیا۔ تاہم، اس فیصلے کو مکمل طور پر تسلیم نہیں کیا گیا اور اس کے بعد اس معاملے میں سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی۔ 2019 میں سپریم کورٹ نے اس فیصلہ کو قبول کیا اور حکم دیا کہ بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کی جائے۔ اس کے بدلے میں مسلمانوں کو ایودھیا میں کسی اور جگہ پر مسجد کے لیے زمین دی جائے گی۔
بابری مسجد کی شہادت کے سماجی اثرات
بابری مسجد کی شہادت نے ہندوستان کی سماجی ساخت میں بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔ اس واقعہ کے بعد مسلمانوں کے درمیان احساسِ بے چینی اور خوف پیدا ہوا۔ انہیں محسوس ہوا کہ حکومت اور دیگر ریاستی ادارے ان کے حقوق کی حفاظت نہیں کر سکتے۔ دوسری طرف، ہندو قوم پرستی میں اضافہ ہوا اور ہندوؤں نے اپنے مذہبی ورثے کے تحفظ کی جدوجہد کو ایک نیا موڑ دیا۔
اس واقعہ کے بعد ہندوستان کے مختلف حصوں میں فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ بڑھ گیا۔ مسلمانوں نے اپنی جان و مال کے تحفظ کے لیے آواز اٹھائی، جبکہ ہندوؤں کی طرف سے رام مندر کی تعمیر کے لیے مسلسل دباؤ بڑھا۔
عالمی اثرات
بابری مسجد کی شہادت کا اثر نہ صرف ہندوستان میں بلکہ عالمی سطح پر بھی محسوس ہوا۔ مسلمانوں نے اس واقعہ کو ایک غمگین اور غیر قانونی عمل قرار دیا اور اس کے خلاف احتجاج کیا۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کی تنظیموں نے اس معاملے کو بین الاقوامی سطح پر اٹھایا، اور اس واقعہ کے خلاف مختلف مسلم ممالک میں مظاہرے ہوئے۔
بابری مسجد کی شہادت ایک ایسا واقعہ ہے جس کے اثرات آج تک محسوس کیے جا رہے ہیں۔ اس واقعے نے ہندوستان کے داخلی معاملات کو نیا رخ دیا، اور فرقہ وارانہ تناؤ کو مزید بڑھا دیا۔ اس کی قانونی، سیاسی اور سماجی پیچیدگیاں آج بھی موجود ہیں اور اس معاملے کا حل ایک چیلنج ہے۔
یہ واقعہ نہ صرف ہندوستان کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے بلکہ اس نے اس کے سماجی اور مذہبی توازن کو بھی متاثر کیا۔ آج بھی بابری مسجد کی شہادت پر مختلف رائے پائی جاتی ہیں، اور یہ واقعہ ہندوستان کے مستقبل کے لیے ایک سبق کی مانند ہے۔
تحریر : محمد گلشاد عالم
دارالھدی اسلامک یونیورسٹی کیرلا