اسکا مسلک تلاش کرنے کے بجائے
اسکو Postive Point of View سے ایک کامیاب سیاست داں کی نظر سے دیکھیں۔
امتیاز جلیل Times of India اخبار میں ایڈیٹر رہ چکا ہے۔ Dua Foundation کے ذریعے فلاحی خدمات اور Govt.Medical College Aurangabad کے ڈیولپمنٹ میں انکا خاص کردار رہا ہے جسے آج بھی غیر مسلم Appreciate کرتے ہیں۔
جب بھی گودی میڈیا اینکروں سے Debate ہوتی ہے اس میں یہ بندہ جزباتی ہونے کے بجائے حاضر جوابی سے علمی+الزامی جواب سے فریق مخالف کو جواب دیتا ہے ہر ڈیبیٹ میں Primarily مسلمانوں کے مسائل پر بات کرتا ہے۔
یہاں تک کچھ ڈیبیٹ میں بندہ Pure Marathi language میں ڈییبت کرتا ہے جسے سامنے والے پر ایک رعب و دبدبہ پڑتا ہے۔
اور رہی بات امتیاز جلیل سے پیر صاحب کا موازنہ کرنے کی تو ایک کام کریں۔
آپ اپنے پیر صاحب کو کہیں کہ اپنے صاحبزادے کو جانشینی پر بٹھانے کے بجائے امتیاز جلیل کے بیٹے کی طرح اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم و ڈگری دلوایں تاکہ وہ قوم کو کرامات اور نظرانوں کے بھروسہ چھوڑنے کے بجائے دین و سنیت کا بھی کچھ کام کرسکے۔
آپکی معلومات کے لیے بتادوں امتیاز جلیل صاحب نے اپنے بڑے بیٹے Bilal Jalil کو جرنلزم میں اعلی ڈگری Master of Journalism Post Graduate Degree حاصل کرنے کے لیے London University لندن یونیورسٹی سے تعلیم دلوائی۔
اور خاص بات یہ کہ شیو سینا کے لیڈر اودھو ٹھاکرے کا بیٹا ادتیہ ٹھاکرے انکا کلاس فیلو رہ چکا ہے۔
اب آپ خود سوچیں ایک سیاست داں اپنے بیٹے کو قابل بنانے کے لیے لندن یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم دلوانے کے بعد قوم کی قیادت کے لیے شہر اورنگ آباد مہاراشٹر میں AIMIM YOUTH کے لیے وقف کردیا ہے تاکہ آنے والے وقت میں پڑھے لکھے نوجوانوں کی قیادت ایک ذمے دار پڑھا لکھا نوجوان کرسکے۔