امت مسلمہ کے حالات

توہینِ رسالت کے معاملات میں مسلمان کیا کریں؟

توہینِ رسالت کے معاملات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں آئے دن اس طرح کی خبریں اخبار اور سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہتی ہیں اس طرح کے واقعات شر پسند عناصر کی جانب سے انفرادی اور اجتماعی دونوں سطح پر انجام دیے جا رہے ہیں جس سے نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ ہر انصاف پسند افراد کو قلبی اذیت اور ذہنی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان واقعات کے جواب میں بالعموم جذباتی قسم کے لوگ یا تو شور و ہنگامہ برپا کرتے ہیں یا پھر احتجاج اور مظاہروں کے ذریعے حکومت کو اس کے خلاف کاروائی کرنے کی درخواست کرتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس طرح کی جوابی کاروائیوں کے فوائد بالکل نہ کے برابر ہوتے ہیں اور نا ہی یہ بہترین اور مناسب رویہ ہے، ضرورت ہے کہ اس سلسلے میں سنجیدگی سے غور و فکر کے بعد ایک مناسب اور لائق عمل طریقہ اختیار کیا جائے۔
توہین مذہب یا توہین رسالت کے متعلق جب بھی اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں تو وہ دو وجہ سے پیش آتے ہیں؛

(1) توہین یا تو اہانت برائے اہانت محض عداوت و دشمنی میں رونما ہوتے ہیں۔
(2) یا پھر غلط فہمیوں کے نتیجے میں وجود پذیر ہوتے ہیں۔

دونوں صورتوں میں الگ الگ طریقہ اپنانا چاہیے اور دانشمندی کے ساتھ ان حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے۔
اگر پہلی صورت ہے یعنی اہانت برائے اہانت تو اس صورت میں متنازعہ فیہ مسئلے کی صحیح تصویر پیش کرنے کے بعد خاموشی اختیار کر لینی چاہیے، یہ حقیقت ہے کہ بہتان طرازی، الزام تراشی اور پروپیگنڈوں والے معاملات میں عملی طور پر رد عمل سے کہیں زیادہ مفید کردار خاموشی ادا کرتا ہے، ایسے معاملات میں بول کی طاقت پر خاموشی کی طاقت فتح لے جاتی ہے، ایک شخص اگر کسی کے خلاف کوئی بات کہتا ہے لوگوں میں اس کو اچھالتا ہے حتٰی کہ کتابی صورت میں بھی ان پروپیگنڈوں کو شائع کرتا ہے تو اس کو مات دینے کے لیے سب سے بہترین طریقہ یہی ہے کہ اسے خاموشی سے نظر انداز کر دیا جائے اور مثبت انداز میں اپنے مشن میں سرگرم عمل رہے، یہ خاموشی کا جواب ہی باطل پروپیگنڈوں کو مارنے اور ختم کرنے کے لیے کافی ہوگا، اسی خاموش کاروائی کو قرآن مجید نے ” اعراض “ کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے، اور اس اعراض عن الباطل کی مثال ہمیں خود پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بے شمار مل جائے گی، آپ علیہ الصلاۃ والسلام کو شاعر، مجنوں، دیوانہ، کاہن اور نہ جانے کن کن الفاظ سے پکارا گیا، مخالفین نے آپ پر ہی افترا کا الزام لگایا اور یہ کہا کہ آپ قرآن کو اپنی ہی جانب سے پیش کرتے ہیں، اور صرف آپ ہی کی ذات پر نہیں بلکہ آپ کی بیوی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر بھی شرمناک الزام لگائے مگر ان تمام صورتوں میں صحیح تصویر پیش کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم برابر اعراض عن الباطل کرتے رہے، ایسے معاندانہ پروپیگنڈوں کی طرف سے خاموشی اختیار کرتے رہے اور اپنی دعوت کے کاموں میں ہمیشہ سرگرم عمل رہے حتیٰ کہ وہ وقت بھی آگیا کہ تمام الزام لگانے والے پیوندِ خاک ہو گئے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات و دعوت اقصاے عالم تک پہنچ گئی۔

اہانت کی دوسری صورت وہ ہے جو غلط فہمیوں کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے ( اور اہانت کے واقعات پیش آنے کی سب سے بڑی وجہ شاید یہی غلط فہمی اور نادانی ہوتی ہے ) تو ایسے معاملات میں شور و ہنگامہ کی بجائے سب سے بہترین طریقہ یہی ہے کہ غلط فہمیوں کے ازالے کی کوشش کی جائے، جب بھی کسی شخص کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے تو اس کی ذات اور اس کی دعوت لوگوں کے درمیان گفتگو کا موضوع بن جاتی ہے، وہ لوگوں کے لیے ایک سوالیہ نشان کی صورت اختیار کر لیتا ہے تو ایسی صورت میں خود داعی اور اس کے ہم نواؤں اور ہم خیالوں کو ایک بہترین موقع ملتا ہے کہ وہ جھوٹے پروپیگنڈوں کی تردید کر کے اصل حقیقت کو واضح کردے، وہ اپنی باتوں کو مزید وضاحت اور دل نشیں انداز میں دلائل کے ساتھ لوگوں کے سامنے دوبارہ پیش کریں اور پروپیگنڈہ سے متاثر ہونے کے بجائے ماحول کی گرما گرمی کو اپنے لیے بہترین استعمال میں لائے، اگر مسلمان بھی ان حالات میں جذباتی ہنگامہ آرائیوں سے بچتے ہوئے مواقع کو اپنے لیے استعمال کریں گے اور اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات و تعلیمات کو مثبت انداز میں پیش کریں گے تو یقیناً یہ ایک بہترین اور نہایت مناسب طریقہ ہے اس سے نہ صرف مخالفین کا بر سرِ عام باطل ہونا معلوم ہو جائے گا بلکہ دوسری طرف پیغمبر کی پاک ذات بھی اپنی صحیح تصویر کے ساتھ رونق افروز ہوجائے گی ، پھر اس کا سب سے خوبصورت نتیجہ یہ ہوگا کہ نئے لوگ پیغمبر کی ذات و دعوت سے متعارف ہوں گے اور جو لوگ ابھی تک شبہات اور غلط فہمیوں کے شکار تھے وہ اس کے بعد یقین کے درجے تک پہنچ کر پیغمبر کے قریب ہو جائیں گے، لوگ اپنی آنکھوں سے جھوٹ کا جھوٹ اور پروپگنڈوں کا بے بنیاد ہونا دیکھ لیں گے اور یہ بھی دیکھ لیں گے کہ پیغمبر کی ذات کس قدر بے غبار اور کردار صاف و شفاف ہے، اور یہ بھی بعید نہیں کہ اس طرح کے مثبت رویے سے لوگ اور خود مخالف شخص بھی اسلام کے قریب ہو جائے اور اللہ تعالیٰ انہیں ایمان کی توفیق دے دے‌۔ اس طرح کی مثال ہمیں تاریخ میں درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں مل جائے گی کہ ایک شخص اولا اپنی غلط فہمیوں کی وجہ سے اسلام کا مخالف تھا مگر جب صحیح تعلیم ملی تو نا یہ کہ صرف وہ مسلمان ہو گئے بلکہ اسلام کے داعی اور مبلغ بھی بن گئے مثلاً سوامی شنکر آچاریہ نے اپنے غلط فہمیوں ہی کی بنیاد پر ایک کتاب لکھی تھی جس میں اسلام کو دہشت گردی سے جوڑ کر یہ تأثر دینے کی کوشش کی تھی کہ ” اسلام دہشت گردی اور خوں ریزی کا مذہب ہے اور ملک و بیرون ملک میں جتنے بھی دہشت گردانہ واقعات ہوتے ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ اسلام ہی ہے “ جب یہ کتاب چھپ کر آئی تو مخالفین نے اس کتاب کی خوب پذیرائی کی اور خوب سے خوب پھیلایا، اس وقت مسلمانوں کی طرف سے اس کتاب کے خلاف جو ہنگامہ ہونا تھا سو ہوا لیکن امت کے ہی چند اہل دل حضرات نے شور و ہنگامہ کے بجائے ان سے خصوصی ملاقات کی، ان کے سوالوں کے جوابات دیے، شبہات کے ازالے کیے اور چند قرآنی تراجم اور سیرت کی کتابوں کو مطالعے کے لیے دیا، مطالعے کے بعد جب سوامی شنکر آچاریہ پر حقیقت حال واضح ہوئی تو نا یہ کہ صرف اس نے توبہ اور اعلان برات کیا بلکہ اپنی کتاب کا جواب خود انہوں نے ہی ایک دوسری کتاب لکھ کر دیا، اس کتاب کا نام ” اسلام آتنک یا آدرش “ جس کا اردو ترجمہ ” اسلام دہشت گردی یا مثالی مذہب “ کے نام سے موجود ہے، یہ کتاب آج کئی ہندستانی زبانوں میں موجود ہے جس نے ہزاروں زہر آلود ذہنوں کی اصلاح کی ہے۔ اس طرح کے سنجیدہ اور مثالی رویے سے نا صرف اسلام کی صحیح اور سچی تصویر برادران وطن کے پاس پہنچتی ہے بلکہ ایسے مواقع پر اسلام کی اشاعت کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں جس سے سراسر فائدہ اہل اسلام ہی کو ہوتا ہے اور جس سے اہل دعوت کو دعوتی کاموں میں آسانیاں بھی ملتی ہیں۔ تو تمام مسلم برادران سے یہ درخواست ہے کہ ایسے تمام معاملات میں شور و ہنگامہ کے بجائے سنجیدگی اور گہرائی سے جائزہ لے کر ایک مثبت انداز میں داعیانہ کردار ادا کریں ، نہیں معلوم کہ آپ کے ایک اچھے انداز سے کسی کی دنیا ہی تبدیل ہو جائے۔

ازقلم: علقمہ صفدر ہزاروی

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے