ہماری قوم کے کچھ مسلم سیاسی رہنماؤں کو میدان سیاست میں اتر کر اپنی قوم کے افراد کے مستقبل کو
سنوارنے اور انہیں سنہری خواب دکھلانے میں ہاتھ پاؤں مارتے دیکھا جاتا ہے جہاں انفرادی طور پر قائدین اپنی اپنی پارٹیاں بنا کر اپنے اپنے بینر تلے متحد و متفق ہونے کی دعوت دیتے ہیں ان کی تحریک دعوت منشور سے کتنے لوگ متفق ہوتے ہیں ان کے نتائج ما بعد معلوم ہو جاتے ہیں اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے قوم کے کچھ افراد کے اندر سیاسی قیادت کا سلیقہ و ہنر نہیں بلکہ یہ کہا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں کہ سیاست کی "س” سے بھی واقفیت ہی نہیں آج ہر طرف سے مسلمانوں کو متحد و متفق ہو کر ایک پلیٹ فارم پر لانے کی بات کہی جاتی ہے جن میں سیاسی قائدین کے علاوہ علمائے دین کی بھی پر زور گزارشات ہوتی ہیں مگر ہم کئی ہتکڑویوں میں بٹ کر دوسری پارٹیوں کے امیدواروں کو فتح و کامرانی سے ہمکنار ہونے کا بھر پور موقع فراہم کرتے ہیں اپنے قیمتی اوقات ، ووٹ ونوٹ کی قربانیاں دینے میں فخر محسوس کرتے ہیں جس کا فائدہ غیر قوموں کے امیدواروں کو ملتا ہے۔ سیکولر ہندوستان میں جہاں مختلف مذاہب سے وابستہ لوگ کروڑوں کی تعداد میں میں ہر مذہب کے لوگ میدان سیاست میں اپنی قیادت وسیادت کیلئے کو شاں رہتے ہیں اور اپنی اپنی پارٹی کو فتح کرنا چاہتے ہیں ۔
مگر کچھ قائدین ایسے ہیں جو فتح حاصل کرنے کے بعد قومی ملی فلاحی رفاہی خدمات انجام دینے سے بلکل ہی پیچھے رہ جاتے ہیں ۔
اب انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا ہے کہ جن عوام نے ان کو اپنے قیمتی ووٹوں سے جتا کر ایوان میں بھیجا ہے وہی عوام عرش سے فرش پر بھی لانے پر قدرت رکھتی ہے ۔ ایسے مسلم سیاسی قائدین کو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے فرمودات، ارشادات عالیہ کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے ۔
قوم کے رہنما و رہبرکو قائد کہا جاتا ہے عرف عام میں یہ لفظ ’’ لیڈر یا نیتا‘‘ سے مشہور ہوگیا ہے جو قوم کی قدم قدم پر رہنمائی کرتا ہے،سیاسی و سماجی زندگی میں لوگ اس کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں مذہبی اصطلاح میں اسے ’’ امیر” کہتے ہیں اور جمہوری اصطلاح میں’’ صدر ‘‘کہتے ہیں، بس فرق صرف اتنا سا ہے کہ ’’ امیر‘‘ تادم حیات ہوتا ہے،یا وہ خود سبکدوش نہ ہوجائے،اور امیر شوریٰ کا منتخب شدہ ہوتا ہے اور صدر پانچ سالہ منتخبہ ہوتا ہے۔ فی زمانہ مسلمانوں کا کوئی متحدہ امیر نہیں ہے بلکہ دینی جماعتوں کے صدور’’ امیر‘‘ کہلائے جانے لگے اور یہ شرعی امیر نہیں ہوتے بعض علاقوں میں موروثی امارتیں قائم ہیں جو شرعی نہیں ہوتیں بلکہ یہ طرز ملوکیت ہے،جمہوری ملک میں امیر و صدر کے علاوہ کونسلر۔ ایم یل اے۔
ایم پی۔ ایم ایل سی بھی قوم کے نمائندے تصور کئے جاتے ہیں جو قوم کا ووٹ لیکر منتخب ہوتے ہیں ۔جو بھی مسلمان قوم کا رہبر و رہنما اور نمائندہ بن جاتا ہے اس کے لئے شریعت اسلامیہ رہنمائی کرتی ہے اور وہ شریعت کے اصول و ضوابط کا پابند ہوتا ہے۔ اگر کوئی بھی مسلمان قائد یہ سمجھتا ہے کہ وہ رقم خرچ کرکے منصب حاصل کیا ہے اور اس پر قوم کی ذمہ داریاں اس طرح عائد نہیں ہوتیں جیسے امیر المسلمین پر عائد ہوتی ہیں تو یہ اس کی خام خیالی ہے ۔سب سے پہلے وہ مسلمان ہے لہذا وہ شریعت کا مکلف ہوتا ہے اگر کوئی بھی مسلمان قائد ،لیڈر ، نیتا شریعت کی پابندی نہیں کرتا اور انسانی حقوق اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کرتا تو وہ عند اللہ مسئول رہے گا اس ضمن میں جو تعلیمات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا بیان کربا ضروری ہے۔
ہر مسلمان قائد رہنما اوو رہبر کو یہ جاننا ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’خبردار سن لو ! تم میں سے ہر شخص اپنی رعایا( یعنی ماتحت لوگوں) کا نگہبان ہے اور قیامت کے دن اپنی رعایا سے متعلق باز پرس ہوگی، لہذا امیر جو لوگوں کا حاکم ہو وہ نگہبان ہے اس سے ان کے متعلق باز پرس ہوگی‘‘( ابوداؤد:2928 )
اس حدیث شریف میں امیر ،صدر ،کونسلر ،ایم یل اے، ایم پی،ایم یل سی،وزیر سب شامل ہیں جو کسی نہ کسی طرح قوم کی نمائندگی کرتے ہیں اس ضمن میں وہ سب لوگ آجائیں گے جو قوم اور سماج کے نام پر خدمت خلق کی سوسائٹیاں اور ٹرسٹ چلاتے ہیں،وہ ایک طرف جمہوری نظام کے پابند ہیں تو دوسری طرف شریعت اسلامیہ کے بھی پابند ہیں، وہ یہ نا سمجھیں کہ وہ صرف جمہوری نظام کے پابند ہیں کیونکہ وہ سب سے پہلے مسلمان ہیں انھیں کسی نہ کسی طریقے سے انسانیت کی خدمت کا موقع میسر آیا ہے،عمومی طور پر عوامی منتخب شدہ نمائندے عوام کی حاجات کی تکمیل میں کوتاہی اور سست روی اختیار کرتے ہیں،وہ عوام سے ان کی تکالیف پر استفسار کرنا ضروری نہیں سمجھتے ،یا وہ عوام کو تسلی بخش جواب دینا مناسب نہیں سمجھتے، یا ان کے اٹکے ہوئے مسائل کو حل نہیں کرنا چاہتے، انھیں یہ اچھی طرح جاننا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اس حوالے سے سخت باز پرس ہوگی ایسے عوامی نمائندوں کو چاہئے کہ وہ اس حدیث کو اپنے پیش نظر رکھیں ۔ حضرت ابو مریم ازدی کہتے ہیں کہ میں حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے پاس گیا انہوں نے کہا بڑے اچھے وقت پر آئے، میں نے کہا :میں آپ کو رسول اللہ سے سنی ہوئی ایک حدیث سناتا ہوں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :’’ جسے اللہ تعالی مسلمانوں کے کاموں میں سے کسی کا ذمہ دار بنائے پھر وہ ان کی ضروریات اور ان کی محتاجی وتنگ دستی کے درمیان رکاوٹ بن جائے تو اللہ اس کی ضروریات اور اس کی محتاجی وتنگ دستی کے درمیان حائل ہوجاتا ہے‘‘ یہ سنا تو حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو مقرر کردیا جو لوگوں کی ضروریات کو سنے اور اسے پورا کردے۔( ابو داؤد :3728 /2948 )
آج امت مسلمہ کی زبوں حالی کی جو صورت حال ہے در اصل ہمارے قائدین کی غفلت اور لاپرواہی کا نتیجہ ہے ، بے روزگاری عام ہے جس کے سبب نوجوان نسل چوری ، ڈکیٹی ،قتل و غارت گری، فحاشی، بے حیائی، عریانیت، اور ریپ جیسی وارداتیں انجام دے رہی ہیں ، ملازمتیں نہ ملنے کے سبب تعلیم یافتہ نوجوان نچلے درجے کے کام اختیار کئے ہوئے ہیں ، شعور کا فقدان ہونے کے سبب غریب طبقہ اپنی اولاد کو تعلیم دلانے سے قاصر ہے ، مساجد میں بیت المال کا نظام قائم نہ ہونے کے سبب غیر مسلم رہن سنٹرس قائم کئے ہوئے ہیں اور سودی بازار پرجوش ہے جہاں ظلم و ستم کے علاوہ مسلم خواتین کی عصمت لوٹی جا رہی ہے،فاقہ کشی کے سبب خواتین جسم فروشی کا پیشہ اختیار کی ہوئی ہیں ۔ایسا نہیں ہے کہ قائدین ،رہنما و رہبر ان حالات سے نا واقف و نا آشنا ہوں چاہے وہ دینی رہنما و پیشو ہوں یا سیاسی قائدین سب ملت کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہے ہیں ۔دراصل یہ لوگ اللہ کے ڈر سے بے خوف ہوچکے ہیں، تقاریر و خطابات جمعہ و اجتماعات کی شعلہ بیانی سے انقلاب و تبدیلی نہیں آئیگی بلکہ میدان عمل کی ضرورت ہے ۔
امیر، صدر،اور قائد طاقت و قوت اور بالادستی اور عوامی تائید کا دھونس جماکر لوگوں سے اپنے افکار و نظریات منوانے میں لگے ہوئے ہیں چاہے وہ صحیح ہوں یا غلط ،عوام کو ماننے پر مجبور کرواتے ہیں انہیں خوف زدہ کیا جاتا ہے ، جو بھی آدمی حق کہتا ہے یا حق کی آواز اٹھاتا ہے تو اس کی مخالفت کی جاتی ہے اس سے کہا جاتا ہے کہ امیر کا فیصلہ ہے ماننا پڑے گا ؟ صدر کا فیصلہ ہے ماننا پڑے گا ؟ قائد کا فیصلہ ہے ماننا پڑے گا، امیر کا فیصلہ ماننا پڑے گا ۔ اس ضمن میں رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے ارشادت کو پیش نظر رکھنا ہر مسلمان کا فریضہ ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’مسلمان آدمی پر أمیر کی بات ماننا اور سننا لازم ہے چاہے وہ پسند کرے یا نہ کرے ، جب تک کہ اسے کسی نافرمانی کا حکم نہ دیا جائے ، جب اسے نافرمانی کا حکم دیا جائے تو نہ سننا ہے اور نہ ماننا ہے‘‘ ۔( ابوداؤد:2626 )
اسی طرح ایک اور حدیث شریف میں ہے حضرت مولی علی مرتضی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :اللہ عزوجل کی جہاں نافرمانی ہوتی ہو وہاں مخلوق کی اطاعت و تابعداری نہیں کی جاسکتی‘‘ ( مسند احمد: 12116 / شرح السنۃ:3696 )
اسی طرح ایک اور حدیث شریف میں ہے حضرت أنس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : جو اللہ کی اطاعت نہیں کرتا اسکی بھی اطاعت نہیں کی جائیگی‘‘( فیئض القدیر: 9901)
اسی طرح ایک اور حدیث شریف میں ایک أمیر( جن کا نام عبد اللہ بن حزافہ سہمی تھا اور بعض نے کہا کہ علقمہ بن مجزر تھا ۔رضی اللہ عنہما۔ )کا واقعہ یوں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابو التراب علی مرتضی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اور ایک آدمی کو اس کا امیر بنایا اور لشکر کو حکم دیا کہ اس کی بات سنیں ۔اور اس کی اطاعت کریں ۔ اس آدمی نے آگ جلائی اور لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اس میں کود پڑیں لوگوں نے اس میں کودنے سے انکار کردیا اور کہا: ہم آگ ہی سے بھاگے ہیں اور کچھ لوگوں نے اس میں کودنا چاہا ، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا :’’ اگر وہ اس میں داخل ہوگئے ہوتے تو ہمیشہ تو ہمیشہ اسی میں رہتے ‘‘ اور فرمایا : اللہ کی معصیت و نافرمانی میں کسی کی اطاعت و فرمانبرداری نہیں ،اطاعت تو بس نیکی کے کام میں ہے‘‘( ابوداؤد:2625 )
ذکر کردہ تمام احادیث سے اس بات کی تعلیم ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کے کاموں میں امیر ، صدر ،قائد کی بات مانی جائیگی لیکن اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کے کاموں میں ان کی اطاعت نہیں کی جائیگی، غور کرو آج دینی جماعتوں میں انتشار ، مسلم قائدین کے اختلافات اسی نافرمانی کا حصہ ہیں ، مدارس، مساجد ، مکاتب میں کتنی خونریزیاں ہوچکی ہیں دین اور اطاعت کے نام پر نفوس قدسیہ صحابہ اکرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر انگشت نمائی کی جارہی ہے اور زبان لن ترانی دراز کی جارہی ہے اور کروائی جارہی ہے مساجد و مدارس پر حملے کروائے جارہے ہیں، ہماری خانقاہیں محفوظ نہیں، شوشل میڈیا پراسلام کا غلط رخ پیش کیا جا رہا ہے ، غریب عوام پر ظلم و ستم کیاجارہا ہے،اسلام کی دعوت و تبلیغ کی ذمہ داریاں ادا کرنے والے داعی و داعیات مردو خواتین کو ڈرایا اور دھمکایا جارہا ہے اور ان پر بے جا و ناجائز مقدمات درج کروائے جارہے ہیں، یہ سب رہبروں اور رہنماؤں اور قائدین کے اشاروں پر ہورہا ہے چاہے وہ مذہبی رہنما ہوں یا سیاسی بازیگر، لوگوں کو چاہئے کہ وہ اس بات کا خیال رکھیں چاہے وہ عالم دین ہو یا مفتی ،علامہ ہو یا کوئی بھی قائد و رہنما، ان کے اشاروں پر نہ ناچیں بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکام کو اپنے پیش نظر رکھیں۔
اللہ سبحانہ وتعالی کے ہاں جوابدہی کا ڈر و خوف ہر وقت رکھنا چاہئے چونکہ یہ دنیا عارضی ہے نہ جانے موت کب آجائے،اور اللہ کے ہاں کوئی معاون مدد نہ ہوگا اسی لئے عہدوں کی طلب، مناصب کی خواہش نہیں رکھنا چاہئے ، بعض احباب میں عہدوں و مناصب کی خواہش بہت زیادہ ہوتی اور اس کے حصول کے لئے وہ جنگ و جدال سے کام لیتے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کے ذریعہ سے انہیں عزت ووقار نصیب ہوگا ۔حالانکہ بات ایسی نہیں ہے بلکہ اس سے دوری اختیار کرنا چاہئے چونکہ یہ دنیا میں عوام الناس کے روبرو اور آخرت میں اللہ تعالی کے روبرو سخت جوابدھی کا معاملہ ہے۔
ازقلم: خان حبیبہ اکرام، ممبئی