دین اسلام مسلمانوں کو اُن افعال و اعمال سے بھی منع فرماتا ہے جو ظاہراً مباح ہوتے ہیں لیکن انجام کار انسان کو فساد اور فعل محظور تک پہنچتانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اس کوفقہ کی اصطلاح میں سد الذرائع کہتے ہیں اور اس کا استعمال مالکی اور حنبلی مذہب میں بہ کثرت ہوتا ہے۔ جیسے بارگاہ رسالت مآب ؐکا ادب سکھاتے ہوئے خلاق دوجہاں ارشاد فرماتا ہے اے ایمان والو راعنا نہ کہو بلکہ کہو ہم پر نظر کرم فرمائیں اور پہلے غور سے سنو۔ بظاہر لفظ راعنا کا استعما ل کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن راعنا کے ایک معنی بکری چرانے والے کے بھی آتے ہیں جو اکثر یہود مرادلیتے تھے اسی لیے اللہ تعالی نے مسلمانوں کو لفظ راعنا کہنے سے منع فرمایا دیا چونکہ اس لفظ کے استعمال میں رسول عربیؐ کی شان میں بے ادبی اور گستاخی کا شائبہ ہے جو انسان کو کافر بنا سکتا ہے ۔اسی لیے اللہ تعالی رعایت کیجیے کے بجائے نظر کرم کیجیے کہنے کا حکم فرمایا پھر دربار مصطفیؐ کے اعلی ادب کو ملحوظ رکھنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا جب میرا حبیب ؐتم سے مخاطب ہو تو ہمہ تن گوش ہوجائو تاکہ یہ عرض کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے کہ حضور ہم پر نظر کرم کیجیے کیونکہ دربار نبوت کا یہی ادب ہے۔ اسی لیے اللہ تعالی نے لفظ راعنا کے جائز استعمال ہونے کے باوجود اس کے استعمال سے منع فرمایا دیا چونکہ یہ استعمال انسان کو اولاً بے ادبی پھر کفر کی طرف لیجانے کا سبب بنتا ہے۔ قرآن مجید مسلمانوں کو نہ صرف قولی و فعلی بدکاریوں اور برائیوں کے ارتکاب سے روکتا ہے بلکہ ظاہر و باطن اور جلوت و خلوت میں جذبات کو برانگیختہ کرنے اور لبھانے والے افعال و اعمال کے قریب بھٹکنے سے بھی منع کرتا ہے ۔اسلام کے اس انسانیت نواز اور سنہری اصول سے اعراض کرنے کا ہی شاخسانہ ہے کہ مسلم معاشرے میں سماجی برائیاں برق رفتاری کے ساتھ پھیل رہی ہیں۔ آج کا مسلمان بالخصوص نوجوان نسل اسلامی تعلیمات سے اس قدر دور ہوچکی ہے کہ آج دنیاوی مفادات کے حصول کے لیے سوشیل میڈیا پر دل میں گناہوں کی تحریک پیدا کرنے والے برہنہ تصاویر، غلیظ لٹریچر، نیم برہنہ رقص اور فحش باتوںوالی ریل اور ویڈیواپ لوڈکررہے ہیں جس سے انسان کے خوابیدہ و منفی جذبات بھڑک اٹھتے ہیں اور انسان ان کی لبھانے والی تاثیر کی زد میں آکر گناہوں کی طرف بہ آسانی مائل ہوجاتا ہے۔ آج کا مسلمان فروعی و گروہی اخلاقات کو فراموش کرکے وقف ترمیمی بل 2024 کا شدت کے ساتھ مخالفت کررہا ہے جو اس کا مذہبی و دستوری حق بھی ہے لیکن بے راہ روی کا شکار نوجوان نسل اور ان کے غیر ذمہ دار والدین کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیوں نہیں کرتے؟ اگر مسلمان اپنی اور اپنی قوم کی اصلاح پر توجہ دیں تو ممکن ہی نہیں کہ کوئی مخالف و معاند اسلام مسلمان اور اسلام کو تنقید کا نشانہ بنائے۔ جب انسان آخرت میں جوابدہی کے اساسی تخیل سے خالی ہوجاتا ہے، جب وہ حیوانیت کی طرح اخلاقی حس سے محروم ہوجاتا ہے تو اس کے اندر کی گندگیاں اور غلاظتیں ابھر کر برسر عام آجاتی ہیں، انسان بدترین اخلاقی صفات کا مظاہرہ کرنے لگتا ہے ، جہاں بھی وہ جاتا ہے اس مقام کو قحبہ خانے اور قمار بازی کے اڈوں کی طرح قابل نفرت بنادیتا ہے اس طرح ہر طرف برائی کا بازار گرم ہوجاتا ہے ، ہر انسان مسائل و مشاکل سے دوچار ہوجاتا ہے، حقوق انسانی پر دست درازی کرنا کارِ ثواب بن جاتا ہے ، مفاد پرستی کے سامنے مذہبی تعلیمات کی اہمیت عملاً ختم ہوکر رہ جاتی ہیں، خبیث نیت کے ساتھ بدسیرت و کردار کے حامل لوگ مسند رشد و ہدایت پر بیٹھنے لگتے ہیں، مومنانہ کردار خود غرضانہ شقاوت کی بھینٹ چڑ جاتا ہے، پھر آہستہ آہستہ انفرادی خرابیاں اجتماعی برائیوں کی شکل اختیار کرجاتی ہیں،اخلاقی اقدار پر مبنی اسلامی تہذیب و تمدن کی عمارت منہدم ہوجاتی ہے اور بالآخر انسانی معاشرہ کا سکون و اطمینان برباد ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالم انسانی کو بداخلاقی کی نحوستوں سے بچانے کے لیے دین اسلام نے اخلاق کو ایمانیات، عبادات، معاملات کے لیے روح قرار دیا ہے جس کے بغیر یہ تمام امور رب کے حضور ناقابل قبول ہیں۔ اگر مسلمان چاہتے ہیں کہ طوفان کی طرح امڈتی چلی آرہی اخلاقی خرابیوں کو روکیں تو ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے آپ کو چنداعمال، چند رسوم اور چند پابندیوں تک محدود رکھنے کے بجائے دین اسلام میں پورے داخل ہوجائیں اور اپنے کردار کو دین اسلام کی اخلاقی تعلیمات کے مطابق سنواریں جو وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ دین اسلام اپنے ماننے والوں کے کردار کو اخلاق کے اعلی اقدار اور معیارات سے نہ صرف سنوارنا چاہتا ہے بلکہ ان کے کردار میں اس قدر شفافیت و پاکیزگی لانا چاہتا ہے کہ وہ نجس، ناپاک اور حرام اشیاء و افعال کا استعمال کرنا تو درکنار ا ن کے قریب جانے سے بھی اپنے ماننے والوںکو روکتا ہے یعنی ہر اس فعل و عمل سے بچنے کی تلقین و تاکید کرتا ہے جو انسان کو گناہوں کی طرف لیجانے کا داعیہ بنتے ہیں تاکہ مسلمان اغیار کے لیے مکارم اخلاق اور محاسن اعمال کا اعلی نمونہ بن جائے اور مومن کی زندگی کے تمام مہتم بالشان امور بشمول عقائد، معاملات، معاشرت اور عبادات کے حیات آفریں اثرات سے انسانی معاشرے کو کما حقہ مستفید ہونے کا موقع مل سکے۔ فواحش و منکرات ،مال یتیم پر ناجائز قبضہ اور زنا وہ سنگین جرائم ہیںجس سے مقاصد شریعت فوت ہوجاتے ہیں اسی لیے قرآن مجید ان جرائم کا ارتکاب تو کجا ان اسباب و علل سے بھی اجتناب کرنے کی تلقین فرماتا ہے جس کی وجہ سے انسان ان گناہوں کے ارتکاب کی طرف مائل ہوتا ہے۔ انہی عوامل اور محرکات پر قدغن لگانے کے لیے دین اسلام نے عبادات کا نظام عطا فرمایا اگر ہم خلوص دل اور حسن نیت کے ساتھ اس نظام کو اپنائیں گے اور عبادات کی روح کو سمجھتے ہوئے عبادات بجالائیں گے تو ممکن ہی نہیں کہ انسان کی فطرت گناہوں کی طرف مائل ہو۔ لیکن صدحیف مسلم معاشرے کا تاریک پہلو یہی ہے کہ آج مسلمانوںکی اکثریت عبادات بجالارہی ہے لیکن عبادات کی روح سے اپنے کردار کو سنوارنے میں بری طرح ناکام ثابت ہورہی ہے ۔ رب کائنات جس طرح ہر چیز سے بے نیاز ہے اسی طرح وہ ہماری عبادتوں سے بے بھی مستغنی ہے ۔اللہ رب العزت نے ہم پر نمازوں کو اس لیے فرض نہیں کیا کہ اسے ہمارے رکوع و سجود کی ضرورت ہے۔ کسی مسلمان کا یہ عقیدہ بھی نہیں ہوسکتا کہ اگر وہ نماز پڑھتا ہے تو اس کی وجہ سے رب کائنات کی کبریائی میں کوئی اضافہ ہوگا اور نہ پڑھنے کی صورت میں اس کی شان جلالت میں کوئی کمی واقع ہوگی۔ نماز کی غایت اور مقصد وحید یہی ہے کہ پنچوجہ نماز کی ادائیگی کی تربیت سے بندہ مومن کے اندر میں عاجزی و انکساری پیدا ہوجائے۔ کاش ہم عاجزی و انکساری کا پیکر بن گیے ہوتے تو ہمارے درمیان حسب و نسب، مال و دولت، مرتبہ و منصب اور علم و تقوی کی بنیاد پر امتیازات نہ ہوتے۔ یہ اس بات کی کھلی نشانی ہے کہ ہم نماز ضرور پڑرہے ہیں لیکن مسلمانوں کی اکثریت روح نماز کے حصول میں پوری طرح ناکام ہوچکی ہے۔اگر ہم ضرورت سے زیادہ غذائی اشیاء استعمال کریں تو رب کائنات کے خزانوں میں رتی برابر کمی آنے والی نہیں ہے اور نہ ہمارے غذا کو ترک کرنے سے اس کے ذخیروں میں کوئی اضافہ ہونے والے اس کے باوجود ہم پر روزے اس لیے فرض کیے گیے ہیں تاکہ ہم نفسانی خواہشات کو قابو پانے کا سلیقہ و طریقہ سیکھ جائیں کاش مسلمانوں کی اکثریت روزوں کی تربیت سے کما حقہ مستفید ہوتی توکوئی مسلمان قتل و غارت گیری میں ملوث نہ ہوتا، کوئی مسلمان شراب کا عادی نہ بنتا، کوئی مسلمان سود خودی میں مبتلا نہ ہوتا، کوئی مسلمان خواتین کو ظلم و ستم کا شکار بناتا اور نہ ہی ان کا استحصال کرتا، کوئی مسلمان جھوٹ ، فریب ،خیانت اور دھوکہ دہی جیسے سنگین گناہوں کا ارتکاب نہ کرتا، الغرض کوئی مسلمان نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے حدود الٰہیہ کو پامال نہ کرتا۔ روزے رکھنے کے باوجود نفسانی خواہشات کا اسیر بنے رہنا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ہم روزے کے دنیاوی و اخروی فوائد ومنافع حاصل کرنے سے محروم ہوچکے ہیں۔ زکوٰۃ ہم پر صرف اس لیے فرض نہیں ہوئی کہ ہم غریبوں کی مالی امداد و اعانت کریں بلکہ فرضیت زکوٰۃ کا اصل مقصد و ہدف مسلمانوں کی دل سے مال کی محبت کو نکالنا ہے ورنہ جس رب نے ہمیں مالدار بنایا ہے وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ غریب کو مالدار بناکر ہمیں غریب بنائے اور اس کے دروازے پر ہمیں سائل بناکر بھیجے۔ آج مسلمانوں کی اکثریت ایسی ہے جو پابندی سے زکوٰۃ دیتی ہے لیکن اس کے باوجود حرام ذرائع سے پیسہ کماتی ہے بلکہ بعض مسلمان تو ایسے ہیں جو حرام ذرائع سے کمائی ہوئی دولت سے زکوٰۃ، صدقات اور خیرات دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ بہت بڑی نیکی کا کام کررہے ہیںجبکہ علمائے اعلام نے بیان فرمایاکہ اگر کوئی مسلمان حرام قطعی جیسے ، سود، رشوت ، چوری اور غصب کردہ اموال کو ثواب کی نیت سے بطور صدقہ دیگا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ (العیاذ باللہ ) مسلم معاشرے میں بہت کم گھرانے ایسے ہوں گے جہاں حرام ذرائع سے اموال نہ آتے ہوں اس کا مطلب یہی ہوا کہ ہم زکوٰۃ ، صدقات اور خیرات دے رہے ہیں لیکن اس کی روح کو نہیں سمجھ پائے۔ لاکھوں روپیہ خرچ کرکے، اپنوں سے بچھڑنے کا درد محسوس کرکے، سفر کی صعوبتیں برداشت کرکے، ذاتی آسائشوں کو قربان کرکے ایک ہی لباس،ایک بولی اور ایک میدان میں قیام کرکے حج کا رکن اعظم وقوف عرفات کرتے ہیں، یکسانیت کے ساتھ تمام مناسک حج ادا کرتے ہیںجس کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق پیدا ہوجائے لیکن حج جیسی سعادت عظمی حاصل کرنے کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت اپنے سینوں کو کینہ ، بغض اور نفرت سے خالی نہیں کرپا رہے ہیںجو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ہم نے ظاہراً مناسک حج ادا کیے ہیں لیکن حج کے مقصد کو فوت کردیا ہے۔ یہی وہ عوامل ہیں جس کی وجہ سے انسانی معاشرے بالخصوص مسلم معاشرے میں گناہ تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ اگر مسلمانوں کو اسلام کے نظام عبادات کے ظاہری و باطنی فوائد و منافع سے کماحقہ مستفید ہونا ہے تو انہیں ان تمام افعال و اعمال اور ذرائع و وسائل کو بھی ترک کرنا پڑے گا جو فی نفسہ مباح و جائز ہیں لیکن وہ ناجائز فعل کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ان امور کے مفضی الی الحرام ہونے کے باعث ان میں حرمت آجاتی ہے لہٰذا ان سے بھی بچنا از حد ضروری ہوجاتا ہے۔آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفی اس ماہ ِمبارک میں تمام مسلمانوں کو اپنی رحمت، مغفرت سے سرفراز فرمائے اور دوزخ سے نجات عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔
ازقلم: پروفیسر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی
کامل الحدیث جامعہ نظامیہ ، M.A., M.Com., Ph.D (Osm)