ملک کی فضا مسموم ہوچکی ہے، نفرت نے محبت کو زیر کردیا ہے، گنگا جمنی تہذیب پر ہندتوا نقطہ نظر نے سبقت لے لی ہے۔ آج یہاں ہر کوئی ایرا غیرا نتھو خیرا سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے جب چاہتا ہے منہ کا گٹر کھول دیتا ہے، نفرتی بیان بازیوں کا بازار گرم ہے، آئے دن مقدس شخصیات کی توہین مشغلہ ہر خاص و عام بن چکا ہے اور نشانے پر اسلام ومسلمان ہیں فقط۔
ملک میں جب بھی کسی کو شہرت حاصل کرنی ہوتی ہے یا اپنی سیاسی روٹی سینکنی ہوتی ہے تو وہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو پیروں تلے روند دیتا ہے پھر چاہے وہ خصیہ برداری کرنے والا چھوٹا موٹا نیتا ہو یا آئینی عہدے پر بیٹھا ذمہ دار لیڈر، کھانے پینے کا سلیقہ نہ جاننے والا عام آدمی ہو یا کسی مٹھ کا مہنت۔
پھر ہوتا کیا ہے؟۔۔۔ مسلمان احتجاج کرتے ہیں اور دوسرے لوگ آگ میں گھی ڈالنے کا کام کرتے ہوئے ایسے ناہنجاروں کی طرف دار میں اتر آتے ہیں، مزید مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچایا جاتا ہے اور دنگے فساد بپا کر وا کر ملک کی فضا زہر آلود کردی جاتی ہے۔ اور یہ سب ایسا ہوپاتا ہے کیوں کہ جب ایسا معاملہ رونما ہوتا ہے تو کلیدی مجرم کو چھوڑ کر اس کی مخالفت کرنے والوں کو طرح طرح کے جھوٹے الزامات میں پھنسا کر ان کی عزت و آبرو، مال و دولت حتیٰ کہ جان تک سے کھلواڑ کیا جانے لگتا ہے۔
حالیہ معاملہ کو ہی دیکھ لیں! غازی آباد کے ڈاسنا مندر کا نام نہاد مہنت نرسنہانند نے پیغمبر اسلام اور ان کے صحابہ(ساتھیوں) کی شان میں شدید ترین گستاخی کرتے ہوئے (معاذ اللہ) ان کا پتلا جلانے کی بات کہی۔ جس کا ویڈیو سوشل میڈیاپر وائرل ہو کر مسلمانوں تک جا پہنچا، ان کے پیروں تلے زمین کھسکنے لگی، چونکہ معاملہ ان کی جان سے کروڑوں درجہ عزیز ان کے پیغمبر کی توہین کا تھا اس لیے وہ سراپا احتجاج بن گئے؛ وہ ملک کے ہر گوشے میں امن و شانتی کے ساتھ احتجاجی جلوس نکال کر انتظامیہ کو گستاخ رسول کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کرنے لگے، چند ایک جگہ ایف۔آئی۔آر۔ درج تو ہوئی مگر معنیٰ خیز کارروائی کا پتہ نہیں چلا۔ البتہ تین چار روز قبل یہ خبر عام ہوئی کہ غازی آباد پولیس نے گستاخ رسول نرسنہانند کو گرفتار کرلیا ہے، مسلمانوں نے تھوڑی راحت کی سانس لی مگر دراصل اسے صرف تھانے بلا کر پوچھ تاچھ کی گئی تھی اور جس دفعات میں اس کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا وہ بھی معمولی تھے جن میں زیادہ سے زیادہ سزا ایک سال کی قید ہوسکتی تھی۔ مگر (روزنامہ انقلاب کی رپورٹ کے مطابق) اسے رہا کردیا گیا۔ مزید برآں اس کے خلاف احتجاج کرنے والے چھ مسلم نوجوانوں کو حراست میں لے لیا گیا، گستاخی والا ویڈیو توڑ مروڑ کر شیئر کرنے کے الزام میں معروف صحافی محمد زبیر (شریک بانی آلٹ نیوز فیکٹ چیکر) سمیت کئی لوگوں کے خلاف ایف۔آئی۔آر۔ درج کر لیا گیا، احتجاجی تحریریں پوسٹ کرنے والے مشہور اسلامی اسکالر سمیع اللہ خان سمیت متعدد سوشل میڈیا صارفین کو آئی۔ٹی۔سیل کی طرف سے نوٹس بھیج دیا گیا۔ سچ ہے
اب کہاں ڈھونڈنے جاؤ گے ہمارے قاتل
آپ تو قتل کا الزام ہمیں پہ رکھ دو
اب ذرا غور کریں کہ جو اصل مجرم ہے اس کو چھوڑ کر اس کی مخالفت کرنے والوں کو ہی جب ہراساں کیا جائے گا تو ایسے مجرموں کا حوصلہ کتنا بلند ہوگا؟ اور،ملک میں جرائم کس حد تک بڑھیں گے؟
تحریر: محمد شعیب رضا نظامی فیضی
استاذ و مفتی: جامعہ رضویہ اہل سنت، گولا بازار ضلع گورکھ پور