تحریر: آصف جمیل امجدی
اسلامی تاریخ کی روشنی میں وقف ایک مقدس اور لازوال عمل ہے جو اللہ کی رضا کے لیے کی جانے والی املاک اور وسائل کا مستقل طور پر انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کرنے کی نیت پر مبنی ہوتا ہے۔ وقف اسلامی تعلیمات کا ایک حصہ ہے اور مسلمانوں کے لیے ایک بہت بڑی عبادت سمجھا جاتا ہے۔ یہ وہ عمل ہے جس کے ذریعے مساجد، مدارس، یتیم خانے، شفاخانے، اور دیگر فلاحی ادارے قائم کیے جاتے ہیں۔ لیکن آج، وقف کی اس مقدس حیثیت کو ایک نئے قانون کے ذریعے تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو مسلمانوں کے مذہبی، تعلیمی، اور معاشرتی فوائد کو زبردست نقصان پہنچا سکتا ہے۔
نئے وقف ترمیمی بل کے تحت وقف املاک پر حکومت کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس ترمیم کے ذریعے مسلمانوں کی مذہبی خود مختاری کو چیلنج کیا جا رہا ہے اور وقف املاک پر ان کا حق ختم کرنے کی راہیں ہموار کی جا رہی ہیں۔ اس بل کی بدولت وقف املاک کو حکومتی کنٹرول میں لے کر ان کا استعمال مسلمانوں کی مرضی کے بغیر کیا جا سکتا ہے۔
یہ بل ایک واضح پیغام ہے کہ اگر اس پر خاموشی اختیار کی گئی، تو مسلمانوں کی مذہبی اور فلاحی سرگرمیاں براہ راست متاثر ہوں گی۔ وہ مساجد جو صدیوں سے مسلمانوں کی عبادت کا مرکز رہی ہیں، وہ مدارس جو علم کا چراغ جلائے ہوئے ہیں، اور وہ یتیم خانے جو بے سہارا لوگوں کا سہارا ہیں، سب اس ترمیم کی زد میں آ سکتے ہیں۔
اسلامی شعائر اور دینی ورثہ کا نقصان:
مسلمانوں کے لیے وقف کی بنیاد دین اسلام کے شعائر اور ان کے فلاحی اداروں کی بقا ہے۔ اگر وقف املاک پر حکومت کا قبضہ ہو گیا تو یہ صرف ایک قانونی معاملہ نہیں ہوگا، بلکہ مسلمانوں کی مذہبی آزادی اور اسلامی ثقافت کا ایک بہت بڑا حصہ بھی ختم ہو جائے گا۔
کیا ہم اس بات کا تصور کر سکتے ہیں کہ ہماری مساجد اور مدارس کو حکومتی پالیسیوں کے تحت چلایا جائے؟ کیا ہم اس بات پر راضی ہو سکتے ہیں کہ یتیموں اور غریبوں کے لیے بنائے گئے اداروں کو کسی اور مقصد کے لیے استعمال کیا جائے؟ یہ بل مسلمانوں کی خود مختاری اور ان کے دینی ورثے کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔
"یہ وقت ہے جاگنے کا، ہوشیار ہونے کا،
نہ کہ خاموشی سے اپنے ورثے کو لٹنے دینے کا!”
قوم کی غفلت اور ذمہ داری:
آج مسلمانوں کی سب سے بڑی کمزوری ان کی غفلت اور خاموشی ہے۔ ہم نے اپنی مذہبی اور سماجی حقوق کی حفاظت کے لیے جوش و ولولہ کھو دیا ہے۔ اس وقف ترمیمی بل کے خلاف کھڑا ہونا ہماری دینی اور قومی ذمہ داری ہے۔ یہ بل صرف ایک قانونی مسئلہ نہیں ہے، یہ ہماری قوم کے وجود اور ہمارے دینی شعائر کی بقا کا مسئلہ ہے۔
ہمیں اس وقت بیدار ہونا ہوگا، ورنہ آنے والی نسلیں ہماری غفلت کا شکار ہوں گی اور ہمیں تاریخ میں غفلت پسند قوم کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ آج اگر ہم نے اس قانون کے خلاف آواز نہ اٹھائی تو کل ہماری مساجد، مدارس، اور فلاحی ادارے ختم ہو جائیں گے اور ہمیں کسی کا سامنا کرنے کی ہمت نہ ہوگی۔
"ہم نے اگر آج آواز نہ اٹھائی،
تو کل ہماری پہچان ہی مٹ جائے گی”
اتحاد کی ضرورت:
اس نازک وقت میں بنام مسلم قوم مسلم کو اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا۔ ہر مسلک، ہر طبقہ، ہر فرد کو اس معاملے میں شریک ہونا پڑے گا۔ یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے، یہ مسلمانوں کے وقار اور عزت کا معاملہ ہے۔ علماء، دانشور، طلبہ، اور عام مسلمانوں کو ایک ساتھ مل کر اس بل کے خلاف مضبوط موقف اختیار کرنا ہوگا۔
"اتحاد میں ہے طاقت،
اور اسی سے ہوگا دشمن کا مقابلہ”
مسلمانوں کو اس وقف ترمیمی بل کے سنگین نتائج کا ادراک کرنا ہوگا۔ یہ وقت خاموش بیٹھنے کا نہیں، بلکہ اپنی مذہبی و قومی خود مختاری کے تحفظ کے لیے جدوجہد کرنے کا ہے۔ اگر آج ہم خاموش رہے تو کل ہمارا وجود ہی ختم ہو سکتا ہے۔ ہماری مساجد، مدارس، اور فلاحی ادارے ہماری پہچان ہیں، اور ان کی حفاظت کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔
"جاگو مسلمانوں! وقت تمہاری آزمائش کا ہے،
ورنہ یہ غفلت تمہاری تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے”
اللہ ہمیں اس آزمائش میں سرخرو فرمائے اور ہمارے دین و ایمان کی حفاظت کرے۔ آمین۔
[مضمون نگار روزنامہ "شانِ سدھارتھ” کے صحافی ہیں]