ایک ترک مسلمان مسجد نبوی شریف کے احاطے میں کھڑے ہو کر اپنی آنکھوں دیکھا واقعہ یوں بیان کرتا ہے:
"میں مسجد نبوی میں کھڑا تھا کہ چار پولیس والے کسی کا انتظار کر رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد ایک شخص نمودار ہوا، جسے پولیس والوں نے فوراً قابو کر لیا اور اس کے ہاتھ باندھ دیے۔ نوجوان نے پولیس والوں سے کہا، ‘مجھے دعا کرنے دو، میری بات سنو، میں کوئی چور یا بھکاری نہیں ہوں۔’ پھر وہ چیخنے لگا، اور میں نے اسے غور سے دیکھا تو مجھے لگا کہ میں اسے جانتا ہوں۔ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ میں نے اسے کیسے پہچانا۔ دراصل، میں نے اسے کئی مرتبہ بارگاہ رسالت میں روتے ہوئے دیکھا تھا۔
یہ ایک البانوی نوجوان تھا، جس کی عمر تقریباً 35 یا 36 سال تھی، سنہری بال اور ہلکی داڑھی تھی۔ میں نے پولیس والوں سے کہا کہ اس کا کوئی جرم نہیں ہے، تو آپ لوگ اسے کیوں پکڑ رہے ہیں؟ پولیس والوں نے جواب دیا کہ یہ شخص مدینہ شریف میں گزشتہ چھ سال سے غیر قانونی طور پر مقیم ہے اور ہم اسے واپس اس کے ملک بھیجنا چاہتے ہیں، لیکن یہ ہر بار روضہ رسول ﷺ میں پناہ لے لیتا ہے اور ہم اسے وہاں سے گرفتار نہیں کرنا چاہتے۔ میں نے پوچھا کہ اب آپ اس کے ساتھ کیا کریں گے؟ انہوں نے کہا کہ ہم اسے جہاز میں بٹھا کر البانیا واپس بھیج دیں گے۔
نوجوان مسلسل روتے ہوئے کہہ رہا تھا، ‘اگر تم مجھے چھوڑ دو گے تو کیا ہو جائے گا؟ میں کوئی چور نہیں ہوں، میں کسی سے بھیک نہیں مانگتا، میں تو صرف محبت رسول ﷺ میں یہاں رہ رہا ہوں۔’ پولیس والوں نے کہا کہ یہ جائز نہیں ہے۔ نوجوان نے کہا، ‘مجھے تھوڑی دیر رسول اللہ ﷺ سے بات کرنے دو۔’ پھر اس نے گنبد خضراء کی طرف منہ کیا اور دعا مانگنے لگا۔ میں نے عربی میں اس کی بات سمجھ لی۔ وہ کہہ رہا تھا:
‘یا رسول اللہ ﷺ! کیا ہم نے ایک وعدہ نہیں کیا تھا؟ کیا میں نے اپنے والدین کو نہیں چھوڑا؟ کیا میں نے اپنی دکان اور گھر بار نہیں چھوڑا؟ اور کیا یہ عہد نہیں کیا تھا کہ میں آپ کے جوارِ رحمت میں رہوں گا؟ حضور! اب یہ لوگ مجھے یہاں سے نکالنا چاہتے ہیں۔ یا رسول اللہ ﷺ! آپ مداخلت کیوں نہیں فرماتے؟’
اتنے میں نوجوان بے حال ہو کر زمین پر گر گیا، تو پولیس والوں نے اسے ڈھیلا چھوڑ دیا۔ ایک پولیس والے نے اسے ٹھڈا مار کر کہا، ‘اٹھ دھوکے باز!’ لیکن نوجوان نے کوئی حرکت نہیں کی۔ میں نے پولیس والوں سے کہا کہ یہ نہیں بھاگے گا، تم پانی لاؤ اور اس کے چہرے پر ڈالو۔ مگر نوجوان بے حس و حرکت رہا۔
ایک پولیس والے نے کہا، ‘کہیں یہ مر تو نہیں گیا؟’ پھر انہوں نے اس کی نبض چیک کی اور بتایا کہ اسے مرے ہوئے پندرہ منٹ گزر چکے ہیں۔ پولیس والے، جو ابھی تک اسے قابو کر رہے تھے، اب مجرموں کی طرح نیچے بیٹھ گئے اور رونے لگے۔ ایک پولیس والا دونوں ہاتھوں سے اپنے زانو پیٹتے ہوئے کہہ رہا تھا، ‘ہائے ہمارے ہاتھ کیوں نہ ٹوٹ گئے! کاش ہمیں معلوم ہوتا کہ اسے رسول اللہ ﷺ سے اتنی شدید محبت ہے!’
اس کے بعد ایمبولینس والوں نے نوجوان کی لاش کو جنت البقیع کی طرف لے جایا۔ غسل کے وقت میں بھی وہاں موجود تھا اور کہہ رہا تھا کہ مجھے بھی اس کی چارپائی اٹھانے دو۔ جب جنازہ تیار ہو کر نماز کے لیے جانے لگا تو پولیس والوں نے مجھے کہا، ‘ہم نے جتنا گناہ کیا ہے، وہ کافی ہے۔ اسے ہم ہی اٹھائیں گے، شاید اسی طرح ہمیں آخرت میں کچھ رعایت مل جائے۔’
میرے سامنے ہی وہ نوجوان بار بار کہتا تھا، ‘یا رسول اللہ ﷺ، آپ مداخلت کیوں نہیں فرماتے؟’ اور پھر دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے مداخلت فرما دی، اور ملک الموت نے اسے آپ تک ہمیشہ کے لیے پہنچا دیا۔
اللہ ہمیں بھی اپنے حبیب ﷺ کی ایسی محبت عطا فرمائے، جیسی اس البانوی نوجوان کو عطا کی تھی۔ آمین۔”