١) پیروں کے خلاف لوگوں کو نہ بھڑکائیں چونکہ یہی پیر حضرات گاؤں گاؤں کے اور شہر شہر کے پڑھے اور ان پڑھ کومسلک حق سے جوڑے رکھے ہیں۔
درسی صلاحیت والوں کی پہنچ عوام تک نہیں ہے عوام ان سے دور ہے ۔اگر یہ پیر نہ رہیں تو باطل فرقے ان کے عقیدے کو اچک لے جائیں گے۔
(۲) کم پڑھے لکھے خطیبوں کے خلاف لوگوں کو نہ بھڑکائیں یہ عوام ویسی ہی تقریر سننا پسند کرتی ہے اسی بہانے سے کم سے کم مسلک سے جڑی ہوی ہے جلسہ سننے والی عوام کا تعلق بھی صلاحیت مند علماء سے نہیں ہے۔اگر یہ ہنسا کھلا کے لطیفے سنا کے ساتھ ہی ساتھ عشق مصطفی سینے میں بسا کے عوام کو مسلک حق سے جوڑے رکھتے ہیں تو یہ بھی اپنی جگہ کامیاب ہیں۔عوام کو جلسوں سے دور کریں گے تو آسانی سے باطل فرقے گاؤں گاؤں پہنچ کر عقیدے اچک لے جائیں گے۔
(٣) نعت خوانوں کے خلاف بھی عوام کو نہ بھڑکائیں چونکہ یہ عوام ناچ گانے ،فلمی تماشے کو پسند کرنے والی قوم تھی کم سے کم نعت ہی کے بہانے جلسہ گاہ میں آتی ہے جس سے علماء کو اسلام کا پیغام پہنچانے کا موقع ملتا ہے۔اگر انہیں نعت سے دور کریں گے تو یہ جلسوں سے بھی دور ہو جائیں گے پھر باطل فرقے آسانی سے ان کے عقیدے چرا لے جائیں گے۔
(٤) درس گاہی حضرات کو نہ نیچا دیکھیں نہ نیچا دکھائیں انہی کی محنت کی بدولت اج خطباء اسٹیج کی زینت بنے ہوے ہیں پیرزادے اسٹیج میں چڑھنے کے لائق ہیں مصنفین کی کتابیں دستیاب ہو رہی ہیں،اگر یہ نہ رہے تو چاروں طرف دینی اعتبار سے اندھیرا چھا جائے گا پھر باطل فرقے عوام کے عقیدے کو چرا لے جائیں گے۔
(٥) اماموں کے خلاف لوگوں کو نہ بھڑکائیں اماموں کی قدر بڑھائیں چونکہ شہری اور امیر طبقہ اپنے بچوں کو مدرسہ میں پڑھانا معیوب سمجھتا ہے اگر اماموں کی قدر نہیں کریں گے تو دیہاتی اور غریب طبقہ بھی اپنی اولاد کو امام نہیں بنائے گا پھر مسجدیں ویران پڑ جائیں گی اور باطل فرقے قابض ہو کر عوام کے عقیدے کو چرا لے جائیں گے۔
(٦) مدرسے کے ناظموں اور کمیٹی والوں کے خلاف لوگوں کو نہ بھڑکائیں کہ,, یہ جاہل ہیں یہ گنوار ہیں ،، یہ خود اگرچہ کم پڑھے ہیں لیکن مدرسے بنا کر اور چلا کر بڑے بڑے صلاحیت مندوں کو ملازمت دے رکھے ہیں اور انہیں مدرسوں سے علماء حفاظ قراء مفتیان پیدا ہو رہے ہیں ، چندہ لانا بھی ایک بہت بڑا ملکہ ہے اچھی اچھی صلاحیت مندوں کو دیکھا گیا ہے سال بھر میں 10 ہزار بھی چندہ لانے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو یہ کم پڑھے ہی صحیح، مدرسے کو چلا تو رہے ہیں جو ایک دین کا قلعہ ہے اور اس سے لوگ علم حاصل کر رہے ہیں ، ایمان عقیدے بچا رہے ہیں اگر ناظموں اور ٹرسٹوں کے خلاف محاذ چھیڑیں گے اور یہ میدان چھوڑ کر بھاگ جائیں گے تو آپ کی صلاحیت کہاں استعمال ہوگی؟ مدرسے کیسے آباد رہیں گے؟ پھر مدرسے میں کوئی اور قابض ہو جائے گا اور باطل فرقے لوگوں کے عقیدے چرا لے جائیں گے۔
(٧) خانقاہوں کے خلاف لوگوں کو نہ بھڑکائیں ابھی جہاد کا وقت نہیں آیا ہے بھارت میں حالات کشیدہ ضرور ہیں لیکن مفتیان کرام نے ابھی جہاد کی فرضیت کا اعلان نہیں کیا ہے جب وہ وقت آئے گا تو ان شاءاللہ خانقاہ والے بھی بول پڑیں گے اور چل پڑیں گے ابھی سے ہر ایک کو جذبات میں آنے اور لانے کی ضرورت نہیں ورنہ بلا ضرورت مفتی سلمان ازہری صاحب کی طرح ایک ایک کر کے اندر کر دیئے جائیں گے پھر جب وقت آئے گا تو کوئی جوانوں کو ابھارنے والا دلوں کو جگانے والا جہاد کے لیے ذہن سازی کرنے والا میدان میں باقی نہ رہے گا۔
(٨) چھوٹے مدرسوں کے خلاف لوگوں کو نہ بھڑکائیں یہ چھوٹے مدرسے والوں کا ہی احسان ہے کہ گاؤں گاؤں سے لڑکے لاتے ہیں اور مدرسے میں پڑھنے پڑھانے کا ماحول تیار کرتے ہیں جب لڑکے کی ذہن سازی ہو جاتی ہے ، دینی تعلیم کی طرف رغبت ہو جاتی ہے تو اب وہی طلبہ بڑے مدرسے میں منتقل ہوتے ہیں ۔
اگر یہ چھوٹے مدرسے آباد نہیں رہیں گے تو بڑے مدرسے کو بند ہونے میں وقت نہیں لگے گا پھر گاؤں ہو یا شہر حفاظ، علماء، ائمہ ،مفتیان کی کمی ہو جائے گی پھر باطل فرقے عوام کے عقیدے چرا لے جائیں گے۔
اس لیے کہتا ہوں
جو جہاں ہیں انھیں وہیں رہنے دیں
جو ذرہ جہاں ہے وہیں آفتاب ہے
ہاں مذکورہ تمام محاذ پر کچھ نہ کچھ ترتیب بگڑی ہوئی ہے جس کو سدھارنے کی ضرورت ہے ۔
تحریر: محمد کلیم الدین قادری فیضی
مدرسہ ارشد العلوم عالم بازار کلکتہ