اللہ رزق دیتا ہے اور جس کے نصیب میں جتنا رزق ہے اُسے مل کر رہیگا۔کیا بنا ترتیب اور ترکیب کے رزق یا پیسے حاصل کیے جا سکتے ہیں ۔کیا اللہ ترتیب اور ترکیب کرنے کا حکم نہیں دیتا ہے۔دراصل آج بھارت کے مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ معاشی پسماندگی ہے۔سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کی حالت دلت سے بھی بدتر ہو چکی ہے ۔اُسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نوّے فیصدی مسلمان گھر میں دس ہزار یا اس سے کم میں اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔یعنی بھارت میں مسلمانوں کی ممکنہ آبادی 20 کروڑ ہے تو 18 کروڑ مسلمان دس ہزار روپے فی مہینہ یا اس سے کم کی آمدنی گروپ میں شامل ہیں۔بھارت کے مسلمانوں کی ترجیحات میں 18 کروڑ کی آمدنی میں کیسے اضافہ ہو یہ اولین ترجیح ہونی چاہئے ۔پیسے کی کمی کی وجہ سے مسلم بچوں کا ڈراپ آؤٹ دوسری قوموں سے زیادہ ہے۔گھر کی تنگی سے پریشان ہو کر مسلم لڑکے میٹرک يا بارہویں تک پڑھ کر چھوڑ دیتے ہیں ۔
مسلمانوں کی دوسری سب سے بڑی پریشانی انصاف کا حصول ہے۔ایک ہی طرح کے معاملے میں غیر مسلم کو ضمانت مل جاتی ہیں اور مسلمان کو سالہا سال جیل میں گزارنے پڑتے ہیں ۔
انصاف کی حصول اور معاشی پسماندگی مسلمانوں کے سب سے بڑے مسئلے ہیں ۔یقیناً یہ مسئلے مسلمانوں کے پانچ وقت کا نمازی ہو جانے سے حل نہیں ہو سکتے ہیں ۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں نماز کے خلاف بات کر رہا ہوں۔نماز مذہب اسلام کا اہم جزو ہے اورہر ایک مسلمان پر فرض ہے اور مذہب کا شخصی کردار سازی میں ایک بڑا رول ہوتا ہے۔لیکِن معشیت اور انصاف کے حصول کے لئے مسلمانوں کو اپنے ہم وطنوں کے ساتھ متحد ہو کر تحریک چلانی ہی ہوگی۔
اس ملک میں 18 کروڑ غریب مسلمان ہیں دوسری جانب 80 کروڑ بھارتیہ پانچ کلو راشن پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔80 کروڑ میں 18 کروڑ مسلمان 62 کروڑ غیر مسلموں اور ہم وطنوں کے ساتھ سسٹم کو بدلنے کی تحریک میں شامل ہو جائے تو نہ صرف بھارت کے مسلمانوں کی قسمت بدلے گی بلکہ ملک کے غریب اور کمزور غیر مسلموں کی بھی قسمت بدلے گی ۔یقیناً اس تحریک کی قیادت مسلمانوں کو کرنی چاہیے ۔
بھارت ایک جمہوری اور ویلفیئر ملک ہے۔لیکِن سرکاریں چناو میں تو کامیاب غریبوں کے ووٹوں سے ہوتی ہیں لیکن ویلفیئر امیروں کا ہوتا ہے یعنی جہاں سے چناو کے لئے پیسے ملتے ہیں کام اُنہیں کا ہوتا ہے اور موجودہ سرکار تو ہر ایک چیز کو تجارت کے نظریے سے دیکھتی ہے ۔ایسے میں عام آدمی کو سستی اور بہتر تعلیم اور سستی دوائی اور اسپتال مہیّا کرانا سرکار کی ذمےداری ہے جو سرکار بھول چکی ہے ۔
ویسے بھی غریب اور کمزور کا نہ گھر میں اور نہ سماج میں کوئی عزت ہوتی ہے ۔لیکن غریب اور کمزور جب متحد ہو جاتے ہیں تو اچھے اچھے کارپوریٹ سرکار کو جھکنا پڑتا ہے ۔
اسی کروڑ بھارتیہ عوام سسٹم کو بدلنے کے نعرے کے ساتھ اپنے آئینی اور جمہوری
حقوق کو حاصل کرنے کیلئے پر امن طریقے سے جدّو جہد کریں گے تو نہ صرف مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بند نفرتی پروپیگنڈہ ختم ہوگا بلکہ مسلمانوں کی حقیقی قیادت بھی سامنے آئے گی ۔ایسی قیادت کسی نا انصافی کے وقت گھر میں نہیں دبکے گا بلکہ لاٹھی اور جیل جانے کے لئے پہلے سے تیار رہے گا ۔ساتھ ہی اسی کروڑ ایک سی بنیادی سوال پر تحریک میں شامل ہونگے تو غیر مسلموں کو مسلمانوں کے تئیں بد گمانی بھی ختم ہوگا۔تحریک کے دوران شامل لوگوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع فراہم ہوتا ہے بلکہ لوگوں کو سسٹم کی سمجھ بھی آتی ہے ۔جب سسٹم سمجھ میں آتا ہے تو لوگ ایک طرح سے اپنے حق اور حقوق کی بیداری آتی ہے ۔اتنا ہی نہیں اچھی تحریک سے جڑنے میں ایک دوسرے کے کام آنے کا جذبہ بڑھتا ہے یعنی کردار سازی بھی ہوتی ہے ۔مسلمان بہتر کردار کے ساتھ کسی تحریک میں شامل ہوتے ہیں تو اُنکے کردار ہی دعوت کا کام کریگا۔تحریک ،تحریک اور مسلسل تحریک سے نه اس ملک کے غریب اور کمزور کے لئے قانون سازی ہوگی اور سسٹم میں تبدیلی ہوگی بلکہ مسلمانوں کیلئے موقع ہوگا کہ اپنے کردار اور قائدانہ صلاحیتوں سے دوسروں کو متاشر کریں۔
تحریر: مشرف شمسی
میرا روڈ ،ممبئی
موبائیل 9322674787