عوام کے درمیان رہنے کے سبب لوگوں کے گھریلو حالات اور ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعات اکثر سنتا رہتا ہوں،
انہیں میں ایک بہت بڑا اور اہم ترین مسئلہ نکاح بھی ہے.
ایک نوجوان نے بتایا کہ لڑکی تہجد گزار تھی اس لیے والدین فوراً ہاں کر دی منگنی کی رسم بھی ادا ہوئی اس سے گفتگو ہوئی تو کہا کہ ہمارے یہاں پردہ کرنا ہوگا کیونکہ مرد حضرات بازار وغیرہ کا سامان لے آتے ہیں اور کہیں جانا بھی ہوا تو پردہ ضروری ہے بس اتنی سی بات پر تہجدگزار سخت ناراض اور اسی دن اہل خانہ نے آکر رشتہ توڑ لیا صاف لفظوں میں کہا میری بچی ایسا نہیں کر سکتی
کچھ دوستو نے بتایا کہ میری بہن اور بیٹی کے لیے بد.مذہبوں کے رشتے کثرت سے آ رہے جبکہ ہم اہلسنت میں تلاش کر رہے ہیں کوئی مناسب رشتہ نہیں ملتا
وہیں لڑکی کی تلاش کرنے والوں کا کہنا ہے ایک رشتہ ڈھونڈنے نکلتے ہیں تو بد.مذہبوں کے یہاں آسانی سے رشتہ مل جاتا ہے بلکہ وہ آفر بھی رکھتے ہیں، جبکہ اہلسنت کے یہاں نہیں ملتا،
مختصر یہ کہ تمام فرق با.طلہ اب رشتہ داری بڑھا کر اپنے عقائد و نظریات کو فروغ دے رہے ہیں،
لڑکی دیتے ہیں تو خوب جہیز اور دولت اور بڑے بڑے آفر دیتے ہیں جب لڑکی لیتے ہیں تو انتہائی سادگی کا مظاہرہ اور سنت کا پیروکار بتا کر لیتے ہیں جس کے سبب بیشتر اہلسنت کے گھرانے اغیار کے جال میں پھنس چکے ہیں.
حیرت کی بات یہ ہے کہ جائز رشتے کی تلاش مشکل سے مشکل تر ہے جبکہ ناجائز رشتے درجنوں آس پاس بھی آسانی سے ملنے لگے ہیں،
خدارا یہ بڑی غیرت کی بات ہے لہذا اس سلسلے میں لکھیں بولیں میدان عمل میں اتریں،
مطلقہ اور بیوہ کی تعداد ہندوستان میں بڑھتی جا رہی، اور یہی وجہ ہے کہ دوسرے جرائم تیزی سے فروغ پا رہے ہیں
ازقلم: حسن نوری گونڈوی