خلافت عباسیہ (تیسری قسط)
معتصم باللہ خلافت عباسیہ کا آٹھواں خلیفہ تھا، جس کا دوران حکومت سنہ 833ء سے 842ء تک تھا۔وہ خلیفہ ہارون الرشید کا بیٹا تھا۔اس کا اصل نام ابو اسحاق معتصم بن ہارون الرشید تھا(ایک جگہ محمد بھی آیا ہے)،لیکن تاریخ میں وہ معتصم باللہ کے نام سے مشہور ہے۔معتصم کی نسبت مشہور ہے کہ وہ بالکل امی تھا،مگر صحیح یہ ہے کہ وہ بہت ہی کم پڑھا لکھا تھا۔ہارون الرشید نے ایک غلام متعین کر دیا تھا کہ وہ اس کے ساتھ ساتھ رہے اور جب موقعہ ملے اس کو پڑھاۓ۔جب وہ غلام مرگیا تو اس نے اپنے والد سے کہا غلام مرگیا اور میں کتاب کے جھگڑے سے چھوٹ گیا۔اپنے بھائی مامون الرشید کے عہد خلافت میں وہ ملک شام اور مصر کا گورنر تھا۔
مامون الرشید نے جب مشرقی بازنطینی سلطنت پر چڑھائی کی اور معتصم باللہ کی شجاعت کی خبر سنی تو مامون الرشید نے عباسی خلفاء کی روایت سے انحراف کرتے ہوئے اور اہلیت کی بنیاد پر معتصم کو اپنا ولی عہد بنایا اور اپنے بیٹے عباس کو خلافت سے محروم کر دیا۔معتصم باللہ کی بیعت خلیفہ مامون کی وفات کے بعد مقام طرطوس میں ہوئ۔
معتصم باللہ نے فوج کے نظام کو بہت تقویت و ترقی دی۔اِسی ترقی و تقویت سے اُسے کثیر فتوحات کا موقع بھی ملا۔اِسی نظام کے بدولت اُس نے بادشاہانِ آذربائیجان،طبرستان،سیستان،اشیاصح، فرغانہ،طخارستان، صفہ اور شاہِ کابل کو بھی قید کیا۔مغیرہ بن محمد کہت ہے کہ جتنے بادشاہ المعتصم کے دروازے پر جمع ہوئے،کبھی کسی خلیفہ کے وقت میں جمع نہ ہوئے تھے۔المعتصم پہلا عباسی خلیفہ تھا،جس کے عہدِ حکومت میں باورچی خانہ کا خرچ دن دونا رات چوگنا ہو گیا تھا،حتیٰ کہ ایک ہزار دینار روزانہ کا خرچ ہو گیا تھا(دینار سونے کے سکہ کو کہتے ہیں۔دینار کی مقدار 374۔4 گرام ہے،مارکیٹ میں جو سونے کی قیمت ہو اس کے حساب سے دینار کی قیمت معلوم کی جاسکتی ہے)
محمد بن قاسم کی بغاوت!
سنہ 834 میں محمد بن قاسم نے بغاوت کی۔(محمد بن القاسم بن علی بن عمر بن علی زین العابدین بن حسین بن علی بن ابی طالب)
انہوں نے خراسان میں خروج کیا،لیکن خراسان کے گورنر عبداللہ بن طاہر نے ان کو اور ان کے حامیوں کو شکست دی۔محمد بن قاسم گرفتار ہوۓ اور انہیں قید کر دیا گیا،لیکن اتفاق سے عیدالفطر کے دن وہ غالب ہوگۓ اور پھر اس کے بعد ان کی کوئی خبر سننے کو نہیں ملی۔
ترکوں کا عروج اور شہر سامرا (Samarra) کی بنیاد !
عباسی لشکر عام طور پر عرب ایرانی اور خراسانی سپاہیوں پر مشتمل تھا۔عباسی خلفاء عرب سپاہیوں سے زیادہ ایرانی اور خراسانی سپاہیوں پر زیادہ بھروسہ کرتے تھے۔جب معتصم خلیفہ ہوا تو اس نے ایک بڑی تعداد میں ماورالنہر کے سمرقند،فرغانہ اور اشرونسہ کے علاقوں سے ترک سپاہیوں کو اپنی فوج میں بھرتی کیا اور ان کی ایک الگ فوج مرتب کی۔ان سپاہیوں کو اونچے اونچے فوجی عہدوں پر فائز کیا گیا۔معتصم باللہ ان ترک لشکر کو عرب اور خراسانی لشکر سے زیادہ تنخواہیں اور وظیفے بھی دیتا تھا۔اس امتیازی سلوک کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ترک فوج اور خراسانی فوج کے مابین تصادم شروع ہو گیا اور دونوں فوج آپس میں ایک دوسرے سے لڑنے لگی۔اس کے نتیجہ میں خلیفہ معتصم باللہ کو مجبوراً بغداد سے دور شمال کی جانب ایک شہر کی بنیاد ڈالنی پڑی،جسے سامرا کہا گیا اور ترک فوج کو وہاں آباد کیا گیا۔خلیفہ معتصم باللہ سامرا میں اپنے لیے ایک قصر تعمیر کروائی،ترک فوج کے لیے مکانات بنواۓ،ایک جامع مسجد تعمیر کی گئی اور خلیفہ خود بغداد سے سامرا منتقل ہوگیا۔اس کے بعد قریب ساٹھ سالوں تک سامرا بغداد کی جگہ عباسی خلفاء کا دارالحکومت بنا رہا۔
فتح عموریہ اور جنگ روم!
عموریہ (Amorium) جدید ترکی کا ایک شہر تھا اور قیصر روم کی جاۓ پیدائش تھا۔
زبطرہ (Zibatra) بھی ترکی کا ایک شہر تھا اور وہ خلیفہ معتصم کی جاۓ پیدائش تھا۔سنہ 837 میں بازنطینی شہنشاہ Theophilos ستر ہزار کا ایک عظیم لشکر لیکر روانہ ہوا اور بالائی دریا فرات کے علاقوں پر حملہ آور ہوا اور بازنطینی لشکر نے دو شہروں Zibatra اور Malatya کواپنے قبضے میں لیا اور تاخت و تاراج کیا اور لوٹ مار مچائی۔وہاں کے مردوں کو قتل کیا اور بعض کو غلام بنایا اور عورتوں کی عصمت دری کی۔جب خلیفہ کو اس کی اطلاع ہویی تو اس نے جوابی کارروائی کے لیے ایک عظیم لشکر Tarsus کے مقام پر مرتب کی اور اعلان کیا کہ جس طرح خلیفہ کی جایے پیدائش Zibatra کو تاخت و تاراج کیا گیا ہے اسی طرح قیصر کے جانے پیدائش Amorium کو بھی تاخت و تاراج کیا جائے گا۔اس کے بعد خلیفہ سنہ 838 میں 19 جون سے لیکر 21 جون تک اپنی لشکر کو لیکر Cicilian gates کو عبور کیا۔قیصر کی فوج کا عباسیہ سپہ سالار آسفین کی لشکر کے ساتھ 22 جولائی کوزبردست مقابلہ ہوا اور شہنشاہ کسی طرح اپنی جان بچاکر قسطنطنیہ فرار ہو گیا۔یکم اگست کو آفسین اور خلیفہ کی فوج عموریہ کا محاصرہ کیا اور دو ہفتے بعد شہر کو غارت کیا اور ہزاروں لوگوں کو غلام بنایا۔خلیفہ کا ارادہ تھا کہ وہ قسطنطنیہ تک فوج کشی کریں لیکن اسی درمیان خلیفہ کو اس کے بھتیجے عباس کی بغاوت کی خبر موصول ہوئی اور اسی جنگ سے دارالحکومت کی طرف واپس ہونا پڑا لیکن واپسی پر اس نے ہزاروں بازنطینی قیدیوں کا قتل کیا۔عموریہ کی فتح کے بعد خلیفہ معتصم باللہ غازی خلیفہ کے نام سے مشہور ہوا۔
عباس بن مامون الرشید کا قتل!
دارالخلافہ واپسی کے بعد خلیفہ معتصم نے باغی عباس بن مامون الرشید کو گرفتار کیا اور اسے ایک بورا میں بند کرکے بورا کی سلائ کروا دی اور اسی بورا میں دم گھٹنے سے عباس کی موت ہوگئ۔
ترکوں کا عروج!
معتصم کو ترکی غلاموں کے خریدنے اور اس کی جمعیت بڑھانے کا خاص شوق تھا۔اس کے زمانے میں ترکوں نے بہت ترقی کی۔اس نے ترکی فوجوں کے بڑھانے اور ترکوں کو ترقی دینے میں خراسانیوں کا زور گھٹانا چاہا تھا اور اس سے پہلے سابق خلفاء عربوں کے زور گھٹا اور مٹا چکے تھے،لیکن بعد میں یہی ترک خلافت عباسیہ کی بربادی کا موجب ہوۓ، کیونکہ ان نو مسلم ترکوں نے یکایک ترقی کرکے جب دیکھا کہ خلافت اسلامیہ کی سب سے زبردست فوج ہم ہی ہیں تو وہ خلافت اسلامیہ کا تختہ الٹ دینے کے خواب دیکھنے لگے۔
معتصم کی خلافت کے زمانے سے ترکوں کا دور زندگی شروع ہو جاتا ہے۔
معتصم کو خلیفہ مثمن بھی کہا جاتا ہے،کیونکہ اس کے ساتھ آٹھ کے عدد کو خصوصی تعلق تھا۔ معتصم خلیفہ ہارون الرشید کی آٹھویں اولاد تھا۔وہ سنہ 180 ہجری میں پیدا ہوا ۔وہ سنہ 218 میں تخت نشیں ہوا۔وہ خلفاء عباسیہ میں آٹھواں خلیفہ تھا۔ اس نے 48 سال کی عمر پائ۔اس نے آٹھ برس آٹھ مہینے آٹھ دن خلافت کی۔اس نے آٹھ گھر تعمیر کرواۓ۔آٹھ بڑی بڑی۔لڑائیاں فتح کیں۔آٹھ بادشاہ اس کے سامنے دربار میں حاضر کیے گئے۔اس نے آٹھ لاکھ دینار آٹھ لاکھ درہم آٹھ ہزار گھوڑے آٹھ ہزار غلام، آٹھ ہزار لونڈیاں ترکہ میں چھوڑیں۔ماہ ربیع الاول کے آٹھ دن باقی تھے کہ وہ فوت ہوا۔اُس کی ولادت برج عقرب میں ہوئی جو دائرۃ البروج کا آٹھواں برج ہے۔خلیفہ معتصم باللہ کی وفات کے بعد اس کا لڑکا واثق باللہ عباسی خلیفہ ہوا۔وہ خلافت عباسیہ کا نواں خلیفہ تھا اور وہ سنہ842 سے 847 تک صرف پانچ سال تک حکومت کی۔خلیفہ واثق ایک تعلیم یافتہ خلیفہ تھا۔وہ ایک بہت بڑا شاعر اور ادیب تھا۔ واثق کو عربی اشعار اس قدر یاد تھے کہ خلفاء عباسیہ میں کسی کو اتنے اشعار یاد نہ تھے۔عربی ادب میں وہ مامون کا ہم پلہ بلکہ اس سے بھی فائق تھا،مگر فلسفہ اور علوم حکمیہ میں مامون سے کمتر تھا۔شعراء، موسیکار اور گلوکار خلیفہ واثق کے دربار کے زینت تھے اور وہ انہیں تعظیم اور تکریم بھی کرتا تھا۔اسے سائنسی علوم میں بھی کافی دلچسپی تھی۔وہ اپنے دربار میں حکیموں کے مابین ہونے والے علمی مباحثوں کو دلچسپی کے ساتھ سنتا بھی تھا۔ خلیفہ واثق کے زمانے میں بھی یونانی کتابوں کا عربی زبان میں ترجمہ ہونے کا سلسلہ جاری رہا۔
خلق قرآن کا مسئلہ!
خلیفہ واثق بھی مامون الرشید اور معتصم باللہ کی طرح خلق قرآن کے عقیدہ کا قائل تھا۔جو علماء اس عقیدہ کو تسلیم نہیں کرتے تھے،واثق باللہ ان علماء کو نیکی کا کام سمجھ کر اذیت دیتا تھا۔واثق باللہ نے ایک کام یہ کیا کہ امام احمد بن حنبل کو جو جسمانی سزائیں دی جاتی تھی،اسے بند کروا دیا اور اس کی جگہ ان کو گھر میں محصور کر دیا گیا۔ ان کو گھر سے باہر جانے اور کسی سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی اور نہ ہی کسی کو ان سے ملنے کی اجازت دی گئی۔آخر عمر میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ مسئلہ خلق قرآن کے متعلق اس نے اپنی سرگرمی بالکل موقوف کر دی۔ابو عبدالرحمن عبداللہ بن محمد اذدی جو امام ابو داؤد اور امام نسائی کے استاد تھے مسئلہ خلق قرآن کے متعلق مخالف عقیدہ رکھنے کے سبب گرفتار کیے گئے اور انہیں دربار میں پیش کیا گیا۔دربار میں مناظرہ ہوا اور اس مناظرہ میں ابو عبدالرحمن نے فتنہ خلق قرآن کے بانی قاضی احمد بن ابو داؤد سے سوال کیا کہ کیا
حضور ﷺ کو بھی اس کا علم تھا یا نہیں کہ قرآن خلق ہے؟ قاضی احمد نے مثبت میں جواب دیا۔قاضی عبدالرحمن نے کہا کہ حضور ﷺ نے لوگوں کو قرآن کے مخلوق ہونے کے عقیدہ کی تعلیم دی یا نہیں؟ قاضی احمد نے جواب دیا کہ آنحضرت ﷺ نے تو اس کے متعلق کوئی حکم نہیں فرمایا۔ابو عبدالرحمن نے کہا جس عقیدہ کی حضور ﷺ نے تعلیم نہیں دی اور باوجود علم رکھنے کے لوگوں کو اس کے ماننے پر مجبور نہیں کیا تو تم لوگ اس عقیدہ کو لوگوں پر جبرا کیوں نافذ کرتے ہو؟یہ جواب سن کر خلیفہ واثق باللہ تعجب میں پڑگیا اور سوچتا رہا کہ جس معاملہ میں آنحضرت ﷺ نے خاموشی اختیار کی ہم اس میں سختی کر رہے ہیں۔خلیفہ نے فوراً
ابو عبدالرحمن کو آزاد کرنے کا حکم جاری فرمایا اور فتنہ خلق قرآن کو بھی ختم کیا۔احمد بن حنبل کے ساتھ یہ معاملہ اگرچہ حکومت کی نقطہ نظر سے ایک فتنہ کو دبانے کی سعی تھی،لیکن اسی معاملہ ہے ایک ایسے محدث کو جس سے کچھ اہل علم واقف تھے یا دین کے طلباء واقف تھے عامتہ الناس میں ایک مقبول ترین ہستی بنا دیا۔بادشاہوں کو بھی یہ عزت میسر نہیں آئ،جو اس واقعہ کے بعد ان کو میسر آئ۔وہ خود لکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے مجھے اس ابتلاء سے تو نکال دیا لیکن ایک نئی ابتلاء میں مبتلا کر دیا ہے کہ اب شہرت ہر وقت مجھے احاطہ کیے ہوئے ہے۔اس طرح مختلف خلفاء تعذیب کا بازار گرم کرتے رہے یہاں تک کہ خلیفہ متوکل ان کا بہت بڑا مداح ہو گیا اور عنایت فرمانے کےلیے انکے پاس روپیے بھیجا تو انہوں نے کہا وہ آزمائش آسان تھی،یہ آزمائش مشکل ہے۔اس واقعہ کا اثر یہ ہوا کہ اس روایت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا کہ حکمران بزور لوگوں سے اپنا نقطہ نظر منواۓ۔اس بات کی اجازت کسی شخص کو نہیں دی جاسکتی کہ حکمران لوگوں پر اپنا کوئی نقطہ نظر تھوپنے کی کوشش کرے۔حکمران کو حق حاصل ہے، کہ وہ ایک راۓ پر رہے،اس کو یہ بھی حق حاصل ہے،وہ ملک میں جس قانون کا نفاذ کرے اس کے لیے "امرھم شوریٰ بینھم” کے طریقے پر ان لوگوں کی راۓ نافذ کریے جن کو لوگوں کی اکثریت کا اعتماد حاصل ہو لیکن یہ بات کہ اس کے نقطہ نظر سے اختلاف کرنے والے پر کوڑے برساۓ جاۓ یا ان کو اپنا نقطہ نظر بزور طاقت و قوت تبدیل کرنے کو کہا جائے ان پر جبر کیا جائے یہ ٹھیک نہیں ہے۔امام احمد بن حنبل خراج تحسین کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے عزیمت سے حکمرانوں کو صحیح راستہ دکھا دیا۔اس کا فائدہ صرف دین کے علمبرداروں کو ہی نہیں پہنچا بلکہ ان کو بھی پہنچا جو مختلف نقطہ نظر کے ساتھ عالم اسلام میں رہنا چاہتے ہیں۔عام طور پر اہل علم کے ساتھ ریاست کا معاملہ متعین ہوگیا کہ ایک دائرہ میں اختلاف کی اجازت رہنی چاہیے۔دنیا کی علمی تاریخ میں امام احمد بن حنبل نے یہ بات واضح کر دی کہ مسلمان اس شان کے لوگ ہیں کہ ان کے امام اور اکابر کسی نقطہ نظر کو صحیح سمجھتے ہیں تو وہ اس کے لیے جان دے سکتے ہیں لیکن اس میں ادنی درجہ میں کوئی ترمیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔دنیا کی علمی تاریخ میں جو بڑی بڑی قربانیاں دی گئی ہیں ان میں سے ایک قربانی احمد بن حنبل کی قربانی ہے۔
احمد بن نصر کا خروج و قتل!
احمد بن نصر کا شمار محدثین میں تھا۔وہ مسلہ خلق قرآن کا مخالف تھا۔اسی وجہ سے ایک گروہ کثیر نے خلافت عباسیہ کے خلاف اس کے ہاتھ پر بیعت کی اور احمد بن نصر نے خروج کیا اور علم بغاوت بلند کرکے نقارہ بجا دیا،لیکن احمد بن نصر اور اس کے ہمراہی کو گرفتار کیا گیا اور انہیں دارالخلافہ سامرا بھیج دیا گیا،جہاں خلیفہ واثق باللہ نے اپنے ہاتھ سے نصر کا قتل کیا اور اس کا سر اور جسم جدا کرکے بغداد بھیجا گیا۔جسم کو بغداد کے دروازہ پر لٹکایا گیا اور کان میں ایک پرچہ دھاگے سے باندھ کر لٹکا دیا گیا،جس پر لکھا تھا کہ یہ سر احمد بن نصر کا ہے،جس کو خلیفہ نے عقیدہ خلق قرآن کی طرف بلایا مگر اس نے انکار کیا لہذا اللہ تعالی نے بہت جلد اس کو آتش دوزخ کی طرف بلا لیا۔احمد بن نصر کے قتل کا واقعہ ابو عبدالرحمن عبداللہ بن محمد اذدی کے واقعہ سے پہلے کا ہے۔
اہل عرب کے وقار کا خاتمہ !
ابتداء ہی سے سلطنت عباسیہ اہل عرب کی سیادت و عزت کم کرنے میں مصروف رہی تھی اور عجمیوں کو برابر فروغ حاصل ہوتا رہا تھا۔حالانکہ عباسی خلافت ایک خالص عربی خلافت تھی،لیکن عربوں کو فوجی خدمتوں سے معزول کر دیا گیا۔خلفاء عباسیہ نے ان کو اپنی فوجوں سے بتدریج خارج کر دیا تھا۔جب کبھی حجاز و یمن وغیرہ کے خالص عربی صوبوں کے انتطام کے لیے ضرورت پیش آتی تھی تو عربی یاعراقی یا شامی سپاہی بھیجے جاتے تھے۔خلیفہ واثق باللہ سے پہلے خلفاء عباسیہ نے عربی قبائل کی سرکوبی کے لیے خراسانی و ترکی سپاہیوں کے دستوں کو نہیں بھیجا تھا۔نواح مدینہ میں قبیلہ بنو سلیم نے بنو کنانہ پر حملہ کر دیا اور ان کا مال و اسباب لوٹ لیا۔خلیفہ واثق باللہ کو جب ان حالات سے آگاہی ہوئ تو اس نے پہلی بار ترکی سپاہیوں کو بغاکبیر نامی ایک ترکی سپہ سالار کی قیادت میں مدینہ منورہ بھیجا۔بنو سلیم سے لڑاییاں ہوئیں۔ان کو شکست دی اور ایک ہزار بنو سلیم گرفتار کر کے مدینہ منورہ میں قید کر دیا اور بہت سوں کو قتل کیا۔بغاکبیر چار مہینے تک اپنی ترکی فوج کے ساتھ مدینہ میں رہا اور مختلف عربی قبائل کو طرح طرح سے ذلیل و مغلوب کیا۔ان کے لوگوں کا قتل عام کیا۔جب اہل یمامہ کے ساتھ جنگ شروع ہوئ توبغاکبیر نے تمام ملک یمامہ میں قتل عام شروع کیا۔بغاکبیر نے عرب میں دو برس تک ترکوں کے ہاتھ سے عربوں کو بے دریغ قتل کرایا اور طرح طرح سے ان کو ذلیل و مغلوب کیا۔اس طرح خلیفہ واثق باللہ کے زمانے میں عربی قبائل کو اچھی طرح پامال و ذلیل کیا گیا۔
خلیفہ واثق باللہ نے تخت نشیں ہو کر اشناس نامی ترکی غلام کو اپنا نائب السلطنت بنا کر تمام ممالک محروسہ اسلامیہ کا اختیار کامل دے دیا۔
نائب السلطنت ایک نیا عہدہ تھا،جسے خلیفہ واثق باللہ نے ایجاد کیا تھا۔اب تک کسی خلیفہ نے ایسے وسیع اختیارات کسی دوسرے کو نہیں دیے تھے۔ نائب السلطنت خلیفہ کے تمام اختیارات کا استعمال کرتا۔اس طرح تمام عالم اسلام میں ترکوں ہی کی حکومت قائم ہو گیی،جو بعد میں حکومت عباسیہ کی زوال و بربادی کا باعث ہوئ۔
رومیوں سے اسیران جنگ کا تبادلہ!
رومیوں کے ساتھ جنگ کا سلسلہ ہمیشہ سے جاری چلا آتا تھا۔مسلمانوں نے ہمیشہ رومیوں کو شکست دی اور کبھی کبھی قسطنطنیہ تک بھی پہنچ گئے، مگر رومیوں کی حکومت و سلطنت کا بالکل استیصال نہیں ہو سکا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ اندرونی جھگڑوں کا سلسلہ ایسا شروع ہوا کہ کبھی بند ہی ہونے میں نہ آیا اور کسی خلیفہ کو بھی ایسا موقع اور کامل اطمینان میسر نہ ہوا کہ وہ اپنی تمام طاقت وسیع مدت کے لیے یورپ کی طرف متوجہ کر دے اور اپنے مقبوضہ ممالک میں بغاوت کا اندیشہ اور خروج کا خطرہ نہ ہو۔بہرکیف سنہ 845 میں عباسی خلیفہ اور قیصر روم نے ایک معاہدہ کیا جس کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا کہ وہ ایک دوسرے کے قیدیوں کا تبادلہ کریں گے۔اس صلح کے مطابق قیصر روم نے 4600 مسلمان قیدیوں کو آزاد کیا اور اتنی ہی تعداد میں خلیفہ واثق باللہ نے عیسائی قیدیوں کو آزاد کیا۔اس معاہدہ کے بعد تقریباًچھ سالوں تک عرب اور بازنطینی سرحدوں کے مابین امن و امان رہا۔
خلیفہ متوکل علی اللہ کی تخت نشیںنی !
خلیفہ متوکل علی اللہ خلافت عباسیہ کا دسواں خلیفہ ہے اور اس کا دوران حکومت 847 سے 861 تک ہے۔متوکل بن معتصم بن ہارون الرشید اپنے بھائی واثق باللہ کے انتقال کے بعد تخت نشیں ہوا۔ اس کی ماں ام ولد تھی۔
خلیفہ متوکل کی مذہبی پالیسی!
خلیفہ متوکل کے عہد خلافت میں جو ذمی یعنی یہود اور نصرانی تھے،ان کے ساتھ عدم تحمل کا مظاہرہ کیا گیا۔وہ ایک تحمل پسند (Tolerant) خلیفہ نہیں تھا۔اس نے سنہ 850 میں یہودی اور نصرانی کو زرد لباس پہننے اور بیلٹ استعمالکرنے کے لیے حکم جاری کیا تاکہ ان کو مسلمانوں سے تفریق کیا جا سکے۔خلیفہ متوکل نے فوج کی وردی تبدیل کی اور کمبلوں کے جبے پہنا کر بجائے پیٹی کے ڈوری باندھنے کا حکم دیا۔ذمیوں کو جدید عبادت گاہیں تعمیر کرنے کی ممانعت کی۔عیسائی ذمیوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے جلوسوں میں صلیب نہ نکالیں۔علاوہ ازیں خلیفہ متوکل نے حکم جاری کیا کہ تمام عیسائی گلوبند باندھا کریں۔سنہ 854 میں ملک شام کے شمال میں واقع حمص میں عیسائیوں نے علم بغاوت بلند کیا اور عامل حمص کو نکال کر خود قابض ہو گیے۔چنانچہ خلیفہ کی فوج نے ان باغی عیسائیوں کی اس بغاوت کو کچل ڈالا اور عیسائیوں کو شہر بدر کر دیا اور عیسائیوں کے گرجا گھروں کو مسمار کرنے کا حکم جاری کیا۔ خلیفہ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے مزار پر لوگوں کو زیارت کے لیے جانے سے منع کیا اور قبر کے گرد جو مکانات بنانے گئے تھے ان کو مسمار کرا دیا۔ اس نے گور پرستی کو مٹایا۔اس لیے شیعہ اس کے دشمن ہو گیے کیونکہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی قبر پر جو شرکیہ مراسم لوگوں نے شروع کر دۓ تھے اس نے اسے موقوف کرا دیا۔
خلیفہ متوکل نے تخت خلافت پر بیٹھتے ہی احیاء سنت کی طرف متوجہ ہوا۔اس نے تمام محدثین کو دارالخلافہ سامرہ میں مدعو کیا اور اور بیحد تعظیم و تکریم سے پیش آیا۔اس سے پہلے واثق و معتصم کے عہد میں محدثین اعلانیہ درس نہیں دے سکتے اور اور رؤیت الہی کے متعلق احادیث بیان نہیں کر سکتے تھے۔متوکل نے حکم دیا کہ محدثین مساجد میں آزادانہ حدیث شریف کا درس دیں اور صفات باری تعالیٰ کے متعلق احادیث بیان کریں۔
خلیفہ متوکل علی اللہ شافعی تھا اور یہ سب سے پہلا خلیفہ تھا،جس نے شافعی مذہب اختیار کیا تھا۔وہ قاضی احمد بن داؤد سے ناخوش ہوگیا اور اسے معزول کر دیا۔اس کے مال و اسباب اور جاگیروں کو ضبط کرنے کا حکم دیا گیا۔خلیفہ نے اس کو قید کر دیا اور پھر قید میں اس کا انتقال ہوگیا۔
خلیفہ متوکل علی اللہ خلق قرآن کا مسلہ جو مامون الرشید کے زمانہ میں شروع ہوا اور خلیفہ معتصم اور واثق باللہ کے زمانے تک جاری رہا،اس کو ختم کر دیا۔خلیفہ متوکل خود قرآن مجید کے متعلق اپنے اسلاف کے عقائد کہ قرآن مجید مخلوق ہے نہیں مانتا تھا۔جو لوگ خلق قرآن کے عقیدہ کو تسلیم نہیں کرنے پر قید کیے گئے تھے،ان سبھوں کو آزاد کروا دیا گیااور جن لوگوں کو سزائیں دی جاتی تھیں،اسے موقوف کر دیا گیا۔امام احمد بن حنبل جن کو گھر میں نظر بند کر دیا گیا تھا،انہیں آزاد کر دیا گیا۔اس کے برعکس جو لوگ خلق قرآن کے حامی تھے،ان کے ساتھ سختی کی گئی اور ان کے علماء کو عہدوں سے معزول کر دیا گیا۔خلیفہ بہت ہی توحید پرست تھا اور وہ شرک اور بدعات کے خلاف تھا۔
شہر دمیاط یا دامیاط کی لوٹ مار!
سنہ 853 میں رومیوں کا ایک بیڑہ نے مصر کے ایک بندرگاہ شہر دامیاط پر حملہ کیا اور شہر کو خوب لوٹا اور وہاں کی جامع مسجد میں آگ لگا دی،مال و اسباب کو لوٹا اور وہاں کے باشندوں کو تیونس کی طرف لے گیا۔پھر دو سال بعد سنہ 853 میں قیصر کی فوج نے طرسوس پر حملہ کیا اور بیس ہزار لوگوں کو بندی بنایا،اور بازنطینی ملکہ Theodore کے حکم پر جن قیدیوں نے عیسائی مذہب قبول کرنے سے انکار کر دیا ان لوگوں کو قتل کر دیا گیا۔ اس واقعہ کی خبر ملتے ہی خلیفہ متوکل کی سپہ سالار بغاکبیر بلاد روم پر حملہ آور ہوا اور وہاں کے لوگوں کو قتل کیا اور بندی بنایا۔اس کے بعد سال 856 میں دونوں مملکت کے مابین ایک معاہدہ ہوا اور دونوں حکومتوں نے قیدیوں کو آزاد کیا۔
خلیفہ متوکل فن تعمیر کا بہت ہی شوقین تھا۔ سامرہ میں اس نے جو جامع مسجد تعمیر کروائ تھی وہ نویں اور دسویں صدی میں عالم اسلام کی سب سے پڑی مسجد تھی۔اس کا گنبد Spiral Shaped تھا۔اس نے بہت سارے محل بھی بنوایے جس میں لولوہ نامی شاہی محل سب سے بڑا تھا۔اس نے دریا دجلہ کے ساحل پر ایک نیا شہر بسایا جو جعفریہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس نے ایک نہر بھی کھدوایا۔
اپنے پیشتر عباسی خلفاء کے روایت کو برقرار رکھتے ہوۓ خلیفہ متوکل نے اپنی زندگی میں اپنے بڑے لڑکے منتصر اور اس کے بعد معتز کو ولی عہد بنایا،لیکن بعد میں کسی خاص وجہ سے متوکل نے اپنی وصیت میں تبدیلی کی اور منتصر کی جگہ معتز کو ولی عہد بنایا۔دراصل منتصر پر شیعیت غالب تھی اور معتزلہ کے عقائد کو مانتا تھا،لیکن متوکل پابند سنت اور علمائے اہل سنت کا بڑا قدردان تھا۔وہ خلق قرآن کے مسلہ کا سخت مخالف تھا اور شرک اور بدعت کے مٹانے میں مصروف رہتا تھا۔ عقائد کا یہ اختلاف باپ بیٹے کی کشیدگی کا باعث ہوا۔جب وصیت کی تبدیلی کی خبر منتصر کو موصول ہوئی تو باپ بیٹے میں مزید ایک سیاسی دشمنی پیدا ہو گئ۔سنہ861 ء میں خلیفہ متوکل نے ترکی فوجی سردار واصف کبیر کے جاگیروں کو ضبط کرنے کا حکم جاری کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ترکوں نے خلیفہ کے بڑے لڑکے کے ساتھ مل کر خلیفہ کے قتل کی سازش کی اور ایک رات ترک خلیفہ کے کمرہ میں داخل ہوا اور اس کا قتل کر دیا اور منتصر اس کی جگہ خلیفہ ہوا۔خلیفہ متوکل پہلا خلیفہ تھا جس کا قتل ہوا۔
تحریر: ریاض فردوسی، پٹنہ 9968012976