تاریخ کے دریچوں سے شاہان و شہسوران اسلام

خلافت عباسیہ کے چار ناتواں اور نااہل خلفاء

خلافت عباسیہ (چوتھی قسط)

نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے 610 ء عیسوی میں مکہ مکرمہ دعوت توحید کا آغاز کیا۔آپ ﷺ کے وفات کے بعد آپ ﷺ کے عظیم فرماں بردار ساتھیوں نے توحیدی مشن کو بخوبی انجام دیا،لیکن بعد کے آنے والے خلفاء کے اندر وہ خوبیاں موجود نہیں تھی جو خوبی نبی کریم ﷺ کے ان محترم جانثار ساتھیوں میں تھی۔اس کے باوجود ہر دور میں چند سرفروشان اسلام نے اپنے جان و مال کی بے مثل قربانی دی اور مزید قربانی دے کر اس مشن کو آج تک کامیاب کر رہے ہیں۔

ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ نے روۓ ارض میں ایک شخص جن کا مقدس اسم گرامی محمد عربی ﷺ ہے،انہیں مکمل بنایاہے،ہر عیب اور ہر کمی سے پاک و صاف۔باقی ہم سب کے اندر کہیں نا کہیں کوئ ناکوئ کمی انسان ہونے کے سبب ضرور موجود ہے۔خلفاء راشدین کے منور دور کے بعد جتنے بھی خلفاء ہوۓ،چند ایک کو چھوڑ کر ان سبھوں سے بشری تقاضوں کے تحت چھوٹی بڑی غلطیاں اور گناہ ہوۓ۔اللہ سب کو معاف فرمائے۔ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ آخر میں یہ سب انسان ہی تھے،اور انسان غلطیوں کا مجسمہ ہے۔

سنہ 861ء سے لیکر سنی 870ء تک اس دس سالہ عرصہ میں چار عباسی خلفاء گزرے جنہوں نے تھوڑی مدت کے لیے حکومت کی۔ اس سے پہلے ہم آپ کو بتا چکے ہیں کہ متوکل علی اللہ پہلا عباسی خلیفہ تھا جس کا قتل کر دیا گیا تھا۔خلیفہ متوکل علی اللہ کے خون کے بعد چار خلیفہ پے در پے خلافت کے منصب پر فائز ہویے۔ خلیفہ منتصر باللہ ، خلیفہ مستعین باللہ، خلیفہ معتز باللہ اور  مہتدی باللہ ۔خلیفہ متوکل علی اللہ کے قتلِ کے بعد اس کا لڑکا  منتصر باللہ تخت خلافت پر متمکن ہوا اور وہ دسمبر 861 سے لیکر جون 862 تک خلافت کا کام انجام دیا۔ اس نے اپنی شش ماہہ خلافت کے مختصر زمانے میں شیعوں پر بہت احسانات کیے۔ حسین رض کی قبر پر لوگوں کو زیارت کے لیے جانے کی اجازت دی اور علویوں کو ہر قسم کی آزادی عطا کر دی۔ممنتصر کو ترکوں نے ہی تخت خلافت پر بٹھایا تھا۔ ترکوں کی ترغیب ہی سے اس نے اپنے بھائیوں کو ولی عہدی سے معزول کیا تھا۔ تخت خلافت پر بیٹھتے ہی خلیفہ نے ترکوں کی طاقت کو کم کرنے طرف متوجہ ہوا تو ترک نے اس کے اس ارادہ کو ناکام کرنے کے لیے شاہی طبیب کو رشوت دی کہ زہر آلود نشتر سے اس کی فصد کھولے۔ آخر کار وہ اسی زہر آلودہ نشتر سے انتقال کر گیا۔

 نویں صدی کے نصف کے بعد خلافت عباسیہ میں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ پہلے خلیفہ اپنی زندگی میں ہی ولی عہد کو منتخب کر لیتے تھے لیکن خلیفہ متوکل علی اللہ کے قتل کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہو گیا۔ اس کے بعد  خلیفہ کا انتخاب ترک سردار کرنے لگے۔ دوسری چیز یہ کہ خلیفہ محمد امین بن ہارون الرشید کے بعد جتنے بھی خلفاء عباسی خلافت پر متمکن ہویے وہ سب کے سب ام ولد کے پیٹ سے پیدا ہونے تھے۔ یعنی یہ تمام خلفاء باپ کی طرف سے عربی النسل کے تھے لیکن ماں کی طرف سے عجمی النسل کے تھے۔ ہم چند مثالیں یہاں بیان کرتے ہیں: مامون الرشید بن ہارون الرشید مراجل نامی ام ولد کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا۔ معتصم باللہ بن ہارون الرشید باردہ نامی ام ولد کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا۔ واثق باللہ بن معتصم باللہ بن ہارون الرشید قراطیس نامی ام ولد کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا۔ متوکل علی اللہ بن معتصم باللہ بن ہارون الرشید شجاع نامی ام ولد کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا۔ منتصر باللہ بن متوکل علی اللہ بن معتصم باللہ بن ہارون الرشید رومیہ حبشیہ نامی ام ولد کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا۔ تیسری چیز یہ کہ خلافت کے منصب پر خلیفہ ضرور بیٹھا ہوا تھا لیکن یہ خلفاء نہایت ہی کمزور اور نااہل تھے۔وہ برائے نام خلیفہ تھے۔ وہ  ترکی فوج اور ترک سرداروں کے ماتحت تھے۔ ترک سردار جب چاہتے خلیفہ کو معزول کر دیتے اور جسے چاہتے اسے خلافت کے منصب پر بیٹھا دیتے۔اس دور میں خلافت کا منصب بہت ہی کمزور ہو گیا تھا۔اس کمزوری کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سے صوبے آزاد اور خود مختار ہو گیے اور ان صوبوں کے عمال ایک الگ حکومت قائم کرلی۔ خلیفہ منتصر باللہ کے وفات کے بعد  وزیر احمد بن خصیب اور دوسرے ترک سرداروں نے مستعین باللہ بن معتصم باللہ بن ہارون الرشید کو تخت خلافت پر بٹھایا۔ وہ مکارق نامی ام ولد کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا۔ وہ سنہ 862 سے لیکر سنہ 866 تک حکومت کیا ۔خلافت کا عہدہ سنبھالتے ہی خلیفہ مستعین باللہ نے تمام بڑے بڑے عہدے ترکوں کو عطا کیے۔ اس نے ترکوں کے ایک سردار تامش نامی کو وزارت کا عہدہ عطا کیا اور ساتھ ہی ساتھ مصر و مغرب کی حکومت بھی سپرد کی۔

سنہ 863 میں رومیوں نے آرمینیا اور ایشیا کوچک میں حملہ کیے جس میں مشہور سرداروں اور بہت سے مسلمان شہید ہویے۔ ان لوگوں کی شہادت کا حال سن کر بغداد میں لوگوں کو سخت ملال اور افسوس ہوا اور ترکوں کی نسبت شکایات زبانوں پر آنے لگی کہ انہوں نے طاقت پاکر خلفاء کو قتلِ اور شرفاء کو ذلیل کرنے کا کام تو کیا لیکن کفار کے مقابلے میں جہاد کرنے میں غفلت کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بغداد میں عوام سڑک پر آ گیے۔ خلیفہ نے سامرہ پہنچ کر اسی قسم کی شورش برپا کر دی اور قیدیوں کو آزاد کر دیا۔ اس کے بعد ترکی فوج نے ان مسلمانوں کے مقابلے پر آیے اور بہت سارے مسلمانوں کا قتلِ کیا گیا۔ اسی شورش کے درمیان خلیفہ سامرہ سے نکل کر بغداد چلے آیے اور خلیفہ کے آنے کے بعد دفاتر بھی بغداد آگیا۔

 خلیفہ کے بغداد چلے جانے کے بعد ترکوں کو پشیمانی ہویی اور وہ خلیفہ کو سامرہ واپس لے جانے کے لیے بغداد تشریف لائے لیکن خلیفہ مستعین نے ترکوں کو ان کی بے وفاییاں اور گستاخیاں یاد دلا کر سامرہ جانے سے انکار کر دیا۔ ترکوں نے سامرہ واپس جا کر سابق خلیفہ متوکل کے بیٹے معتز کو جیل سے نکالا اور اس کے ہاتھ پر بیعت خلافت کر لی۔ اسی طرح جو لوگ معتز کی خلافت کو پسند کرتے تھے وہ معتز کے پاس سامرہ چلے گئے اور جو مستعین کو پسند کرتے تھے وہ سامرہ سے بغداد چلے آیے۔ یہی حالت صوبوں کے عاملوں اور گورنروں کی ہوئی۔ اس طرح ایک ہی وقت میں خلافت عباسیہ میں دو دو خلیفہ موجود تھے۔ ایک سامرہ میں مقیم تھا اور دوسرا بغداد میں مقیم تھا۔ آخر سنہ 866 میں مستعین باللہ نے معتز باللہ کی خلافت کو تسلیم کرکے خود خلافت سے دستبردار ہو گیا۔ خلیفہ معتز نے بغداد میں داخل ہو کر معزول خلیفہ مستعین کو نظر بند کر دیا اور بعد میں اس کا قتلِ کروا دیا۔

خلیفہ معتز باللہ بن متوکل علی اللہ ایک رومیہ ام ولد فتحیہ نامی کے بطن سے پیدا ہوا۔ خلیفہ معتز نے تخت نشیں کے فوراً بعد ہی اپنے بھائی موید کو ولی عہدی سے معزول کر دیا اور جیل خانے بھجوا کر قتلِ کرا دیا۔ اس نے محمد بن عبداللہ بن طاہر کو ( جو خراسان کا گورنر تھا مگر بغداد میں مقیم تھا) بغداد یولیس پر مامور کیا۔ بغداد میں جو لشکر رہتا تھا اس  میں خراسانی اور عراقی لوگ تھے۔  خلیفہ معتز نے اس تمام لشکر کو تنخواہیں اور وظیفے دینے بند کر دیے۔ تنخواہ اور وظائف نہ ملنے سے لشکر بغداد نے بغاوت کی اور محمد بن عبداللہ بن طاہر کے مقابلہ پر آمادہ ہو گے۔ اس کے بعد فوج کے ترکوں اور عربوں میں فساد شروع ہو گیا۔ عربوں کا ساتھ اہل بغداد نے دیا مگر ترکوں نے دھوکے سے عربوں اور ان کے سرداروں کو قتلِ اور جلا وطن کیا۔ ترکوں نے اپنے سپہ سالاروں سے کہا کہ ہم کو چار مہینے کی پیشگی تنخواہیں دلوا دو لیکن خزانہ میں قلت دولت کی وجہ سے جب انکو پیشگی تنخواہیں نہیں دی گئی تو ترکوں نے شورش برپا کی اور اپنے سپہ سالاروں کو قتلِ کر دیا۔  

 معتز باللہ کی معزولی اور  موت

خلیفہ معتز ترک سرداروں کے قبضہ میں تھا۔ وہ جو چاہتے تھے کرتے تھے یہاں تک کہ سرکاری خزانوں کو خالی کر دیا تھا۔ فوج کے آدمی خلیفہ سے اپنے وظائف طلب کرتے تھے مگر خلیفہ سخت مجبور تھا۔ آخر ایک روز ترکوں نے جمع ہو کر امیرالمومنین کے دروازہ پر جاکر شور و گل مچایا اور وظائف کا تقاضا کرنے لگے اور دھمکی دیا کہ اگر انہیں وظائف نہیں دیے گئے تو وہ صالح بن وصیف کو قتل کر ڈالیں گے۔ صالح بن وصیف ایک ترک سردار تھا جس سے خلیفہ بہت ڈرتا تھا۔ اس شورش کو دیکھ کر خلیفہ معتز نے اپنی ماں فتحیہ رومی سے پیسے کی مدد مانگی مگر اس نے دینے سے انکار کر دیا۔ بالاخر ترکوں نے صالح بن وصیف اور محمد بن بغا صغیر سرداروں کی بیعت میں مسلح ہوکر قصر خلافت میں زبردستی گھس گئے اور خلیفہ معتز کی ٹانگ پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے باہر لایے۔ اس کو مارا، گالیاں دیں اور صحن مکان میں برہنہ دھوپ میں کھڑا کر دیا، پھر ہر ایک شخص جو گزرتا تھا اس کے منہ پر طمانچہ مارتا تھا۔ اس کے بعد خلیفہ سے کہا گیا کہ وہ اپنی خلافت سے دست برداری لکھ دے۔ معتز نے اس سے انکار کیا تو قاضی القضاۃ نے ایک تحریر پر تمام اراکین سلطنت سے دستخط کرایے اور معتز کو معزول کر دیا اور اسے نظر بند کر دیا اور کچھ دنوں کے بعد وہ انتقال کر گیا۔ اس واقعہ کے بعد لوگوں نے بغداد سے معتز کے چچازاد بھایی محمد بن واصق کو تجت سلطنت پر بٹھایا اور مہتدی باللہ کا خطاب دیا۔ خلیفہ معتز کی خلافت سنہ 869 میں ختم ہویی۔ 

مہتدی باللہ بن واثق باللہ بن معتصم باللہ بن ہارون الرشید نہایت ہی عابد، زاہد، عادل اور بہادر خلیفہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ تخت نشیں ہونے کی تاریخ سے لیکر مقتول ہونے تک (870-869) وہ مسلسل روزہ رکھتا تھا۔ احکام الہی کا بڑا ہی پابند تھا۔ اموی خلیفہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کو وہ ایک مثالی خلیفہ سمجھتا تھا اور اسی کے نقش قدم پر چلتا تھا۔ مہتدی باللہ لہو و لعب کو باکل پسند نہیں کرتا تھا۔ وہ موسیقی کو حرام  سمجھتا تھا ۔اس لیے اس نے دربار سے آلات موسیقی نکلوا دیا اور اس نے سامرہ سے تمام لونڈیوں اور مغنیوں کو نکلوا دیا۔ عدالتی معاملات میں وہ نہایت ہی عدل و انصاف سے فیصلہ کرتا تھا  اور اس لیے وہ بغداد اور سامرہ کے لوگوں میں بہت ہی مقبول تھا۔کہا جاتا ہے کہ جب ترکوں نے خلیفہ کا محاصرہ کر رکھا تھا، بغداد اور سامرہ اور دوسرے مقامات کی رعایا خلیفہ مہتدی کے لیے دعائیں مانگ رہی تھی۔

خلیفہ مہتدی باللہ کے دور خلافت میں  ترکی وزیر صالح بن واصف نہایت ہی بااثر اور رسوخ والا شخصیت تھا۔ اس نے خلیفہ معتز کی ماں سے ڈھیر سارے دولت برامد کی حالانکہ وہ چاہتی تو وہ اپنے بیٹے کو اس میں سے مال و دولت دیکر اس کی جان بچا سکتی تھی جب ترک سپاہیوں نے اس سے پیشگی وظائف کا مطالبہ کیا تھا۔ صالح بن واصف نے فتحیہ کے تمام مال و اسباب پر قبضہ کرکے کہا کہ اس کمبخت عورت نے پچاس ہزار دینار کے عوض اپنے بیٹے کو قتلِ کرا دیا۔ 

صالح بن واصف کا سب سے بڑا حریف موسیٰ بن بغا کبیر تھا۔ معتز کی معزولی اور مہتدی کی تخت نشینی کے وقت وہ دارالخلافہ بغداد میں موجود نہ تھا۔ اس نے جب یہ سنا کہ صالح نے معتز کو معزول کرکے مہتدی کو خلیفہ بنا دیا ہے تو وہ معتز کے خون کا بدلہ لینے کے لئے دارالخلافہ کی طرف روانہ ہوا۔ صالح موسیٰ کے آنے کی خبر سن کر روپوش ہو گیا۔ اس کے بعد موسیٰ نے منادی کرا دی کہ جو شخص صالح کو گرفتار کر کے لایے گا اسے انعام دیا جائے گا۔ اتفاقاً ایک جگہ صالح کا پتہ چل گیا اور پھر اس کا قتل کر دیا گیا۔ اس سے پہلے موسیٰ جب بغداد واپس آکر خلیفہ سے ملاقات کی تو اس نے آتے ہی خلیفہ مہتدی کو گرفتار کر کے اور ایک خچر پر سوار کراکر قید خانہ میں لے جانا چاہا۔ لیکن جب خلیفہ نے یہ حلف لیا کہ وہ صالح کی طرفداری نہیں کرے گا تو موسیٰ نے خلیفہ کو چھوڑ دیا۔ اس بے عزتی اور بے حرمتی کے بعد جب خلیفہ نے دیکھا کہ صالح کا قتل ہو گیا اور موسیٰ کی طاقت میں کافی اظافہ یو گیا ہے تو اس نے ایک ترک سردار کو لکھا کہ موقع پاکر موسیٰ کو قتلِ کر دو۔ اس ترک سردار نے یہ خط موسیٰ کو دکھا دیا۔ موسیٰ فوج لیکر قصر خلافت پر چڑھ آیا۔ اس عرصہ میں ترک سردار جس نے خلیفہ کا راز فاش کر دیا تھا خلیفہ مہتدی نے اس کا قتل کراکر اس کا سر ترکوں کی طرف پھینک دیا۔اس سے مخالف ترکوں کا جوش اور بھی بڑھ گیا اور وہ ترک جو خلیفہ کی طرف سے لڑ رہے تھے ترک سردار کے قتلِ سے ناراض ہو کر موسیٰ کی فوج میں جا ملے۔ بالاخر خلیفہ مہتدی کو شکست ہوئی اور اس کا قتلِ کر دیا گیا۔ خلیفہ مہتدی نے پندرہ دن کم ایک سال خلافت کی۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ سنہ 861ء سے لیکر سنہ 870 تک چار خلفاء یکے بعد دیگر معزول ہوتے گیے ۔ یہ جتنے بھی خلفاء تھے ان سبھوں کو ترک سرداروں نے ہی منتخب کیا تھا اور وہ ان ہی کے ماتحت میں تھے، انہیں کے دباؤ میں تھے۔ یہ لوگ نام کے خلیفہ تھے۔ اصل قیادت ترک سرداروں اور ترک فوج کے ہاتھوں میں تھی۔

تحریر: ریاض فردوسی، پٹنہ 9968012976

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے