شعراء

ضلع بانکا کی ایک مایۂ ناز علمی و ادبی شخصیت: مولانا تحسین عالم تحسینؔ رضوی

صوبۂ بہار کا مشہور علمی و روحانی خطّہ بھاگل پور ہندوستان کے مایۂ ناز اضلاع میں سے ایک ہے ٬ جو اپنے دامن میں علم و حکمت ٬ فکر دانش ٬ تصوف و روحانیت ٬ صنعت و حرفت اور تہذیب و ثقافت کی ایک حسین اور سنہری تاریخ رکھتا ہے ۔ ضلع بانکا ٬ اسی علمی و روحانی خطے کا چھوٹا بھائی ہے ٬ جو آج سے تقریباً دو دہائی قبل جسمِ بھاگل پور کا ایک مضبوط عضو تھا اور اس کو وہ ساری علمی و روحانی خوبیاں حاصل تھیں ( اور آج ہیں ) جو شہرِ بھاگل پور کا طرۂ امتیاز ہیں ۔ یہ وہ علمی و زرعی اور ادبی شہر ہے جس کے بارے میں راقم الحروف نے آج سے ایک سال پیشتر کہا تھا :

” دبستانِ عظیم آباد ” نے اس کو ضیا بخشی
ادب کی روشنی پھیلی ہوئی ہے شہرِ بانکا میں

نظر اٹھا کے جدھر دیکھیے طفیل احمدؔ
شعور و فکر کی جلوہ گری ہے بانکا میں

بھاگل پور کے مقابلے میں ضلع بانکا قدرے پسماندہ ضرور ہے ٬ بایں ہمہ اس کے مختلف علاقوں اور گاؤں میں ایک سے ایک علمی و ادبی ہیرے جواہرات موجود ہیں ۔ تفصیل سے گریز کرتے ہوئے سرِ دست یہاں میں اپنے گاؤں ” سبحان پور کٹوریہ ٬ عمر پور ٬ ضلع بانکا ” کا ذکر کرنا چاہوں گا ۔ الحمد للہ ! راقم الحروف کا گاؤں علما و مشائخ ٬ مفتیانِ کرام ٬ حفاظ و قرّاء ٬ ادبا و شعرا اور انجینئر حضرات کا مسکن ہے ۔ مختلف اہلِ علم نے میرے گاؤں کو ” مدینۃ العلماء ” کہا ہے جو حقیقت پر مبنی ہے ۔ راقم الحروف کی معلومات کے مطابق یہاں تین درجن سے زائد علما و حفاظ اور شعراء و ادبا موجود ہیں ۔ شیخ الاسلام حضرت علامہ محمد منور حسین شاہ نقشبندی ٬ استاذ العلماء حضرت علامہ مفتی ظل الرحمٰن رحمتؔ ضیائی ٬ خلیفۂ مفتیِ اعظم ہند حضرت علامہ قاری سہیل احمد رضوی نعیمی ٬ صوفیِ با صفا حضرت مولانا محمد ادریس القادری ایوبی ٬ استاذ العلماء حضرت مولانا محمد امام الدین ٬ حضرت مولانا مصلح الدین صاحب ٬ جامعِ شریعت و طریقت حضرت مولانا محمد خورشید عالم عزیزی علیہم الرحمہ وغیرہم ہمارے گاؤں کی مایۂ ناز ہستیاں گذری ہیں ۔

اسی زر خیز اور علمی گاؤں سے تعلق رکھنے والی مایۂ ناز شخصیت حضرت مولانا حافظ و قاری محمد تحسین عالم تحسینؔ رضوی مرحوم ( وفات : 9 / فروری 2022 ء ) کی بھی ہے ۔ آپ کا اصل نام محمد زین العابدین ہے ٬ لیکن اپنے مشفق استاذ صدر العلماء حضرت علامہ محمد تحسین رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ سے غایت درجہ قرب و عقیدت کی بنیاد پر اپنا نام ” محمد تحسین عالم ” رکھ لیا اور ” تحسینؔ ” تخلص اختیار کیا ۔ انتقال کے وقت تقریباً ۶۵ – ۶۸ سال عمر تھی ۔ 1955 ء کے قریب اپنے آبائی وطن سبحان پور کٹوریہ ٬ عمر پور ٬ ضلع بانکا ٬ بہار میں پیدا ہوئے ۔ ناظرۂ قرآن اور حفظ کا آغاز دار العلوم خیر المدارس ٬ عمر پور میں کیا اور دار العلوم خیریہ نظامیہ ٬ سہسرام میں حفظِ قرآن مکمل کیا ۔ لکھنؤ کے کسی بڑے ادارے میں قرأت کا کورس کیا ۔ کچھ دنوں تک دار العلوم ندوۃ العلماء ٬ لکھنؤ میں بھی تعلیم حاصل کی ۔ بعد ازاں اپنے بڑے بھائی خلیفۂ مفتیِ اعظم ہند حضرت علامہ حافظ و قاری محمد سہیل احمد رضوی نعیمی علیہ الرحمہ کے ہمراہ ناگ پور ٬ مہاراشٹر تشریف لے گئے اور وہیں جامعہ عربیہ اسلامیہ اور جامعہ امجدیہ میں درسِ نظامی کا آغاز فرمایا ۔ بعد ازاں دار العلوم محمدیہ ٬ کُرلا ٬ ممبئی میں داخلہ لیا ۔ اشرف العلماء حضرت علامہ سید حامد اشرف کچھوچھوی و دیگر اساتذہ سے مختلف علوم و فنون کی کتابیں پڑھیں ۔ درسِ نظامی کی تکمیل دار العلوم منظرِ اسلام ٬ بریلی شریف میں فرمائی ۔ یہاں کے دیگر اساتذہ کے علاوہ صدر العلماء حضرت علامہ محمد تحسین رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ سے خصوصی طور پر اکتسابِ فیض کیا ٬ یہاں تک کہ اپنے اس مشفق و مہربان استاذ کے نام پر اپنا نام رکھ لیا ۔ جس وقت راقم الحروف کی عمر لگ بھگ ۱۵ / سال رہی ہوگی ٬ اس وقت علامہ تحسین رضا خان بریلوی میرے گاؤں تشریف لائے تھے اور اپنے ہونہار شاگرد مولانا تحسین عالم رضوی کے بارے میں لوگوں سے پوچھ رہے تھے ۔ حسنِ اتفاق دیکھیے کہ میں بھی اس وقت حضرت کی زیارت کے لیے گیا ہوا تھا ۔ لوگوں نے میرے بارے میں جب حضرت کو بتایا کہ یہ مولانا تحسین عالم رضوی کے صاحب زادے ہیں تو آپ بہت خوش ہوئے ٬ سینے سے چمٹا لیا ٬ میری پیشانی کو بوسہ دیا اور دعاؤں سے نوازا ۔ میں اس وقت حفظ کر رہا تھا ٬ ایک دو رکوع پڑھ کر حضرت کو سنایا ٬ آپ نے بطورِ انعام دس روپے عنایت کیے اور فرمایا کہ محنت سے پڑھو ٬ تم کو دینی و علمی کام انجام دینے کے لیے ماریشش ( ساؤتھ افریقہ ) لے کر جاؤں گا ۔

اوصاف و خصوصیات :

ہر باپ اپنے بیٹے کے لیے عظیم اور قابلِ قدر ہوتا ہے ٬ چاہے باپ کی حیثیت اور پوزیشن کچھ بھی ہو ۔ عام بیٹوں کی طرح راقم الحروف کو بھی ایک بیٹا ہونے کی حیثیت سے اپنے عظیم باپ پر فخر ہے ۔ آج میرے پاس جو کچھ بھی تھوڑا بہت علمی اور ادبی سرمایہ ہے ٬ وہ میرے والدِ گرامی کے فیضانِ نظر اور والدہ محترمہ کی دعاؤں کا نتیجہ و ثمرہ ہے ۔ مقامِ شکر و افتخار ہے کہ مجھے ایک عظیم باپ کی علمی و ادبی آغوش میں پل کر جوان ہونے کا موقع ملا اور ان کے علمی و ادبی فیضان سے مالا مال ہونے کا موقع میسر آیا ۔ اللہ رب العزت نے والدِ گرامی کو بہت ساری علمی اور اخلاقی خوبیوں سے نوازا تھا اور یہ ایسی خوبیاں ہیں جو ہمارے گاؤں کے دو تین بزرگ علما کو چھوڑ کر آپ کے علاوہ دوسروں میں نظر نہیں آتیں ۔ شخصِ واحد میں علم و حکمت ٬ فکر و دانش ٬ اخلاق و کردار اور ادب و فن کا ایک حسین امتزاج پایا جاتا ہے ۔

والدِ گرامی حضرت مولانا تحسین عالم تحسینؔ رضوی اپنے وقت کے جیّد عالمِ دین ٬ مدرّس ٬ حافظِ قرآن ٬ قرأتِ سبعہ کے منجھے ہوئے قاری ٬ ایک درجن کتابوں کے مصنف ٬ حکیم و طبیب ٬ ادیبِ عصر اور قادر الکلام شاعر تھے ۔ عربی ٬ فارسی اور اردو تینوں زبان پر قدرت حاصل تھی ۔ دینی علوم و فنون کے علاوہ ہندی ٬ انگریزی اور حکمت و طبابت سے بھی واقف تھے ۔ ایک زمانے کے تک آپ نے طبابت ( حکیمی ) کا پیشہ بھی اختیار کیا ۔ خود داری اور غیر مستقل مزاجی کے سبب کسی ایک جگہ سکون کے ساتھ بیٹھ کر آپ کو دین و مذہب اور تصنیف و تالیف کا کام انجام دینے کا موقع نہیں ملا ٬ ورنہ آپ کی ذات سے بڑے بڑے علمی و تحقیقی کام سر انجام پاتے ۔ گاؤں کے ہم عمر و ہم عصر علما کے علاوہ بزرگ علما بھی آپ کی علمی و ادبی صلاحیتوں کے معترف و مداح تھے اور آج بھی اہلِ علم آپ کی علمی فضیلتوں کے قائل ہیں ۔ دین و مذہب اور مسلک و مشرب کے معاملے میں سخت اور نہایت متصلب قسم کے سنی و رضوی عالمِ دین تھے ۔ مسلکِ اعلیٰ حضرت کے نقیب و ترجمان تھے ۔ حضور مفتیِ اعظم ہند کے مرید تھے ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی اور خانوادۂ رضویہ کے افراد کو دل و جان سے عزیز رکھتے تھے ۔ حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کے فدائی و شیدائی تھے ۔ بد مذہبوں اور بد عقیدوں سے سخت نفرت کرتے تھے ۔ طبیعت میں دین داری ٬ خود داری ٬ بے نیازی اور صبر و قناعت کوٹ کوٹ کر بھری تھی ۔ گندی سیاست سے کوسوں دور رہتے تھے ۔ کم گو تھے ٬ لوگوں سے بہت کم ملتے جلتے تھے اور اپنے کام سے کام رکھتے تھے ۔ علم دوست ٬ علما نواز اور درس و مطالعہ کے شوقین تھے ۔ میں نے اپنی زندگی میں والدِ گرامی سے زیادہ کثیر المطالعہ کسی کو نہیں پایا ۔ دن میں اکثر مطالعۂ کتب میں مشغول و منہمک رہا کرتے اور رات کے وقت اندھیرے میں لالٹین اور موبائل کی لائٹ جلا کر کتابیں مطالعہ کیا کرتے تھے ۔ کسی بھی موضوع کی کتاب از اول تا آخر اس کا مطالعہ فرماتے ۔ جناب سید بدرِ عالم رضوی رجہتی مرحوم ٬ راقم کے خسر جناب اُورسیئر اسلام انصاری صاحب اور جناب قاری ثناء اللہ صاحب کا شمار آپ کے مخلص احباب میں ہوتا ہے ۔

استاذ العلماء حضرت علامہ مفتی محمد ظل الرحمٰن رحمتؔ ضیائی علیہ الرحمہ نے متعدد بار مجھ سے فرمایا کہ ” مولوی طفیل ! آپ کے والد صاحب بڑے کمال کے آدمی تھے ۔ اچھی علمی صلاحیت کے مالک تھے ۔ زمانۂ طالب علمی میں مجھے فارسی میں خط لکھا کرتے تھے ۔ آپ کے والد نے ” جواباتِ رضویہ بر خرافاتِ …… ” نامی جو کتاب لکھی ہے ٬ اس میں انہوں نے اپنے مدِّ مقابل کو قینچی کی مانند کتر کر رکھ دیا ہے ” ۔ اسی کتاب ( جواباتِ رضویہ ) کے متعلق صوفیِ با صفا حضرت مولانا محمد ادریس القادری ایوبی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ ” اب تک اس کتاب کا پانچ بار مطالعہ کر چکا ہوں ٬ لیکن مزید مطالعہ کی خواہش ابھی بھی باقی ہے ” ۔

شاعری و نثر نگاری :

جیسا کہ ما قبل میں بیان ہوا کہ والدِ گرامی حضرت مولانا تحسین عالم تحسینؔ رضوی بہت ساری علمی خوبیوں کے مالک تھے ۔ شاعری و نثر نگاری ( تصنیف و تالیف ) آپ کی علمی و ادبی شخصیت کے نہایت درخشاں پہلو ہیں ۔ آپ فطری شاعر اور پیدائشی ادیب تھے ۔ آپ کا شمار شہرِ بھاگل پور و بانکا کے قدر آور علما و شعرا اور مایۂ ناز ادبا و مصنفین میں ہوتا ہے ۔ سیرتِ رسول اکرم ﷺ ٬ مینارِ ولایت ٬ جواباتِ رضویہ ٬ شمعِ فروزاں ٬ خانوادۂ رضویہ کی علمی و دینی خدمات وغیرہ آپ کے نثری کارنامے ہیں اور نظم و شاعری میں ” نغماتِ اسعدؔ ” / ” شاہنامۂ رضا ” / ” مناقبِ ازہری ” / بھاگل پور نامہ ” اور ” ترانۂ تحسین ” خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں ۔ شاہنامۂ رضا ٬ امام احمد رضا محدث بریلوی کی منظوم سوانحِ حیات ہے ٬ جو چار ہزار سے زائد اشعار پر مشتمل ہے ۔ ایک عظیم اور قادر الکلام شاعر کی حیثیت سے آپ کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا ۔ پہلے ” اسعدؔ ” تخلص کرتے تھے ٬ بعد میں ” تحسین ” تخلص کرنے لگے ۔ شعر و سخن کے معاملے میں آپ ” ہر فن مولیٰ ” واقع ہوئے تھے ۔ حمد و نعت ٬ منقبت ٬ غزل ٬ مثنوی ٬ سہرا اور قطعہ جیسی اصناف میں آپ نے طبع آزمائی کی ہے اور اپنے فکر و فن کے جوہر دکھائے ہیں ۔ میرے گاؤں ( سبحان پور کٹوریہ ) کے جو چند علمائے کرام شاعری و نثر نگاری اور تصنیف و تالیف میں منفرد شناخت اور بلند مقام رکھتے ہیں ٬ ان میں آپ سرِ فہرست ہیں ۔ شہر و ناموری اور نام و نمود سے آپ ہمیشہ دور رہے ۔ اپنے کلام کو محفوظ رکھنے کا اہتمام نہیں کیا ٬ اس لیے آپ کے بہت سارے کلام ضائع ہو گئے ۔ اردو کے علاوہ فارسی میں بھی آپ شاعری کرتے تھے ۔ جناب سید بدرِ عالم رضوی رجہتی ( جو آپ کے مخلص رفیق تھے ) کے سفر نامۂ حرمین ” ہند سے دیارِ حرم تک ” میں آپ کا ایک عربی کلام بھی موجود ہے ٬ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عربی شاعری میں بھی آپ عاجز نہیں تھے اور اس کی قدرت رکھتے تھے ۔

حضرت مولانا قاری میکائیل احمد ضیائی ( استاذ مدرسہ احسن المدارس و صدر نعت اکیڈمی ٬ کان پور ) نے راقم الحروف کے نعتیہ مجموعۂ کلام ” حرفِ ثنا ” پر تبصرہ کرتے ہوئے عمِ مکرّم کے علاوہ ہمارے والدِ معظّم کا تذکرہ کچھ اس طرح کیا ہے :

” تقدیسی شاعری کرنے والوں کی صف میں مشہور و معروف ادیب ، شاعر ، صحافی ، ناقد و تجزیہ نگار مولانا طفیل احمد مصباحی صاحب نمایاں حیثیت سے شامل ہیں ۔ مولانا موصوف ایک قابل قدر عالمِ دین ، حافظِ قرآن ، عمدہ مدرس اور منجھے ہوئے ادیب و شاعر اور صحافی ہیں ۔ علم و ادب کی یہ قیمتی دولت انہیں وراثت میں ملی ہے ۔ ان کے بڑے ابّو خلیفۂ مفتی اعظم ہند حضرت علامہ حافظ و قاری سہیل احمد صاحب نعیمی رضوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے وقت کے عظیم عالم و فاضل اور ادیب و مصنف تھے اور ان کے والد گرامی حضرت مولانا زین العابدين المعروف بہ تحسین عالم رضوی مرحوم بھی بڑے پایہ کے عالم و ادیب اور شاعر و مصنف تھے ” ۔

نعت گوئی :

آپ نے شاعری کا آغاز نعت گوئی و منقبت نگاری سے کیا ۔ بعد میں غزل ٬ نظم ٬ قطعات و سہرا اور ہجویہ و طنزیہ کلام بھی کثرت سے لکھے ۔ آپ کا پہلا نعتیہ مجموعۂ کلام ” نغماتِ اسعدؔ ” ہے ٬ جو آپ کے زمانۂ طالب علمی کی یادگار ہے اور اس پر آپ کے استاذِ گرامی صدر العلماء حضرت علامہ محمد تحسین رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ کی ” تقریظِ جلیل ” موجود ہے ۔ اس تقریظ میں آپ نے لکھا ہے کہ ” عزیزم مولوی محمد زین العابدین اسعدؔ بھاگل پوری سلمہ الباری ( عرف تحسین عالم ) کی زبان اتنی صاف ستھری اور نکھری ہوئی ہے کہ لگتا نہیں کہ وہ یوپی کے علاوہ کہیں اور کے رہنے والے ہوں ” ۔ ایک صاحبِ زبان مستند عالم و فاضل کا یہ جملہ آپ کی شاعرانہ مہارت کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے ۔ ” نغماتِ اسعدؔ ” سے نمونتاً دو شعر پیش کرتا ہوں :

مجھ کو اچھا مرے خدا کر دے
میرے دکھ درد کی دوا کر دے

عالمِ بیکسی میں وہ اسعدؔ ہے کون
غم زدوں کا سہارا ہمارا نبی

آپ کی مندرجہ ذیل نعتِ پاک حسنِ زبان و لطفِ بیان کا حسین اور پُر کیف نمونہ ہے :

مثلِ حضور کوئی بھی انسان نہیں ہے
خِلقت میں اُن سا کوئی بھی ذیشان نہیں ہے

وصفِ نبی میں یوں تو کتابیں ہیں بیشمار
‘ قرآن ‘ جیسا نعت کا دیوان نہیں ہے

کیا وہ سمجھ سکیں گے شہِ دیں کا مرتبہ
خود جن کو اپنے آپ کی پہچان نہیں ہے

اہلِ زبان رہتے تھے یوں پیشِ مصطفیٰ
لگتا تھا ان کے جسم میں کچھ جان نہیں ہے

شاہانِ زمانہ کی عدالت میں آج کل
قرآن جیسا عدل کا فرمان نہیں ہے

سرکار کو جو کہتا ہے اپنی طرح بشر
اس سے بڑا تو کوئی بھی نا دان نہیں ہے

وہ دل کبھی کیا لذتِ ایمان پائے گا
جس دل میں حبِّ صاحبِ قرآن نہیں ہے

جو عیب گو نبی کا ہے مسلم کے نام پر
وہ مرتبہ میں کچھ ہو مسلمان نہیں ہے

میرے عمل میں عشقِ شہِ دین کے سوا
بخشش کے واسطے کوئی سامان نہیں ہے

تحسینؔ دل وہ زندہ نہیں مُردہ ہے محض
جس دل میں ان کی دید کا ارمان نہیں ہے

منقبت نگاری :

نعت گوئی کے علاوہ منقبت نگاری میں بھی آپ کو کمال حاصل تھا ۔ سلطان العارفین سرکار سیدنا شہباز محمد بھاگل پوری ٬ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی ٬ اپنے پیر و مرشد حضور مفتیِ اعظم ہند ٬ حضور مجاہدِ ملت ٬ حضور تاج الشریعہ علیہم الرحمہ کی شان میں آپ نے کثیر منقبتیں لکھی ہیں ۔ رئیس المحدثین حضرت علامہ سید سلیمان اشرف بہاری علیہ الرحمہ ( سابق صدر شعبۂ دینیات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ) کی بارگاہ میں عقیدت کا خراج پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

بحمد للہ مری نوکِ زباں پر کس کا نام آیا
کہ جس کے ذکرِ شیریں سے مسرت کا پیام آیا

وہی سید سلیمان اشرف النورانی شخصیّت
مکمل دین سے آراستہ عرفانی شخصیّت

انہیں کے ذکرِ عالی سے طبیعت مسکرا اٹھّی
وہ یاد آئے تو کھیتی سنیت کی لہلا اٹھّی

تھا ان کو جو بھی حاصل فضلِ ربانی ٬ مسلّم تھا
کہ علمِ دین کا ” تاجِ سلیمانی ” مسلّم تھا

عجب ہی آن تھی ان کی ٬ عجب ہی مان تھی ان کی
” علی گڑھ ” میں بڑی ہی عالمانہ شان تھی ان کی

وہ حنفی مذہباً تھے ٬ مشرباً چشتی نظامی تھے
سلوک و معرفت میں ایک میخانے کے جامی تھے

لکھے تحسینؔ کیا توصیف میں حضرت سلیماؔں کی
قلم قاصر ہے لکھنے کو مدح موصوف انساں کی

بھاگل پور نامہ :

وہ جو کہتے ہیں کہ فلاں بزرگ ” مادر زاد ولی ” تھے ۔ شعر و ادب کے معاملے میں کچھ یہی حال آپ کا بھی تھا کہ آپ ” مادر زاد شاعر ” تھے ۔ زمانۂ طالب علمی سے ہی آپ کا شعری جوہر نکھرنے لگا تھا ٬ جو امتدادِ ایام کے ساتھ مزید گہرا ہوتا گیا ۔ ” نغماتِ اسعدؔ ” / ” شاہنامۂ رضا ” اور ” مناقبِ ازہری ” کے علاوہ ” بھاگل پور نامہ ” بھی آپ کی خوب صورت شعری یادگار ہے ۔ عصرِ حاضر کے مشہور محقق و ناقد ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی ( مالیگاؤں ) آپ کے شعری مجموعہ ” بھاگل پور نامہ ” پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :

مولانا تحسین عالم تحسینؔ رضوی بھاگل پوری ایک بہترین عالم ہونے کے ساتھ ساتھ بلند پایہ شاعر بھی ہیں ۔ زمانۂ طالبِ علمی ہی سے ان کا اشہبِ قلم میدانِ شعر و ادب میں اپنی فکری جولانیاں دکھاتا رہا ہے ۔ آپ مذہب اور ادب دونوں سے اپنا رشتہ قائم رکھے ہوئے ہیں ۔ اب تک آپ کی کئی کتب منظر عام پر آ کر مقبولیت حاصل کر چکی ہیں ۔ شعر گوئی میں آپ کو کافی ملکہ حاصل ہے ۔ تقدیسی شاعری آپ کا پسندیدہ موضوع ہے ۔ تاج الشریعہ علامہ اختر رضا قادری برکاتی ازہری میاں دام ظلہٗ کی شان میں آپ کی تحریر کردہ مناقب کے مجموعے نے مجھے خاص طور پر متاثر کیا ۔ تحسینؔ صاحب کا شعری و نثری سفر مسلسل جاری و ساری ہے ۔ اس وقت میرے مطالعہ کے میز پر آپ کی ایک منفرد کاوش ” بھاگلپور نامہ ” سجی ہوئی ہے ۔ ۱۵ / عنوانات پر مشتمل۳۴۰ / اشعار کے اس بصیرت افروز شعری مجموعے کو پڑھنے کے بعد بے ساختہ شاعرِ محترم کے لیے دل سے داد نکلتی ہے ۔

” بھاگل پور نامہ ” کی فہرستِ عنوانات سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ شاعر نے کس قدر حُسنِ انتخاب کامظاہرہ کرتے ہوئے اپنے جذبات کا والہانہ اظہار اشعار کی صورت میں قارئین کی نذر کیا ہے ۔ اس مجموعے میں شامل منظومات پر خالص مثنوی ، قصیدہ ، منقبت ، مرثیہ ، شعرِ آشوب یا شہرِ آشوب کا ٹھپہ لگا کر کسی ایک صنف سے معنون نہیں کیا جا سکتا ۔ ہاں ! یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ” بھاگلپور نامہ ” میں شامل منظومات کی زیریں رَو میں قصیدہ کا آہنگ بھی ہے اور منقبت کا رنگ بھی ، مثنوی کا انداز بھی ہے اور مرثیہ کا کرب بھی ، شعرِ آشوب اور شہرِ آشوب کا الم انگیز اظہاریہ بھی ۔ غرض یہ کہ ” بھاگلپور نامہ ” شاعر کے تنوعِ خیال کو ظاہر کرتا ہے ۔ اس نظم میں شاعر نے علما و صلحا سے جس عقیدت و محبت کا والہانہ اظہار کیا ہے ٬ اُس میں افراط و تفریظ کا شائبہ بھی نہیں گذرتا ۔ تحسینؔ صاحب نے اپنی عقیدت کو محتاط وارفتگی کا مظہر بنایا ہے ۔ اس ضمن میں ” عالمانِ دیں نواز ” / ” گلشنِ شہباز ” / ” شانِ شہباز ” اور ” سجادگانِ شہباز ” کے علاوہ ” دمڑیا پیر کی حسین جاگیر ” / "دمڑیا پیر کی مشہور کرامت ” اور ” دمڑیا پیر کے سجادگان ” کا مطالعہ ہمارے دعوے کی توثیق کے لیے کافی ہے ۔ ان منظومات میں آپ نے بھاگل پور کے اولیا ، صوفیا ، علما ، صلحا ، حفاظ ، قرا ، شعرا ، ادبا ، اطبا ، اساتذہ ، صحافی نیز جملہ شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے حضرات اور دیگر اکابر کے ناموں کو اشعار میں نگینے کی طرح اس چابک دستی سے جَڑ دیا ہے کہ فنّی سقم کہیں دکھائی نہیں دیتا ۔ بلکہ کہیں کہیں ان ناموں سے تجنیس کا کام بھی لیا گیا ہے ۔

” پیغامِ امروز ” / ” جسم اور رو ح کی بیماری ” / ” صوفی اور کوفی مسلم کا وجود ” / ” نفسِ امارہ کی شیطنت ” اور ” اصلی اور نقلی پیروں کی روایت و درایت ” جیسی نظمیں تو خاصے کی چیز ہیں ۔ ان نظموں سے تحسینؔ صاحب کی انقلابِ امت ، اصلاحِ معاشرہ ، تزکیۂ باطن اور بیداریِ ملت کے تئیں سچی تڑپ اور کسک کا اظہار ہوتاہے ۔ یہ نظمیں ہر اعتبار سے لایقِ تحسین و آفرین ہیں ۔ شعر ی و فنّی خوبیوں ، حسنِ تراکیب ، ایجاز ، معنی آفرینی ، حُسنِ تخیل ، اظہارِ صداقت اور سلاست و روانی سے مملو مختلف نظموں سے چنیدہ اشعار نشانِ خاطر فرمائیں اور شاعرِ محترم کو ایسے نفیس اور عمدہ منظوم تذکرے پر مبارک باد پیش کریں :

مصلؔحِ دیں ہیں ، اماؔمِ دیں ہیں تیری خاک میں
اور قمرؔ الدین ہیں تیرے دلِ نمناک میں

” انتم الاعلون ” کتنا صاف ہے اعلانِ حق
شرط یہ ہے تو رہے مومن یہ ہے فرمانِ حق

اے مسلماں آج تیرا رنگ ہے بدلا ہوا
طَور ہے بدلا ہوا اور ڈھنگ ہے بدلا ہوا

شکلِ فاسق میں یہ تیری زندگی اچھی نہیں
مصطفی والے کی ایسی بندگی اچھی نہیں

غرض کہ ” بھاگل پور نامہ ” والدِ گرامی حضرت مولانا تحسین عالم تحسینؔ رضوی کی ایک عمدہ شعری مجموعہ اور زبان و بیان کا خوب مرقع ہے ۔ اس کے مطالعہ سے آپ کی ادبی مہارت اور شعری حذاقت کا بھرپور اندازہ ہوتا ہے ۔ بطورِ نمونہ اس کے چند اشعار یہاں پیش کیے جاتے ہیں :

خوب ہے محبوب ہے اے ارضِ بھاگل پور تو
عالمانِ دینِ حق ہے بہت معمور تو

اہلِ علم و دین سے تیرا جہاں پُر نور ہے
ناز ہے جس پر فلک کو تو وہ بھاگل پور ہے

عالَمِ بالا کے نادیدہ خزانے تجھ میں ہیں
یعنی سرِّ حق کے پوشیدہ خزانے تجھ میں ہیں

تجھ میں اہلِ دین کی اک انجمن آباد ہے
علم و حکمت ، فکر و دانش کا چمن آباد ہے

تجھ میں یوں اللہ کے مقبول ہیں بکھرے ہوئے
گلشنِ ہستی میں جیسے پھول ہیں بکھرے ہوئے

طنزیہ شاعریہ :

اک مولوی کو دیکھا کہ چلتا ہے اکڑ کر
کرتا ہے بات رعب سے اور بے جا شور سے

رکھتا ہے حمایت میں الگ اپنی جمعیت
مسجد کا وہ امام ہے لاٹھی کے زور سے

مسجد کا وہ امام بڑا بے لگام ہے
فسق و فجور میں بھی بہت اس کا نام ہے

چغلی کی طرح کھانا بھی کھاتا ہے بے طرح
کم بخت پیش امام نہیں ” پیٹ امام ” ہے

غرض کہ ایک عظیم اور قادر الکلام شاعر کی حیثیت سے آپ کی ایک منفرد شناخت ہے ۔ ان شاء اللہ العزیز آئندہ شمارے میں آپ کے نثری کارناموں اور ” شاہنامۂ رضا ” پر تفصیلی گفتگو آپ حضرات کی خدمت میں پیش کی جائے گی ۔ اللہ رب العزت اپنے حبیبِ پاک ﷺ کے صدقے آپ کے صغائر و کبائر کی مغفرت فرماتے ہوئے آپ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور آپ کے درجات بلند فرمائے آمین !

ازقلم: طفیل احمد مصباحی

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے