ڈی جے اور ناچ گانوں کے تناظر میں ایک چشم کشا تحریر
اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہر دور میں علماے اسلام نے برائیوں کے انسداد میں اپنا اہم اور کلیدی کردار ادا کیا ہے اور سماج و معاشرہ کو آئینہ حق دکھایا ہے۔ تاریخ علماے کرام کے ایسے بے شمار کارناموں سے بھری پڑی ہے۔ حالاں کہ ہر دور میں برائیوں کی شکل میں علماے کرام کو مختلف مسائل اور چیلجنز کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے، پھر بھی وہ ان کے سامنے بنیان مرصوص بن کر ٹکے رہیں اور اپنی ثبات قدمی اور مستقل مزاجی سے اُن کا قلع قمع کرکے ہی دم لیا ہے۔
اِس دور میں بھی علماے اسلام کو برائیوں کی شکل میں کئی ایک چیلنجز در پیش ہیں۔ سماج و معاشرہ میں ڈھیر ساری برائیاں در آئی ہیں، بالخصوص مسلم نوجوانوں میں نت نئی برائیاں جنم لے چکی ہیں، وہ ایسی برائیاں ہیں، جن سے نہ صرف ان کا دین و ایمان تباہ و برباد ہو رہاہے بلکہ ان تباہ کن برائیوں کی وجہ سے ان کی قیمتی جانیں بھی جارہی ہیں۔ ایسے وقت اور حالات میں بھی علماے اسلام سماجی، معاشرتی برائیوں کے خاتمہ کے لیے اور نوجوانوں میں در آئے خرافات و منکرات کے سدِ باب کے لیے متحرک و فعال ہیں اور ہمہ وقت ان کی اصلاح و تربیت اور ذہنی و نفسیاتی عوارض سے چھٹکارا دلانے میں لگے ہوئے ہیں۔
اگر ہم یہاں اِس دور کی سب سے بڑی برائی کا ذکر کرے تو وہ ڈی جے کی شکل میں ہے، جو نہایت ہی مہلک اور ہلاکت خیز ہے، جس سے اب تک کئی نوجوانوں کی جانیں تلف ہوچکی ہیں، ہزاروں افراد اس سے بری طرح متاثر ہوچکے ہیں۔ یہ برائی اِن دنوں غیروں کے رسم و رواج اور تہواروں سے ہوتے ہوئے ہمارے مسلم سماج میں گھر کرچکی ہے، جس نے سماج کے نوجوانوں کو مکمل طریقے سے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ڈی جے کلچر اس قدر عام ہوگیا ہے کہ نوجوانوں کو اِس رسمِ بد سے بچانا از حد ضروری ہوگیا ہے۔
اگر ہم ڈی جے کا اور بھی غائرانہ جائزہ لیں تو یہ خاص طور سے اسلامی تہواروں کا حصہ بنتا جارہاہے۔ خاص طور سے عیدِ میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حسین اور سنہری موقع پر جہاں درود و سلام وردِ زباں ہونا چاہیے، نعت نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے نغموں سے فضائیں گونج آٹھنا چاہیے اور سیرتِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سیرت کے اہم واقعات بیان ہونا چاہیے، حد ہوگئی ہے کہ ایسے پاکیزہ اور مقدس موقع پر بھی ڈے جے کلچر کا غلبہ و دبدبہ قائم ہوچکا ہے۔
عیدِ میلاد کے جلوس میں ڈے جی کی گھن گرج، لیزر لائٹس کی چمکتی شعائیں (جو آنکھوں پر یکسر طور پر اثر انداز ہوتی ہیں۔) ، شراب کے نشے میں رقص و سرور اور پھر اس میں بچیوں اور عورتوں کی کثیر تعداد میں شرکت ایک بہت بڑا المیہ بن چکا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے جہاں برائیوں کو ختم کرنے کے لیے تشریف لائے تھے، انہی کے بعض کلمہ گو لوگوں نے برائیوں کو ان ہی کے میلاد کے دن فروغ دینا شروع کردیا، جس سے اغیار اور دنیا بھر میں مسلمانوں کی شبیہ خراب ہوتی جارہی ہے۔
اب ایسی بگڑتی صورتِ حال میں علماے دین کی اور بھی مزید ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہے کہ وہ نوجوانوں کو اِن گمراہ کن حالات سے نکالنے میں اپنا فرضِ منصبی ادا کرکے ایک صالح معاشرہ کی تشکیل میں اپنا بنیادی کردار ادا کریں۔
اِس ضمن میں یہاں علماے شہرِ پونہ کا ذکر نہ ہو تو بڑی نا سپاسی ہوگی، جنہوں نے باہم شیر و شکر اور متحد و منظم ہوکر اِس سال جلوسِ عیدِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر ڈی جے کے خلاف پُر زور مہمیں چلائیں اور صبح میں جلوس نکال کر اِن تمام خرافات و بےہودہ حرکات پر قدغن لگایا۔
اگر اسی طرح ہر شہر کے علما و ائمہ کرام پونہ شہر کے علما کی طرح اتحاد و اشتراک کے ساتھ برائیوں کے خلاف کمر بستہ ہوجائیں تو ممکن ہے کہ انہیں زیادہ مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑیں اور اپنی کوششوں میں کامیاب ہوجائیں۔
اللہ تعالیٰ علماے دین کا سایہ معاشرے پر قائم و دائم فرمائے اور انہیں ہمہ وقت اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین
ازقلم: محسن رضا ضیائی
لکچرر: دی دکن مسلم انسٹی ٹیوٹ، کیمپ، پونہ