وقف اسلامی تصور کا ایک مقدس عمل ہے،جو دل کی گہرائیوں سے محبت و خلوص کےساتھ کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا کو وقف کا تصور اسلام نے دیا ہے۔ وقف کا مطلب ہے کسی شے کو اپنی ملک سے خارج کر کےخالص اللہ تعالی کی ملک کر دینا اس طرح کہ اس کا فائدہ بندگان خدا کو ملتا رہے۔
وقف کی بنیاد اخلاص، خیر خواہی اور دوسروں کی بھلائی پر ہے۔ اوراس کامقصد غریبوں،مسکینوں کی ضروریات کو پورا کرنا،انہیں معاشی طور پر خود کفیل بنانا اور سماجی بہتری کی راہیں ہموار کرنا ہے۔مسلمانوں کو علوم و فنون سے آراستہ کرنے میں اور اہل علم و فضل کی معاشی کفالت میں اوقاف کا اہم رول رہا ہے۔ وقف نظام اجتماعی تعاون کا اعلیٰ نمونہ ہے، مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کا ایک روشن پہلو ہے جو معاشرہ میں ہم آہنگی اور یکجہتی کو فروغ دیتا ہے
اوقاف کی ایک طویل اور شاندار تاریخ ہے۔ وقف کا آغاز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد پاک میں ہوا، آپ نے اپنے صحابہ کو اس کی اہمیت کے بارے میں آگاہ فرمایا۔ آپ نے سات باغوں کو وقف کیا جو اسلام میں پہلا وقف تھا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کھجور کے باغات کے لیے اپنی ایک زمین وقف کی تاکہ اس کا فائدہ عوام کو ہو سکے۔ منقول ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ نے اپنی مرحومہ والدہ کی طرف سے ایک کنواں کھدوایا اور اسے وقف کر دیا۔ مدینہ شریف میں بیر رومہ کا پانی میٹھا تھا لیکن بغیر قیمت کے کوئی اس سے پانی نہیں پی سکتا تھا کیونکہ اس کا مالک یہودی تھا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اس کو خرید کر وقف کر دیا۔
خلافت راشدہ میں وقف کا نظام وسیع ہوا۔ اموی دور میں بڑے پیمانے پر مساجد اور تعلیمی ادارے قائم کیے گئے۔ عباسی دور میں اوقاف کے انتظام میں مزید بہتری آئی اور بغداد میں تعلیمی اداروں کی کثرت ہوئی۔
ہندوستان میں اوقاف کی تاریخ کا آغاز اسلامی سلطنتوں کے قیام کے ساتھ ہوتا ہے۔ مسلم حکمرانوں نے اپنے زیر انتظام علاقوں میں مساجد، مدارس اور یتیم خانوں کے لیے وقف املاک کو فروغ دیا۔ مشہور مدرسہ فیروز شاہی اسی دور میں دہلی میں قائم کیا گیا تھا، جو اپنے وقت کے بہترین تعلیمی اداروں میں سے ایک تھا۔ اوقاف کی تاریخ میں عام مسلمانوں کا کردار بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ جنہوں نے اپنی زمینیں اور جائیدادیں اللہ کی راہ میں وقف کیں تاکہ ان کے مرحومین کو اس کا ثواب ملتا رہے۔
مغلیہ دور میں اوقاف میں بے پناہ ترقی ہوئی، اس دور میں املاک نہ صرف مذہبی ضروریات بلکہ عوامی فلاح و بہبود، تعلیم اور سماجی خدمات کے لیے بھی وقف کی گئی۔ بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے اوقاف کے نظام کو مزید فروغ دیا۔ ان کے دور میں بڑی بڑی مساجد اور تعلیمی ادارے قائم کیے گئے۔
مغل سلطنت کے زوال کے بعد اوقاف کی حالت خراب ہونے لگی۔ برطانوی دور میں جہاں مسلمانوں نے اپنے آپ کو ملک کی آزادی کے لیے وقف کیا وہیں انہوں نے ملک و ملت کی فلاح و بہبود اور برطانوی سامراج سے آزادی کے لیے اپنی املاک کو بھی وقف کر دیا جب انگریز ہندوستان پر قابض ہوئے تو انہوں نے اوقاف پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اوقاف کو ختم کرنے کا عمل برطانوی دور میں ہی شروع ہوا تھا۔ سن ۱۸۱۰ میں پہلا وقف ایکٹ پاس کیا گیا ،جس کا مقصد اوقاف کے انتظام اور ان کی نگرانی کے لیے ایک قانونی ڈھانچہ فراہم کرنا تھا لیکن اس میں کئی خامیاں تھیں۔ سن ۱۸۱۰ سے لے کر سن ۱۹۰۳ تک اوقاف کے قانون میں کئی ترامیم کی گئی۔ اس درمیان برطانوی حکومت نے اوقاف کے انتظام کو اپنے کنٹرول میں کر لیا۔ کئی املاک کو ضبط کیا، یا ان کا غلط استعمال کیا۔ تو اوقاف کی بحالی اور تحفظ کے لیے مسلمانوں نے تحریکیں شروع کیں جس کے نتیجے میں حکومت نے سن ۱۹۱۳ میں ایک وقف ایکٹ نافذ کیا۔
آزادی کے بعد سن ۱۹۵۴ میں وقف ایکٹ منظور کیا گیا۔ اور اس میں سن ۱۹۹۵ میں ترمیم کی گئی، جس کے تحت اوقاف کے انتظام کے لیے وقف بورڈز قائم کیے گئے۔ وقف بورڈز کو اوقاف کی نگرانی اور ان کی آمدنی کو درست طریقے سے استعمال کرنے کی ذمہ داری دی گئی۔ حکومت نے ریاستوں میں وقف بورڈ قائم کیے تاکہ اوقاف کی دیکھ بھال کی جا سکے۔ لیکن اوقاف پر غیر قانونی قبضے آج بھی جاری ہے اس وقت ملک میں کل ۳۵ ریاستی سطح کے وقف بورڈز ہے۔ اس کے علاوہ ایک مرکزی وقف کونسل ہے، جو ملک بھر میں اوقاف کے تحفظ کے لیے ذمہ دار ایک خود مختار ادارہ ہے۔
۹/ لاکھ ایکڑ سے زائد زمینیں اوقاف کی ہیں، وزارت دفاع اور ریلوے کے بعد سب سے زیادہ زمینیں اوقاف کی ہے۔ سن ۱۹۴۷ کے بعد خاص طور پر پنجاب میں ایک عجیب صورتحال پیش آئی جہاں پاکستان ہجرت کرنے والے مسلمانوں نے بڑی تعداد میں مساجد وغیرہ چھوڑ دیا تھا اور ان پر سکھوں کا قبضہ ہو گیا تھا سن ۲۰۱۳ میں وقف ایکٹ میں ترمیم کی گئی اور اس کے بعد ایسی کئی عمارتیں مسلمانوں کو واپس کی گئی۔ اب مجوزہ وقف ترمیمی بل ۲۰۲۴ کے ذریعے مودی حکومت اسی راستے کو روکنا چاہتی۔ یہ بل موجودہ وقت ایکٹ سن ۱۹۹۵ جو سن ۲۰۱۳ کی ترامیم کے ساتھ موجود ہے۔ اس کے بنیادی ڈھانچے کو ختم کرنے کی کوشش ہے۔ اس بل میں تقریبا ۴۰ ترامیم کی گئی ہیں۔ جس کے تحت وقف بورڈز میں غیر مسلم اراکین کی شمولیت لازمی ہوگی، کلکٹر کے اختیارات زیادہ ہوں گے۔ اب کلکٹر یہ طے کرے گا کہ کوئی جائیداد وقف کا ہے یا سرکاری۔ نیز بورڈ کے اراکین کا انتخاب حکومت کے ذریعے کیا جائے گا۔
یہ تبدیلیاں اوقاف کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس بل کے خلاف متحد ہو کر آواز اٹھائیں اور حکومت سے مطالبہ کریں کہ اوقاف کا انتظام مسلمانوں کے ہاتھ میں ہونا چاہیے
ازقلم: محمد شاہد رضا
ساکن: اسلام پور، اتر دیناج پور، مغربی بنگال
متعلم: الجامعتہ الاشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑھ، یوپی
موبائل نمبر: 8274066811