اعلیٰ حضرت

امام احمد رضا اور فتاویٰ رضویہ: فکری و عملی پیغام

امام احمد رضا خان قادری قدس سرہٗ کا علمی مقام اور دینی خدمات اسلامی تاریخ کا ایک روشن باب ہے، جسے نہ صرف اہل سنت بلکہ کئی غیر جانبدار محققین اور علماء نے بھی تسلیم کیا ہے۔ آپ کی فقہی بصیرت، علمی گہرائی اور دینی احکام پر آپ کی نظر اتنی عمیق تھی کہ اپنے وقت کے بڑے سے بڑے علماء بھی آپ پر رشک کرتے۔

علمی مقام اور تحقیقی بصیرت:
امام احمد رضا خان کا علمی مقام محض رسمی تعلیم تک محدود نہیں تھا بلکہ آپ نے اسلامی علوم کی مختلف شاخوں میں گہری تحقیق کی۔ آپ نے اپنی زندگی میں متعدد علوم میں مہارت حاصل کی اور رسائل مرتب کیے۔ جن میں فقہ، تفسیر، حدیث، منطق، اور فلسفہ وغیرہ شامل ہیں۔ آپ کے علمی دلائل کی گہرائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نے جہاں کہیں دینِ اسلام کے اصولوں کے خلاف کوئی غلط نظریہ دیکھا (چاہے فقہی ہو یا کلامی) وہاں پوری علمی وضاحت اور ثبوت کے ساتھ اس کا رد و ابطال کیا۔ آپ کی کتابیں، بالخصوص فتاویٰ رضویہ، اسی بصیرت کی غمازی کرتی ہیں۔ جو اسلامی علوم و فقہ میں اپنی مثال آپ ہے۔ اس کتاب میں آپ نے سینکڑوں فقہی مسائل کو قرآن و حدیث اور ائمہ کرام کی آراء کے ذریعے حل کیا ہے۔ آپ کی یہ تصنیف نہ صرف فتاویٰ کا مجموعہ ہے بلکہ اسلامی عقائد کی حفاظت کے لیے ایک مضبوط دلیل بھی ہے۔

آج اگر کوئی اس پر یہ الزام عائد کرتا ہے کہ اس میں "غلط مسائل” ہیں تو یہ در اصل اس شخص کی علمی کمزوری اور جہالت کو اجاگر کرتی ہے۔ وہ یا تو دوسروں کی تحاریر سے متاثر ہیں یا اپنے تعصبات میں گم ہیں۔ ایسے ناقدین کو چاہیے کہ پہلے فتاویٰ رضویہ جیسے علمی شاہکار کا بغور مطالعہ کریں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ امام احمد رضا خان قادری قدس سرہٗ کا مقصد در اصل دینی عقائد کو خالص رکھنے کی سعی تھی۔

کفری عقائد پر فتاویٰ:
امام احمد رضا خان نے کبھی بھی کسی شخص پر ذاتی عناد یا تعصب کی بنیاد پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایا۔ آپ نے ہمیشہ اسلامی اصولوں کے تحت فیصلہ کیا اور صرف ان نظریات پر فتویٰ دیا جو واضح طور پر دین کے بنیادی عقائد سے متصادم تھے۔ مولوی نانتوی، تھانوی، گنگوہی اور امبیٹھوی جیسے افراد کے باطل نظریات پر آپ کے فتاویٰ کا مقصد عوام الناس کو ان نظریات سے آگاہ کرنا اور ان کی گمراہی سے محفوظ رکھنا تھا۔ آپ کے فتاویٰ محض اُن افراد کے خلاف نہیں بلکہ ان نظریات کے خلاف تھے جو مسلمانوں کے ایمان کے لیے نقصان دہ تھے۔

بد مذہب کتب اور ان کے اثرات:
آج کے دور میں انٹرنیٹ کی آسان رسائی نے مسلمانوں کے لیے ہر طرح کی تحریروں کو دستیاب کر دیا ہے، جن میں کئی ایسی کتابیں اور مواد بھی شامل ہیں جو بد عقیدہ کو فروغ دینے کا باعث ہیں۔ علماء کرام نے ہمیشہ ایسے مواد سے دور رہنے کی تلقین کی ہے، جو دین میں شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں۔ اسی لیے علماء فرماتے ہیں کہ بد مذہب کی کتب پڑھنا حرام ہے۔
پچھلے دنوں دو طلباء (جامعہ اشرفیہ مصباح العلوم مبارک پور سے تعلق رکھنے والے۔ اب اس کی خارجہ ہو چکی ہے) یہ اسی باطل تحاریر کا نتیجہ ہے۔

الحاصل: بد مذہب کی کتابوں اور گمراہ کن تحریروں سے گریز کرنا ہر صاحبِ ایمان پر واجب ہے کہ یہ افکار انسان کو راستے سے بھٹکا دیتے ہیں۔

از قلم:
محمد توصیف رضا قادری علیمی
مؤسس اعلیٰ حضرت مشن کٹیہار 
شائع کردہ: 13، نومبر، 2024ء

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے