تحریر: پٹیل عبد الرحمن مصباحی، گجرات (انڈیا)
ما سوا اللہ کو عالم کہتے ہیں، اور عالم کی ساخت انتہائی متوازن طریقے پر ہوئی ہے. یہ پوری کائنات تسخیر کے قاعدے کے مطابق چلتی ہے یا بالفاظ دیگر، معاونت کے اصول پر گامزن ہے. اگر کائنات کی اصل پر غور کیا جائے تو ہماری دنیا اشتراکات اور توافقات کی دنیا ہے، اختلافات اور تضادات کی نہیں. یعنی یہاں ہر ایک دوسرے سے الگ نظر آنے والی چیز کسی نہ کسی مرحلے میں ایک دوسرے کی معاون و ہمکار ہے. اس اعتبار سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہماری دنیا کی اصل توافق اور اشتراک ہے، ہاں! بسا اوقات مختلف قسم کے خارجی اسباب کی وجہ سے اس میں تضاد اور انتشار کے نمونے دکھائی دیتے ہیں. ویسے تو توافق کا یہ عمل کائنات کے ذرے ذرے سے عیاں ہے مگر ہم ذیل میں اپنی بات کی وضاحت اور قاری کی تقریبِ فہم کے لیے چند مثالیں پیش کر رہے ہیں.
خدا اور انسان: خدا نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا، کائنات کو اس کے لیے مسخر فرما کر اس کی نصرت کی. انسان عبادت کے ذریعے خالقِ حقیقی کا شکریہ ادا کرتا ہے اور تسخیر شدہ کائنات کو استعمال میں لا کر دنیا کی رونق میں اضافہ کرتا ہے، یوں خدا اور بندے کا تعلق محبت اور شکر گزاری کے موافق عمل پر مبنی ہے. اس تعلق میں ایک دوسرے پر برتری کے کسی متضاد خیال کا دخل نہیں.
پیغمبر اور امت: یہ بھی ایک تعاون اور موافقت بھرا رشتہ ہے، نبی اپنی امت پر شفقت فرمانے والا ہوتا ہے اور امت اس کی مطیع ہوا کرتی ہے، نبی امت کے لیے خدائی قانون کا نمائندہ اور امت اس قانون کے ذریعے اپنی زندگی کو کامیاب بنانے والی ہوتی ہے. اس طرح دونوں ایک دوسرے کے معاون ہیں نہ کہ مقابل.
دن اور رات: دن کا اجالہ معاش و معیشت کے اسباب پیدا کرتا ہے اور رات کی تاریکی دن بھر کی تھکان دور کرنے کا پرلطف ماحول بناتی ہے، یوں دونوں ایک دوسرے کے معاون ہیں نہ کہ مقابل، اور ایک کے بعد دوسرے کا آنا توافق کا عمل ہے نہ کہ تضاد کا رد عمل.
مرد اور عورت: مرد عورت کے لیے تحفظ اور عورت مرد کے لیے تسکین کا سبب ہے. مرد عورت کی غیرت ہے اور عورت مرد کی حیا. اس طور پر دونوں ایک دوسرے کے معاون ہیں نہ کہ مقابل. مرد معاشی ذمہ داریوں کا اٹھانے والا اور عورت نئی نسل کی پرورش کے ذریعے گھریلو زندگی کو سنوارنے والی ہوتی ہے، یوں خاندانی نظام دونوں کے توافق سے چلتا ہے، تضاد سے نہیں.
حاکم اور رعایا: ایک طرف حاکم رعایا کے لیے انصاف کرنے والا اور حسب ضرورت سہولتیں فراہم کرنے والا ہوتا ہے، تو دوسری جانب رعایا اس کے اعلی کردار کی وجہ سے اس کے فیصلوں کو قبول کر کے اچھا معاشرہ بنانے میں اس کی مددگار ہوتی ہے. لہٰذا حاکم و رعایا ایک اچھے معاشرے کے دو بنیادی ستون ہیں، اگر ان میں دوری پیدا کر دی جائے یا ایک کو گرا دیا جائے تو اچھے سماج کی عمارت کا تعمیر ہونا ممکن نہیں.
سرمایہ دار اور مزدور: مزدور محنت و مشقت کا بار اپنے کاندھے پر اٹھا کر سرمایہ دار کو کام کی تکلیف سے نجات دلاتا ہے، اور سرمایہ دار اپنے خزانے کا منہ کھول کر مزدور کو خوشحال زندگی میں شراکت کا موقع دیتا ہے، لہٰذا ایک اچھا بازار ان دونوں کی موافقت ہی سے وجود میں آ سکتا ہے، ان دونوں کے درمیان تضاد معیشت کی ہلاکت کا پیش خیمہ ہوتا ہے.
دین اور سیاست: دین بندوں کی اخلاقی و روحانی تربیت کے لیے ہوتا ہے تاکہ امانت دار سیاست دان پیدا ہو سکیں اور سیاست دین کے نفاذ کے لیے کی جاتی ہے تاکہ معاشرے میں الوہی قانون کی بالادستی ہو. ان دونوں کے درمیان کسی قسم کا تضاد نہیں. دین اور سیاست اپنی اپنی سطح پر ایک دوسرے کے معاون ہیں مخالف نہیں.
جسم اور روح: جسم خارجی آرائش کا تقاضا کرتا ہے اور روح داخلی سکون کی متلاشی ہوتی ہے، انسان اپنے وجود کی گہرائیوں اور لذتوں سے اسی وقت ہمکنار ہو سکتا ہے جب جسم اور روح کے مشترکہ مطلوب تک رسائی حاصل کر لے، مادّیت کی طرفداری میں روح کو فراموش کر دینا یا روح کی خلوت میں جسم کی جلوتوں سے کنارہ کش ہو جانا انسانی وجود کے پریشاں ہونے کا سبب بنتا ہے، اس طرح جسم و روح کا اتفاق و اشتراک انسانی حیات کا اصل سبب ہے۔
مذکورہ مثالوں نے یہ واضح کر دیا کہ ہماری کائنات اشتراکات اور توافقات سے رواں دواں ہے، تضاد اور مخالفت سے نہیں؛ مگر روشن خیالی کے دور میں اشتراکات و توافقات کی دنیا کا یہ ڈھانچہ توڑ کر اختلافات و تضادات کی نئی دنیا بسانے کا کام شروع ہوا، روشن خیالی کے نتیجے میں برپا ہونے والی جدیدیت نے تضاد کے اِس کاروبار کو پروان چڑھایا اور اب ما بعد جدید دور کا انسان اپنے سامنے نظر آنے والی دنیا میں ہر طرف تضاد ہی تضاد پاتا ہے. پچھلے ڈھائی سو سال میں رونما ہونے والے صنعت، سیاست اور معیشت کے انقلابات نے نہ صرف یہ کہ انسان کو اس کے لیے مسخر کی گئی کائنات اور اس کے خالق سے دور کر دیا، بلکہ انسانی دنیا کے گوشے گوشے میں طرح طرح کے اختلاف اور تضاد بھی پھیلا دیے.
سائنس برائے سائنس کے تصور نے انسان کو خدا کے خلاف کھڑا کر دیا، الحاد کے فروغ نے پیغمبر اور امتی کے رشتے کو خود مختاری اور غلامی کے درمیان الجھا کر رکھ دیا، نیچریت نے طبیعی اور غیر طبیعی کے تضاد کو جنم دے کر معجزات کو توہمات کے کھاتے میں ڈالنے کی نادانی کی، فیمینزم(Feminism) نے عورت اور مرد کے پیار بھرے خوشگوار تعلقات کو طاقت اور کمزوری کے اختلاف کی نذر کر دیا، جمہوریت نے حاکم و رعایا کو ایک دوسرے کی ضد ٹھہرا کر حاکمیت کو رخصت کر دیا اور اب دنیا کی ساری حکومتیں صرف ایک پیر پر کھڑی ہیں جس کا نام ہے عوام، کارل مارکس کے کمیونزم نے مظلوم مزدور کی مدد کرنے کی بجائے سرمایہ دار اور مزدور کے بیچ کبھی نہ پَٹنے والی کھائی کھود کر رکھ دی، ٹیکنالوجی نے مادّیت اور میکنزم کی وہ صنعت شروع کی کہ انسانی روح بھی اپنی ساری لطافتیں چھوڑ کر مادّہ پرست بن گئی. مغربی نسل پرستی اور الحاد پسندی سے پیدا ہونے والی جمہوریت نے دین کو سیاست کدے سے ہاتھ پکڑ کر نکال دیا جس کے نتیجے میں جدید چنگیزی کا ظہور ہوا.
اس طرح خدا کی بنائی ہوئی باہم مددگار و معاون دنیا کو چند انسانوں کی دماغی خرافات نے ہمیشہ کے لیے باہم دست و گریباں کر دیا. مشرق کی مذہبی اقدار بالخصوص اسلامی تعلیمات اس بات پر زور دیتی ہیں کہ کائنات کے تمام پَہِیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کر دنیا کو آئندہ نسل کے لیے مزید حُسن و خوبصورتی اور امن و سکون کا گہوارہ بنایا جائے، جب کہ مغربی تاجرانہ روایات کائنات کے ہر جز میں پھوٹ ڈال کر ذرے ذرے سے دولت نچوڑنے ہی کو اول و آخر مقصد قرار دیتی ہیں. بالفاظ دیگر مغرب تخریب کا داعی ہے اور اسلام تعمیر کا. قلندر لاہوری کہتا ہے
حقیقت ایک ہے ہر شے کی، خاکی ہو کہ نُوری ہو،
لہُو خورشید کا ٹپکے اگر ذرّے کا دل چِیریں.
﴿وَ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ﴾
(الذاریات، آیت نمبر: 49)
﴿مَا تَرٰى فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍؕ﴾
(الملک، آیت نمبر: 3-4)