یہ فِقرہ کئی سالوں سے گوش گذار ہوتا رہا مگر فہم و فراست سے بالا تر رہتا تھا بعدہ جیسے جیسے عمر بڑھتی گئی اور شعور و آگہی کی دولت آنے لگی پھر گونا گوں تفکر و تخیل میں ذہن مبتلاء رہنے لگا کبھی پیچیدہ مسئلوں سے لڑتا کبھی الجھی ہوئی طبیعت کی کیفیت کا معالج بن جاتا تو کبھی گرنے والے آنسوؤں کے وجوہات میں کھو جاتا تو کبھی بے چینی کے احوال و کوائف پر تبصرہ کرتا.
مگر اسی اَثناء میں ایک بہت ہی قریبی شئی جس کو شرارت سوجھی اور اپنی حد پار کرنے کا عزم مصمم کرلی جب کھلکھلاتے چہروں کی ہنسی دیکھی تو اس سے دیکھی نہ گئی اور آہستہ آہستہ طلق الوجہ چہروں کی وجہ سے جلنے لگی اور اِس فرحت و انبساط میں ڈوبی ہوئی زندگی پر خزاں کے بادل بن کر ڈھانپ لی اور زمیں بوس کرنے کے لیے روز و شب ناکام کوششوں میں منہمک ہوگئی اور طرح طرح کی نامکمل منصوبہ بندیوں میں اپنا وقت صرف کرنے لگی.
مگر قارئین کرام یہ آخر کون سی بلا ہے جو اس قدر جلن و نفرت میں چور ہوکر ہمہ وقت تنزلی کے راستے دکھا رہی ہے کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ یہ بہت ہی قریبی شئی ہے مدت دیرینہ کے بعد معلوم ہوا کہ یا اللہ یہ تو وہی ہے جس نے ابلیس کی گردن میں لعنت کا طوق ڈلوایا تھا ، یہ تو وہی ہے جس نے قابیل کو اس بات پر ابھارا تھا کہ وہ ہابیل کا ناحق خون بہائے ، یہ تو وہی ہے جس نے ثعلبہ بن ابی حاطب کو منکر زکوٰۃ بنا کر بارگاہِ رسالت مآب ﷺ سے مردود ہونے میں شانہ بشانہ کھڑی رہی ، یہ تو وہی ہے جس نے بنی اسرائیل کی اکثریت کو فرعونی غلامی کے اثرات سے باہر نہیں نکلنے دی بہتوں کو اس نے راہ حق و صداقت سے منحرف ہونے میں معاونت کی.
المختصر وہ کوئی اور نہیں بلکہ خود کے وجود میں چھپی ہوئی زہر ہلاہل کے مانند ” نفس امارہ ہے ” جس نے راہِ حق سے راہ باطل کی جانب پہنچانے کی خاطر کمر کس لی ہے تو آپ اس کے شرور و فتن سے بچنے کے واسطے رب کریم عز وجل کی بارگاہ میں دعا کریں اللہ تعالیٰ اس کے شرور و فتن سے حفاظت فرمائے. (آمین)
نفس کی تھوڑی وضاحت ملاحظہ فرمائیں
”نفس “لغوی اعتبار سے، روح، جان، خون، کسی چیز کی ذات، خواہش ،ارادہ، وغیرہ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے۔”(قاموس الوحید)
اور اصطلاح میں نفس: ایسا لطیف جوہر ہے جو زندگی ، احساس اور ارادۃ حرکت کرنے کی طاقت و قوت رکھتا ہو۔ حکما اسے روح حیوانی کہتے ہیں. (التعریفات للجرجانی ، صفحہ ۲۴۲، مطبوعہ : بیروت )
اصطلاح صوفیاء میں انسان کے اندر( شہوت، غصہ وغیرہ) مذموم صفات جمع کرنے والی قوت کو نفس کہتے ہیں.
(احیاء العلوم مترجم ، جلد ۳ صفحہ ۱۵)
نفس کی بہت اقسام ہیں ،جن میں سے تین اقسام مشہور ہیں : (۱)نفس امارہ (۲)نفس لوامہ (۳)نفس مطمئنہ.
نفس مختلف حالات میں مختلف صفات کے ساتھ متصف ہوتا ہے چنانچہ جب وہ اطاعت کے تحت ٹھہر جائے اور شہوت سے جنگ کرتے کرتے اس کا اضطراب زائل ہو جاوے تو اسے نفس مطمئنہ کہتے ہیں. اللہ تعالیٰ نے نفس مطمئنہ کو ان الفاظ سے خطاب کیا ہے کہ ” يا أيها النفس المطمئنة. ارجعى إلى ربك راضية مرضية . ائے اطمینان والی جان۔ اپنے رب کی طرف واپس ہو یوں کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔ (الفجر : ۲۷،۲۸)
ایک نفس وہ ہے جو کمال اطاعت کی صفت سے محروم ہو لیکن اطاعت میں عجز اور قصور پر اپنے آپ کو لعنت و ملامت بھی کرتا ہو اسے نفس لوامہ کہتے ہیں. اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ” ولا أقسم بالنفس اللوامة يعنى اور اس جان کی قسم جو اپنے اوپر بہت ملامت کرے. (القیامة : ٢)
ایک نفس وہ ہے جو خواہشات نفس کے بہاؤ کو نہ روک سکے اور خود کو اسی کے سپرد کردے یہ نفس امارہ بالسوء کہلاتا ہے قرآن پاک میں اس نفس کا ذکر حضرت یوسف علیہ السلام یا عزیز مصر کے واقعے میں آیا ہے ” و ما أبرى نفسی . ان النفس لامارة بالسوء الا ما رحم ربی . ان ربی غفور رحیم يعنى اور میں اپنے نفس کو بے قصور نہیں بتاتا بیشک نفس تو برائی کا بڑا حکم دینے والا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے بیشک میرا رب بخشنے والا مہربان ہے. (يوسف : ٥٣)
(احیاء العلوم مترجم ، ج ۳ ص ۱۷)
اس بات سے کبھی چشم پوشی نہیں کی جاسکتی ہے کہ ہر دور میں جو کوئی بھی اپنی انانیت و نخوت فروشی کا مظاہرہ کیا ہے وہ ہلاک و برباد ہوکر رہ گیا ہے ہمارے سامنے جیتی جاگتی مثال موجود ہے کیا آپ نے تاریخ میں نہیں دیکھا کہ یمن اور حبشہ کا بادشاہ ابرہہ نے جب دیکھا کہ دنیا بھر کے حجاج کرام مکہ معظمہ حج کے واسطے رخت سفر باندھ رہے ہیں تو اس نے ایک کنیسہ (عبادت خانہ) بنوایا تاکہ حجاج کرام مکہ معظمہ نہ جاکر یہاں آئیں اور اسی کنیسہ کا طواف کریں عرب والے اس معاملہ کو دیکھ کر غیض وغضب میں چور ہوگئے قبیلۂ بنی کنانہ میں سے ایک شخص نے اس کنیسہ میں قضائے حاجت کردی.
جب ابرہہ کو اس کا علم ہوا تو طیش میں آکر حلف اٹھایا کہ وہ مکہ معظمہ کو منہدم کردے گا اسی عزم مصمم کے ساتھ اپنے لشکر کو مرتب کیا جس میں بہت سے ہاتھی بھی تھے ان کا پیش رو چٹان کے مانند محمود نامی ہاتھی تھا ابرہہ مکہ معظمہ کے قریب پہنچ کر اہل مکہ کے جانوروں کو قید کرلیا جن میں دو سو اونٹ حضرت عبدالمطلب کے بھی تھے بعد واقفیت ابرہہ کے پاس گئے تو ابرہہ نے تعظیم و توقیر کے ساتھ اپنے بغل میں بٹھایا اور آنے کی وجہ دریافت کی آپ نے اپنے اونٹوں کا مطالبہ کیا یہ سن کر ابرہہ کو تعجب ہوا کہا میں مکہ معظمہ کو منہدم کرنے آیا ہوں آپ اس کا دفع کرنے کے بجائے اپنے اونٹوں کا مطالبہ کرتے ہیں ارشاد ہوا میں اپنے اونٹوں کا ہی مالک ہوں ان کی حفاظت میرے ذمہ ہے کعبہ شریف کا جو مالک ہے اس کی حفاظت وہ خوب کرے گا چنانچہ اپنے اونٹوں کو لیکر واپس ہوگئے قریش کو ان سارے معاملات سے باخبر کیے بعدہ پہاڑوں میں پناہ گزین ہونے کا مشورہ دیے اور اسی پر عمل ہوا سارے قریش پہاڑوں کی چوٹیوں پر چلے گئے. آپ نے جاتے وقت کعبہ شریف کے دروازے پر دعا کی یا اللہ اپنے گھر کی ظالم ابرہہ سے حفاظت فرما.
لہٰذا جب صبح سویرے ابرہہ نے حملہ کرنے کا حکم دیا محمود نامی ہاتھی ہر طرح چلتا تھا مگر خانۂ کعبہ کی سمت نہیں چلتا اسی اثنا میں اللہ عز وجل نے پرندوں کی فوجیں بھیجی جن کے پاس تین تین کنکریاں تھیں جس پر وہ سنگریزے مارتے اس کے سر سے چیرتے ہوئے زمین پر گرتے اور ہر سنگریزے پر اس کا نام تھا جس پر پڑتے تھے اس طور پر رب نے ابرہہ کی خود مختاری سوچ کو زمیں بوس کردیا اور اپنے گھر کی حفاظت فرمائی.
ابرہہ اپنی انانیت و خود مختاری میں مستغرق تھا چشمِ زدن میں اس کی پر بستگی عیاں ہوگئی خود پر بڑا اعتماد تھا کہ وہ کعبۃ اللہ کو مسمار کردے گا مگر رب تعالیٰ نے ایسی شکت فاحش دی کہ نشانِ عبرت کے طور پر تاریخ کے اوراق میں رقم ہوگیا۔
ایسے بہت سے واقعات تاریخ میں مندرج ہیں جو اس بات میں مزید وثوق پیدا کرتے ہیں کہ نفس امارہ کے دلدادہ اپنے وجود کو اپنے پیروں تلے روند دیے اور اس فانی دنیا میں صرف نشان عبرت بنے
نمرود نامی بادشاہ کی تاریخ اہل علم سے ڈھکی چھپی نہیں ہے یہ ظالم اللہ جل شانہ کے احکامات کو پس پشت ڈال کر اپنے احکامات نافذ کرنے کی مذموم عزائم میں منہمک ہوگیا لوگوں سے خود کو خدا منوا کر اپنا سجدہ کرواتا بالاخر جب رب لم یزل عز وجل نے گرفت فرمائی اور ایک چھوٹی سی مخلوق مچھر کو ظالم نمرود پر مسلط فرمایا تو وہ مچھر ناک کے راستے دماغ میں گھس گیا اور مغز کھانا شروع کردیا درد کی شدّت بہت سخت تھی جس کے دفع کی خاطر اسی کی حکم سے اس کے سر پر ہتھوڑے اور مکے مارے جاتے تھے تو بمشیت خداوندی مچھر کاٹنا بند کردیتا چار سو سال تک اس کے دماغ میں رہا گویا کہ ہتھوڑے مارتے مارتے نار دوزخ واصل کردیا گیا اور اس کا دعوئ خدائی کی زنجیریں ٹوٹ کر پاش پاش ہوگئیں ( ماخوذ از تفسیر خازن ج/١ ص/ ۶۴۷)
ان اقوال و واقعات سے یہ بات اظہر من الشمس ہوگیا کہ جو کوئی بھی اپنی انانیت و نخوت فروشی میں مبتلاء ہوا بحرِ ہلاکت میں غرق ہوگیا اور آئیندہ بھی جو کوئی مبتلا ہوگا اس کا زوال یقینی ہے۔
اللہ تعالیٰ جملہ مسلمانان عالم اسلام کو انانیت و نخوت فروشی سے پاک و صاف رکھے اور حق و صداقت کے راستے ہموار فرمائے آمین ثــــــــــــم آمین یا ربّ العالمین و بجاہ سید المرسلین ﷺ
راقم الحروف: محمد ارشد رضا امجدی فیضی
ممبر آف علماء کونسل نیپال ضلع نول پراسی نیپال