آپ نے سنا ہوگا کہ پنج لوگ سنبھل کے معاملے میں گولیوں سے مارے گئے، اب ہزاروں بحثیں ہو رہی ہیں کہ کس نے مارا اور کیسے مارا، اللہ بہتر جانتا ہے، کسی نے کس طرح مارا، لیکن وہ پانچ لوگ سب جوان تھے، اپنے اپنے گھروں کے ماں باپ کے لال تھے۔ جس حکومت کے پاس ان کی حالت دیکھنے کے لئے مختلف آنکھیں ہوں، مختلف معیار ہوں، وہ حکومت کرنے کے لائق نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس کی نظر اُوپر نیچے ہے، اس کی نظر چھوٹی بڑی ہے، چھوٹی بڑی آنکھ سے دیکھنے والا یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ اپنے دیکھنے کو جواز دے سکے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ بہرائچ میں ایک نوجوان مارا گیا، تو وزیراعلیٰ وہاں گئے، وزیر اعلیٰ وہاں گئے اور جا کر اس کے خاندان والوں سے ملے، اپنی ہمدردی کا اظہار کیا، ان کو مالی مدد دی، اور یہ احساس دلایا کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں، ہم اس دکھ کی گھڑی میں آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے، آپ نے اچھا کیا۔ لیکن یہ اچھا تب ہوتا جب آپ سمبھل بھی پہنچ گئے ہوتے اور ان پانچ لوگوں کے اہل خانہ سے ملے ہوتے۔ یہ بے کس، بے گناہ، یہ جوان، اس سے کوئی چھوٹا تاجر، کوئی معمولی آدمی، جو روزانہ اپنی دکان پر بیٹھا، یا سامان لینے گیا تھا، وہ مارا گیا۔ کیا وہ ہندوستان کا بیٹا نہیں ہے؟ کیا وہ اس ملک کا سنہری نوجوان نہیں ہے کہ اس کے بارے میں بھی وزیراعلیٰ سوچیں، وزیر اعلیٰ سوچیں اور ان کے ماں باپ سے مل کر کہیں کہ ہم بھی ان کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں۔ اگر میرا انتظامیہ فعال ہوتا تو ایک بھی آدمی نہ مرتا، اور نہ ہی یہ پانچ پانچ لوگ مارے جاتے۔ ہم ان کو واپس تو نہیں لا سکتے، لیکن جو مالی امداد ہم نے بہرائچ میں دی ہے، اتنی ان کو بھی دیں، تب بات سمجھ میں آتی کہ حکومت ایک نظر سے دیکھتی ہے۔ مگر یہاں تو معاملہ ہی مختلف ہے، الگ انداز سے سوچا جا رہا ہے اور الگ انداز سے کام کیا جا رہا ہے۔ڈاکٹر صاحب اس بات پر زور دیتے ہیں کہ سنبھل معاملات میں انصاف کا قیام اور حکومت کی ذمہ داریوں کو درست طریقے سے ادا کرنا نہایت ضروری ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے حکومت پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انصاف کے اصولوں کو مضبوط کرنے کی اہمیت پر گفتگو کی، تاکہ ایک ایسا معاشرہ قائم ہو جہاں ہر فرد کو برابری اور انصاف ملے۔ ان کی تقریر نے ہمیں اس بات کا شعور دیا کہ حکومت کا اصل مقصد عوام کی فلاح و بہبود اور عدلیہ کا کردار سماجی انصاف کے قیام میں اہمیت رکھتا ہے۔”
ازقلم: نورعین سلیمانی
سکونت افسانہ روڈ بہادر گنج