اردو کے جدید نثری اصناف میں ناول ایک ترقی یافتہ صنف ہے جو اطالوی زبان کے لفظ ناولا (Novella) سے ماخوذ ہے۔ لغوی اعتبار سے ناول کے معانی نادر اور نئی بات کے ہیں۔ لیکن صنفِ ادب میں اس کی جامع اور مانع تعریف کچھ یوں ہوگی کہ “ناول اس نثری قصے کو کہتے ہیں جس میں کسی خاص نقطہ نظر کے تحت زندگی کی حقیقی وواقعی عکاسی کی گئی ہو یعنی جس میں پوری ایک زندگی بیان کی جاتی ہے”۔ ناول کے عناصر ِ ترکیبی میں کہانی، پلاٹ، کردارنگاری، مکالمے ،پس منظر،زماں و مکاں، اسلوب ،نقطہ نظر اور موضوع وغیرہ شامل ہیں۔معاشرتی ناول،واقعاتی ناول،کرداری ناول،نظریاتی ناول،تاریخی ناول،جاسوسی ناول، رومانی ناول،نفسیاتی ناول،ناول کے اقسام میں شمار کئے جاتےہیں۔ ناول سے پہلے اردو میں داستان اور قصے کہانیاں موجود تھیں سب سے پہلے مولوی نذیر احمد نے ناول لکھے ان کے ناول مراۃالعروس کو اردو کا پہلا ناول تسلیم کیا جاتا ہےجو 1869ء میں شائع ہوئی، بعض ناقدین نے 1862ءمیں لکھی ہوئی مولوی کریم الدین کی تصنیف’’ خط تقدیر‘‘ کو اردو کا پہلا ناول ماناہے لیکن خط تقدیر کی بعض فنی خامیوں نے مولوی نذیر احمد کے مراۃ العروس کو اولیت کا درجہ عطا کردیا ہے ۔اس کے علاوہ نذیر احمد نے چھ ناول لکھے جن میں بنات النعش، توبۃ النصوح،فسانہ مبتلا، ابن الوقت،ایامیٰ،اور رویائے صادقہ وغیرہ شامل ہیں نذیر احمد کے تقریباً تمام ہی ناول اصلاح معاشرہ اور اخلاق و تربیت کے مختلف پہلوؤں کواجاگرکرتاہے۔ پھر چاہے خواتیں کی تربیت کا معاملہ ہو یا مردوں کی اخلاقیات کا یا اولاد کی تربیت اور معاشرے میں رائج فرسودہ رسم و رواج کی اصلاح ہو۔ دراصل نذیر احمد نے اپنے ناولوں کے ذریعے انیسویں صدی کے اواخر کے مسلم سماج اور بالخصوص متوسط طبقے کی حقیقی تصویر کشی کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ نذیر احمد کے بعد اردو ناول نگاری کے میدان میں جن تخلیق کاروں نے قدم رکھا، انہوں نے بھی اردو ناول کو اپنے عہد کے تقاضوں سے پیوست کیا۔ ان ناولوں نگاروں میں پنڈت رتن ناتھ سرشار ، عبد الحلیم شرر اور مرزا محمد ہادی رسوا قابل ذکر ہیں۔پنڈت رتن ناتھ سرشار نے اردو ادب کو 9 ناول دیے لیکن ان کے تین ناولوں ”فسانہ آزاد، جام سرشار اور سیر کہسار کو خاصہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان تین ناولوں میں بھی سرشار کا جو سب سے اہم کارنامہ ہے وہ فسانہ آزاد“ (1880) ہے۔ سرشار کا یہ ناول اپنے منفرد اسلوب اور زبان و بیان کی وجہ سے خاصہ مقبول ہوا اور آج بھی اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ سرشار نے اس ناول میں خاص طور پر کردار نگاری، منظر نگاری اور جزیات نگاری میں کمالِ فن کا مظاہر کیا ہے اور مجموعی طور پر ان کے ناولوں میں اودھ اور خاص طور پر لکھنوی تہذیب و تمدن کی عکاسی ملتی ہے۔سرشار کے بعد ناول کے سفر کو مزید آگے بڑھانے میں ایک اہم نام عبد الحلیم شرر کا آتا ہے۔ سرشار نے جس طریقے سے اپنے عہد کے مزاج ، عادات واطوار کو شگفتہ بیانی کے ذریعے ناول کے پیرائے میں بیان کیا ، اس کے برخلاف عبد الحلیم شرر نے تاریخی واقعات کو اپنے ناولوں میں برتا۔ شرر چوں کہ فن کو مقصد کے تابع استعمال کرنا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے تاریخی واقعات کو بنیاد بنا کر ، اسلاف کے کارنامے یاد دلا کر عوام میں ایک نئی قوتِ عمل پیدا کرناچاہتے تھے۔ اس لیے ان کے تقریباً تمام ناول تاریخی واقعات پر مبنی ہیں۔ شرر نے تقریباً 24 تاریخی ناول لکھے۔ان میں فردوس بریں، فتح اندلس، ایام عرب، حسن انجلینا اور رومتہ الکبری خصوصیت کے ساتھ گنےجاتے ہیں۔ شرر کے ان ناولوں میں فردوس بریں“ کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی ۔ فردوس بریں پہلی بار 1899 میں شائع ہوا۔ 1899 ہی میں مرزا محمد ہادی رسوا نے امراؤ جان ادا“ لکھ کر اردو ناول کو ایک نئی سمت عطا کیا۔ مذکورہ ناول اپنے متقاضیات سے مملو ہیں اور انفرادیت کے حامل ہےاسکے علاوہ مرزا رسوا نے شریف زادہ، ذات شریف، آخری بیگم اور افشائے راز جیسے معاشرتی ناول لکھے۔سرشار ، شرر اور رسوا کے علاوہ بھی اُس عہد میں بعض ایسے تخلیق کارگزرے جنہوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا جو ہر ناول نگاری کے میدان میں دکھایا لیکن انہیں وہ شہرت و مقبولیت نہ ملی جوان تینوں کے حصے آئی۔ ان تخلیق کاروں میں محمد علی طیب ،نواب افضل الدین ،سجاد حسین انجم کے علاوہ الطاف حسین حالی ،اور شاد عظیم آبادی ہیں۔الطاف حسین حالی نے مجالس النساءکے نام سے دوحصوں پر محیط ایک طویل قصہ لکھا جو ناول کے پیرائے میں ہے۔ یہ ناول خالص اصلاحی ناول ہے جو تعلیم نسواں پر زور دیتا ہے۔ اسی طرح شاد عظیم آبادی نے بھی 1876 میں ایک ناول صورت الخیال“ کے نام سے لکھا۔ صورت الخیال کا موضوع بھی اصلاح معاشرہ ہے۔ گویا قصے کو بیان کرنے کا جو نیا طر ز انداز نذیر احمد کے یہاں سے شروع ہوتا ہے۔ وہ سرشار، شرر اور رسوا کے ہاتھوں مزید تقویت پایاہے۔ ان تینوں ناول نگاروں نے کثرت سے ناول لکھے جس کی تقلید میں متعدد نئے تخلیق کار سامنے آئے۔ حالاں کہ ان نئے لکھنے والوں کے یہاں فنی خوبیوں کا فقدان ہے۔ لیکن بہر حال ان تمام تخلیق کاروں نے اردو ناول کو فروغ دینے میں اپنا تعاون ادا کیا۔اسی کڑی میں سجاد حسین انجم منشی سجاد حسین اور قاری سرفراز حسین کا بھی نام آتا ہے۔ سجاد حسین انجم نے نشتر کے نام سے ایک ناول لکھا جو 1893 میں شائع ہوا۔ وہیں منشی سجاد حسین نے ”حاجی بغلول، احمق الدین، کایا پلٹ اور میٹھی چھری کے نام سے چار ناول لکھے۔ ان میں حاجی بغلول اور احمق الذین کو کافی پسند کیا گیا۔ اردو ناول نگاری کی روایت میں منشی سجاد حسین کو مزاحیہ ناول کے بانی کے طور پربھی دیکھا جاتا ہےاس طرح سجاد حسین نے ناولوں میں مزاحیہ رنگ کا اضافہ کیا۔یوں ہی قاری سرفراز حسین نے بھی اردو ادب کو سعید، سعادت ، شاہد رعنا، بہار عیش، خمار عیش، سراب عیش ، اور سزائے عیش جیسے متعدد ناول دیے۔ ان میں ” شاہد رعنا کے حصے جو مقبولیت آئی وہ کسی اور ناول کو حاصل نہیں ہوئی۔ ” شاہد رعنا کی مقبولیت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اسے مرزا رسوا کے ناول ” امراؤ جان ادا کا پیش خیمہ کہا جاتا ہے۔ کیوں کہ شاہد رعنا بھی ایک طوائف کی خود نوشت کے پیرائے میں لکھا گیا ہے۔ یہ ناول ” امراؤ جان ادا سے دو سال قبل یعنی 1897 میں شائع ہوا تھا۔ جب کہ امراؤ جان ادا 1899 میں شائع ہوا۔ اسی زمانے میں علامہ راشد الخیری نے بھی ناول نگاری کی شروعات کی۔ ان کا پہلا ناول 1897-1896 میں ”صالحات کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس کے بعد تواتر سے ان کے متعدد ناول شائع ہوتے ہیں۔ راشدالخیری نے اپنے ناولوں سے سماجی اصلاح کی کوشش کی سمرنا کا چاند، شامِ زندگی، صبحِ زندگی وغیرہ ان کے مشہور ناول ہیں۔گویا اس طرح اردو ناول کا سفر انیسویں صدی کی ساتویں دہائی سے شروع ہو کر مرزا ہادی رسوا کے امراؤ جان ادا اور راشد الخیری کے صالحات کے ساتھ اپنا ارتقائی سفر طے کرتا ہے۔
بیسویں صدی کی ابتدا بھی راشد الخیری کے یکے بعد دیگرے شائع ہونے والے ناولوں ” منازل السائرہ 1902)، صبح زندگی (1909)، شام زندگی (1917) ، شب زندگی (1919) ، نوحہ زندگی (1927) وغیرہ( سے ہوتی ہے۔ بیسویں صدی کے ابتدائی عشرے میں جو دیگر اہم ناول نگار سامنے آتے ہیں ان میں آغا شاعر ، مرزا سعید، نیاز فتح پوری، کشن پر شاد کول ، سجاد مرزا بیگ دہلوی اور ہمایوں مرز اوغیرہ ہیں۔ لیکن اُس عہد میں جس نے اپنے ناولوں کے ذریعے شناخت قائم کی وہ منشی پریم چند تھے۔ پریم چند کا پہلا ناول اسرار معابد 1905 میں شائع ہوا۔ پریم چند نے اردو ناول کا رشتہ عام ہندوستانی شہریوں سے جوڑنے کا کام کیا۔ ان کے ناول خاص طور پر ہندوستان کی دیہی زندگی کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں۔ ان کے ناولوں میں کسانوں، مزدوروں اور معاشرے کے ستائے گئے لوگوں کا دکھ درد اور زمین داروں اور ساہوکاروں کے ظلم و ستم نظر آتے ہیں۔ نیز پریم چند کے ناولوں میں اس وقت کا سماج ، طبقاتی کشمکش اور معاشرتی ماحول کی جیتی جاگتی تصویر دیکھنے کو ملتی ہے۔ گویا اس طرح پریم چند نے اردو ناول کو حقیقی دنیا اور عام انسانوں سے متعارف کروانے میں اہم رول ادا کیا۔ پریم چند نے تقریبا ایک درجن سے زائد ناول لکھے جن میں اسرار معابد کے علاوہ جلوہ ایثار (1912) ، بیوہ (1912) ، بازار حسین (1921) ، گوشئہ عافیت (1928)، نرملا (1929) غبن(1928)، میدان عمل (1936)، گؤ دان (1936) ، اور منگل سوتر (1936) قابل ذکر ہیں۔
پریم چند کے بعد اور ترقی پسند تحریک سے قبل مزید جو تخلیق کا رسامنے آئے ان میں عظیم بیگ چغتائی ، مجنوں گورکھپوری ، ظفر عمر ، نذر سجاد ، صغریٰ ہمایوں مرزا و غیرہ شامل ہیں۔ترقی پسند تحریک کی ابتدا کے ساتھ اردو ناول نگاری میں جو ایک ممتاز نام نظر آتا ہے وہ سجاد ظہیر کا ہے۔ سجاد ظہیر نے صرف ایک ناول لندن کی رات لکھا جو 1936 میں منظر عام پر آیا۔ اس ناول کے بعد اردو ناول میں جو نیا اضافہ ہوا، ان میں عزیز احمد کا۔ گریز ، جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں، کرشن چندر کا، شکست، ایک گدھے کی سرگزشت ، گدھے کی واپسی اور عصمت چغتائی کا ،ضدی، ٹیڑھی لکیر اہم ہیں۔ پھر ترقی پسند کا ایک دور ۱۹۴۷ کے بعد شروع ہوتاہے اس عہد میں نئے ناول نگاروں کی ایک طویل فہرست ہے۔ اس کا بنیادی سبب ایک تو یہ کہ ترقی پسند تحریک نے اپنی اشاعت کے لیے نثر میں فکشن کو اور شاعری میں نظم کو ترجیح دی تھی۔ اس لیے ترقی پسندی کی ابتدا کے ساتھ ہی ایک درجن سے زائد ناول نگار سامنے آگئے ۔ 1947 کے واقعات نے اس میں مزید اضافہ کیا اور ادبا کے ایک بڑے گروہ نے اپنے جذبات و احساس کی ترجمانی کے لیے فکشن ہی کی طرف رجوع کیا۔ گویا اس طرح اردو ادب میں فکشن اور خاص طور پر ناول نگاری کی روایت مزید مستحکم ہوتی ہے۔ اس عہد میں وہ تخلیق کا ربھی نظر آتے ہیں جو 1947 سے قبل ناول نگاری کی آبیاری کر رہے تھے۔ ان میں عزیز احمد، کرشن چندر ، اور عصمت چغتائی کے علاوہ احسن فاروقی ، قراۃ العین حیدر ، شوکت صدیقی ، راجند سنگھ بیدی ، عبد اللہ حسین ، خدیجہ مستور، حیات اللہ انصاری ، جمیلہ ہاشمی، ممتاز مفتی ، قاضی عبدالستار، جیلانی بانو ، انتظار حسین وغیرہ نظرقارئین ہیں۔جنہوں نے حالات کے جواب میںشاہکار ناول لکھ کر عظیم سرمایا فراہم کیاہے۔اردو ناول نگاری کا یہ سلسلہ اسی طرح مزید آگے بڑھتا رہا اورعروج و ارتقا کی منزل طے کرتارہا اس میں کئی اہم نام شامل ہوتےگئے ۔ خاص بات یہ ہے کہ اردو ناولوں کی دنیا میں جس طرح کی زبان و بیان کا ایک خاص طرز اپنا لیا گیا تھا ، اس عہد نے اس سکہ بند طریقوں کو توڑنے کا کام کیا۔ اور ناول کی نثر کو ایک نئے طریقے پر رائج کرنے کی کوشش کی اس میں وہ کامیاب بھی ہوئے۔ اس عہد میں جو نئے ناول نگار وارد ہوئے انہوں نے علاقائیت کو ترجیح دی۔ علاقائی بولیوں ، محاوروں حتی کہ تلفظ کے استعمال میں بھی علاقائی طرز انداز کو اپنایا گیا ۔ گویا اس طرح اردو ناول کی نثر کی صورت میں تبدیلی آئی۔ ان تبدیلیوں کو فروغ دینے والوں میں الیاس احمد گدی ” فائر ایریا (1994) کے ذریعے، غضنفر پانی” (1989) اور کینچلی (1992) مشرف عالم ذوقی، نیلام گھر “ (1992) اور بیان (1995) اور علی امام نقوی نے تین بتی کے راما (1991) کے ذریعے دیا۔ناول نگاری کا یہ سلسلہ اکیسویں صدی میں بھی بڑی تن ومند کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ حالاں کہ اکیسویں صدی میں زیادہ تر ناول نگار وہی ہیں جو گزشتہ 90-80 کی دہائی سے لکھ رہے ہیں۔ تاہم کچھ نئے نام بھی شامل ہوئے ہیں ان میں رحمن عباس ( خدا کے سائے میں آنکھ مچولی، ایک ممنوعہ محبت کی کہانی ، روحزن ) ، محمد علیم ( میرے نالوں کی گمشدہ آواز )، ترنم ریاض ( مورتی ، برف آشنا پرندے ) ، خالد جاوید (نعمت خانہ )، ثروت خان ( پک پھیرے، کڑوے کریلے )، آچاریہ شوکت خلیل (اگر تم لوٹ آتے)، صادقہ نواب سحر ( کہانی کوئی سناؤ متاشاء جس دن سے ) ، بلند اقبال (ٹوٹی ہوئی دیوار )، صدیق عالم ( چینی کوٹھی ، مرز بوم ) محسن خان ( اللہ میاں کا کارخانہ )، شبیر احمد (ہجور آما)، اشعر نجمی (اس نے کہا تھا ) کے علاوہ کئی نو جوان قلم کاروں نے بھی ناول کے میدان میں قدم رکھا ہے۔اور اپنی صلاحیتوں کا خوب خوب مظاہرہ کیا۔
حاصل یہ کہ اردو ناول کا سفر جو تقریباً ڈیڑھ سو سال قبل شروع ہوا تھا ، آج اکیسویں صدی تک آتے آتے اس نے اپنی ہیئت میں مختلف رنگوں کو سمونے کا کام کیا ہے۔ اس سے اردو ناول نہ صرف ثروت مند ہوئی ہے بلکہ اس میں بو قلمونی بھی آئی ہے اور آج کا اردو ناول عالمی ادب میں مقبول ناولوں سے آنکھیں ملا سکتا ہے۔
ہم نے بھی گلشن کو سجانے کی قسم کھائی ہے۔
تحریر: غلام رسول اسماعیلی
M:9572161137