اس عالم رنگ و بو میں کچھ مقتدر،قدرآوراورلائق تقلید ذاتیں عظمت انسانی کے افق پر درخشندہ ہوتی ہیں،جواپنے پر عزم استقلال و عمل اور آفاقی تخیل و تدبر سے کشتی انسانی کی اصلاح،دین و دنیا کے فروغ اور قوم و ملت کی تعمیر و ترقی کےلیے ہمہ وقت سرگرداں رہتے ہیں۔اپنےحسن کرداراورلا زوال خدمت سے پزمردہ قوم میں بیداری کی موج ڈال دیتے ہیں۔نئی نئی نسلیں کامیابی کی سیڑھی چڑھنے لگتی ہیں۔پھر رفتہ رفتہ یہ رہنما عظمت و سربلندی کی اس منزل شوق پر پہنچ جاتے ہیں جہاں ہر طبقہ کے لیے ان کے نقش قدم نشان منزل اور ان کی اعلی فکر نصب العین اور امر و عمل باعث تقلید بن جاتے ہیں۔انہیں ہمالہ صفت بزرگوں اور تاریخ ساز شخصیتوں میں جلالت العلم حضور حافظ ملت علامہ شاہ عبدالعزیز محدث مرادآبادی کا بھی اسم مبارک موجود ہے۔جنہوں نے علمی و فکری قیادت سے پوری امت مسلمہ کو ایک نئی جہت اور راہ راست کا پتہ بتایا۔آپ اپنی بے لوث قربانی اور خون جگر سے اس روئے زمین پر ایک ایسا علمی سمندر بنایا جس سے تشنگانے علوم نبویہ قیامت تک اپنی علمی پیاس بجھاتے رہیں گے۔آپ کی حیات مبارکہ کو پڑھتا ہوں تو اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ آپ دینی، ملی، علمی و ثقافتی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ ایک درویش کامل کے منصب پر بھی فائز تھے۔
حضور حافظ ملت اپنے جامہ فقر میں دنیا کو استغنا کی بھیک دیا کرتے تھے۔آپ کے وجود میں جنید بغدادی کی نفس کشی،امام اعظم کی فقہی بصیرت،امام بخاری کی محدثانہ جرات وجلالت اور امام احمد رضا کے افکار و خیالات کے جلوے بدرجہ اتم موجود تھے۔خلوتوں کی چٹائی پر بیٹھ کر لا الہ الا اللہ کی ضرب بھی لگائی اور مقام تدریس پر فائز المرام ہو کر قال اللہ وقال رسول کی صدائے بھی بلند کی۔آپ کار خود بدست خویش کے جیتے جاگتے ثبوت ہیں۔اگر کسی مہمان کی مہمان نوازی کی بات آتی توخود بڑھ کر دست ولایت سے ان کی ضیافت کرتے اور دوسرے کو منع کر دیتے۔عشق رسول کا یہ عالم تھا کہ سیرت رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم آپ کی گفتگو کا اصل مقصد و موضوع تھا۔استقامت دین زندگی کو محیط تھی۔حریم ناز میں پاکیزہ نفسی کا مظاہرہ اس قدر کیے کہ حرم کی سرزمین پر ننگے قدم چلتے رہے کسی نے پوچھا حضرت جوتے کیوں اتار دیے؟عشق نے انگڑائیاں لی اور زبان حال بول پڑا یہ محترم خطہ ارضی اس لیے نہیں کہ اس پر جوتے پہن کر چلا جائے جہاں کا ہر ذرہ نقش پائے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا متحمل ہے۔قرآن مجید سے اس قدر قلبی رشتہ تھا کہ نیند میں بھی زبان صادق پر کتاب صادق کی آیات جاری رہتی۔مشہور ہے کہ علامہ قمر الحسن بستوی صاحب ایک دفعہ حاضر خدمت ہوئے تیل سے حضرت کے سر کو مالش کر رہے تھے تھوڑی دیر بعد حضرت کی آنکھ لگ گئی اور پھر نیند کے عالم میں سورہ انعام کی آیت زبان پر جاری ہونے لگی۔حضرت قمر الحسن بستوی صاحب کہتے ہیں کہ میں اس بات کا زندہ گواہ ہوں۔اصل بات یہ ہے کہ جب کسی عاشق کے ذہن و دماغ اور قلب و جگر میں محبوب کی تصویر چھپ جاتی ہے تو پھر ہر لمحہ اسی کی گیت زبان پر مچلتا رہتا ہے اور اس کی یاد سے دل معمور رہتا ہے۔یہ راہ حق کا مسافر کبھی بھی سفر کی صعوبتیں اور آرام کی خواہشیں اپنی زبان حال سےبیان واظہار نہ کیا۔آپ کا لائق عمل ایک واقعہ ہے کہ٫٫وصال سے ایک دو سال قبل الجامعۃ الاسلامیہ روناہی تشریف لائے صدر بلڈنگ کے پاس پہنچے لوگوں کا ایک ہجوم تھا جو آپ کے قریب سمٹتا چلاآرہا تھا، بارگاہ ربانی میں لسان حق متحرک ہوئی اور دست ولایت فضا میں بلند کیے دعا دیتے رہیں۔ادارہ کی فلاح و بہبود کی دعا،متعلمین کے کمال کی دعا،اراکین کے ایمان و استحکام کی دعا،آپ نے کہا مسافر کی دعا مقبول بارگاہ الہی ہوتی ہے۔،،غور کیجئے تعب و تکان کا جذبہ انگڑائی لیتا رہا ہوگا کہ جلد بستر آرام کو اپنایا جائے،مگر قوم و ملت کے محافظ کو یہ کب گوارہ تھا کہ ایک ساعت برگزیدہ جس کی تقدس میں زبان رسالت مآب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم متحرک ہوتی ہو فائدہ کیے بغیر گزار دی جائے،نفس نے منہ کی کھائی اور وجود کا تطہیراتی رنگ و جذبہ بارگاہ ایزدی میں امتنان و تشکر کے موتی چشمان بصیرت سے برستا رہا،گرد و غبار میں لپٹا ہوا مرد قلندر کا وجود محو دعا ہے اور حاضرین کی زبان آمین آمین کے حسین نغموں کا رس گھول رہی تھی۔یہ ایک ہمدرد دین اور درویش کامل کی عادت و صفت ہو سکتی ہے کسی اور کی نہیں۔(حافظ ملت افکار و کارنامے،ص،99,120)
ایک روز حافظ ملت کے سامنے دسترخوان پر ایک ہی روٹی تھی دروازہ پر سائل نے صدا لگائی٫٫خدا کے نام پر روٹی کھلا دو بابا،،آپ نے آدھی روٹی فقیر کے حوالے کر دی اور آدھی روٹی کھا کر صبر و شکر ادا کرنے لگے۔ پاس کھڑا ایک طالب علم حیرت سے دیکھنے لگا توفرمایا ۔شیخ سعدی نے لکھا ہے۔
نیم نانے گرخورد مرد خدا
بزدل درویشاں کند نیم وگر
تو بتائیے ہم لوگ تو اسے پڑھتے پڑھاتے ہیں اگر ہمارا ہی عمل اس کے خلاف ہوگا تو عمل کون کرے گا؟(معارف حدیث،ص،134)
آپ کے درویشی کی کیفیت یہ ہے کہ ایک دن آپ کی بڑی صاحبزادی جمیلہ خاتون نے شب کے کھانے میں آپ کے سامنے ایک ڈلیا میں روٹی رکھ دی اور بغل میں دال کا پیالہ بھی رکھ دی،مگر روشنی دور اور کم تھی۔آپ نے دال كو نہیں دیکھا اور صِرف سوکھی روٹی کھاکر پانی پی لیا،پھر دعا کرنے لگے۔یہ دیکھ کر آپ کی صاحبزادی نے پوچھا آپ نے دال نہیں کھائی،آپ نے تعجب سے کہا اچھا دال بھی ہے،میں سمجھا آج صرف روٹی ہے۔اللہ اکبر آپ كا یہ اخلاق و عمل اس بات کی دلیل و تصدیق ہے کہ یہ صفت و خوبی ایک درویش کامل ہی میں ہو سکتی ہے۔
ایک بار چند جانثاروں نے یہ خیال کیا کہ گرمی سخت ہے،حضرت کو بڑی تکلیف ہوتی ہوگی،اس غرض سے ایک برقی پنکھا لے کر حاضر خدمت ہوئے اور کہا آپ کو اس سے آرام ملےگا،اس پر آپ نے فرمایا کہ اس فقیر کو اس طرح کی کس شي کی حاجت نہیں۔جب لوگ بضد ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ اگر پنکھے سے ایک آدمی سے زیادہ آدمیوں کو آرام ملے وہ اچھا یا صرف ایک شخص کا آرام اچھا ہے؟لوگوں نے کہا حضور زیادہ لوگوں کو آرام ملے وہ اچھا ہے۔اس پر آپ نے فرمایا کہ جو پنکھا میرے لیے لگانا چاہتے ہو اسے مسجد میں لگوا دو تاکہ زیادہ لوگوں یعنی نمازیوں کو آرام و ہوا ملے۔ایک مقام پر آپ کا رہائشی مکان جو خستہ تھا اس کا تذکرہ ہوا تو فرمایا ٫٫اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے مسلمانوں کے لیے جنت کے محل تعمیر کرائے ہیں،اب ہم چند روز کے لیے دنیاوی گھر کی فکر میں پریشانی کیوں مول لیں۔درویشوں کی دنیا وہ ہوتی جس میں وہ متاع دنیا سے کنارہ کش اور بے نیاز ہوتے ہیں، کسی رزق کے متلاشی نہیں ہوتے،اُن کی جہاں کا رنگ و روغن مختلف،ان کی وسعتیں لا محدود،ان کی منزل وہم و گمان سے بالا تر ان کی آرائش و زیبائش مبنی بر سادگی۔انہی تمام تر اوصاف جمیلہ کے مظہر کامل حضور حافظ ملت کی ذاتِ بابرکات تھی،جواپنے جہد مسلسل اور سعی پیہم کے لازوال کمالات سے آج بھی لوگوں کے دلوں پر راج کر رہے ہیں۔(حیاتِ حافظ ملت،ص،180)
از قلم: محمد آفتاب عالم مصباحی، استاذ دارالعلوم فیض عام اناؤ (یوپی)