اہل مدارس پر لکھے گیے ڈاکٹر صدف فاطمہ کے ایک تنقیدی مضمون اور اس پر انجمن ترقی اردو ہند کے سیکرٹری اطہر فاروقی کے متعصبانہ اور گھٹیا تبصروں پر اہل مدارس اور ادیبوں کے درمیان گرما گرم مباحثہ چل رہا ہے۔بات ادیبوں کی خدمات کی چلی تو کئی نام ور ادیبوں کے زریں کارنامے سطح ذہن پر ابھر آئے ، سوچا آپ سے بھی بانٹ لوں تاکہ ان کی ادبی حیثیت کا اندازہ آپ بھی لگا سکیں اور ان کے معیار سے بھی واقف ہو سکیں۔
_کئی سال پہلے ایک "ڈاکٹر صاحب” قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے چئیرمین منتخب ہوئے۔اب چونکہ فروغ اردو کا ادارہ تھا تو اردو کا آنا، لکھنا پڑھنا بھی کسی نہ کسی درجے میں ضروری تھا، اس لیے چئیرمین صاحب نے ہمارے ایک عزیز کو اپنا مشیر خاص مقرر فرما لیا، جو اس "چھوٹے سے کام” کو سنبھال سکیں۔عزیز محترم خیر سے صاحب مطالعہ اور صاحب قلم تھے۔اس تقرری سے دونوں حضرات کو فائدہ ہوا۔عزیز محترم کو روزگار ملا اور چئیرمین صاحب کو علمی حلقوں میں وقار۔انہیں دنوں چئیرمین صاحب نے ایک سیمینار اناؤنس کر دیا۔مدعوئین طے کے نام طے ہوئے۔عناوین تقسیم کیے گیے۔ایک عدد عنوان چئیرمین صاحب نے بھی الاٹ کرا لیا۔جو "مصروفیت” کے پیش نظر مشیر خاص کو سونپ دیا گیا۔حسن اتفاق کہیں کہ سوئے اتفاق، مشیر خاص نے بھی مصروفیت کے باعث ہمارے ہی ایک دوسرے عزیز پر یہ ذمہ داری ڈال دی۔آنجناب بھی اس سمینار میں مدعو تھے۔انہوں نے دہری ذمہ داری نبھائی، دونوں مقالے لکھے۔ایک اپنے پاس رکھا اور دوسرا چئیرمین صاحب کے دفتر پہنچ گیا۔سیمینار کا دن آیا، چئیرمین صاحب نے بڑے کر وفر سے مقالہ پڑھا، تالیاں بٹوریں اور چائے نوشی کے دورانیہ میں انہیں عزیز سے جا ٹکرائے جو مضمون کے اصل لکھاری تھے، کہنے لگے؛
"———صاحب کیسا لگا ہمارا مقالہ؟
عزیز محترم کہتے ہیں؛
"نعیمی صاحب ، اپنے ہی مضمون کی تعریف غیر کے لیے کرنے کا پہلا تجربہ تھا، خدا ہی جانتا ہے کہ کس طرح جذبات پر قابو رکھا اور جیسے تیسے مضمون کی طرح تعریف کی خیرات بھی چیئرمین صاحب کی جھولی میں ڈال کر اپنا لفافہ سمیٹا اور چلتا بنا۔”
_دلی ہی کے ایک اور ادیب صاحب ہمارے رابطے میں ہیں، جو زبان و ادب کی خدمت کے لیے ملک وبیرون ملک کے سفر تک فرماتے رہتے ہیں۔موصوف کی زبان دانی اور ادب پروری کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے تنہا پیٹ بھرنا مناسب نہ جانا، جذبہ خیر خواہی کے تحت ایک اردو جاننے والے سے چالیس، ساٹھ کا معاملہ طے کیا۔یعنی لکھنے کا کام آپ کریں، اور پڑھنے کا کام ہم کریں گے، جو ملے گا اس کا چالیس فیصد آپ کا اور ساٹھ فیصد ہمارا ہوگا۔سودا طے ہوگیا۔اسی سودے کی بدولت موصوف آج ادبی مجلسوں کی رونق دوبالا کیے ہوئے ہیں۔اس سودے کا علم ہمیں ایک حادثہ کے بعد ہوا۔ہوا یوں کہ ایک محفل میں موصوف سے سابقہ پڑ گیا۔عمدہ کلام پیش کیا۔طبیعت ہوئی کہ اسے محفوظ کیا جائے، سو ان سے فرمائش کی اپنا کلام لکھ کر دے دیں!
معلوم نہیں تھا کہ یہ فرمائش ان پر اتنا بھاری ہوگی، خیر کافی دیر بعد انہوں نے گھسی پٹی ہندی میں آٹھ دس سطریں لکھ کر اس عذر کے ساتھ دیں کہ؛
"حضرت، کاغذ وغیرہ دستیاب نہیں ہے، ایک پرانا پرچہ جیب میں پڑا ہوا مل گیا فی الحال اسی سے کام چلا لیں، گھر پہنچ کر مکمل کلام بھجواتا ہوں۔”
عذر نا معقولیت سے بھی گیا گزرا تھا، تب جاکر یہ عقدہ کھلا کہ موصوف اردو لکھنا جانتے ہیں نہ پڑھنا، سب کچھ ہندی رسم الخط میں لکھواتے ہیں اور اسی کو کئی بار دہرا کر پڑھنے کی مشق کرتے ہیں تب کہیں جا کر مجالس ادب میں "خدمت اردو” کا” کارنامہ” انجام دیتے ہیں۔
صدف صاحبہ کی آہ وفغاں اور اطہر صاحب کے حد درجہ بازاری لہجے سے سے ایسا لگتا ہے کہ فارغین مدارس کی بڑھتی ہوئی تعداد سے یونیورسٹیوں کے شعبہ اردو اور دیگر ادبی فورموں پر قابض گروپ خطرہ محسوس کر رہا ہے اس لیے اب مذہبی اینگل لاکر وہی کھیل کھیل رہا ہے جس کے لیے بی جے پی اور آر ایس ایس بدنام ہے۔اس لیے فروغ ادب کے ان شہ سواروں سے بس اتنا ہی عرض کرنا ہے کہ؛
اس تعصب کے اندھیروں سے تو نکلو باہر
پھر کبھی دن تو کبھی رات پہ تنقید کرو
ازقلم: مفتی غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی
13 ذوالحجہ 1446ھ
10 جون 2025 بروز منگل