اصلاح معاشرہ امت مسلمہ کے حالات

مسلمان، مسلمانوں سے دور کیوں؟ایک لمحۂ فکریہ!

دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ جب مسلمان باہم متحد، ایک صف میں، ایک دل اور ایک جسم کی مانند تھے، تب زمین پر عدل، علم، شجاعت، روحانیت اور تہذیب کی ایسی روشن مثالیں قائم ہوئیں کہ اقوامِ عالم عش عش کر اٹھیں۔ مگر افسوس! آج کے مسلمان وہ وحدت کھو چکے ہیں، جو ان کی اصل پہچان تھی۔ نہ دلوں میں وہ اخلاص رہا، نہ صفوں میں وہ یکجہتی۔
ایسے میں شاعر کا یہ نالہ، صرف شعر نہیں، ایک اجتماعی شکوہ اور دعوتِ فکر ہے:

کفر سے کفر بغل گیر نظر آتا ہے
کیوں نہیں ہوتے مسلماں بھی مسلماں سے قریب؟

یہ سوال درحقیقت پوری امتِ مسلمہ کے لیے ایک آئینہ ہے، جس میں ہمیں اپنے بکھرے وجود، منقسم فکر، اور منتشر دلوں کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔

وحدتِ امت، قرآن کا اولین پیغام:

اسلام کا آغاز ہی اتحاد اور اجتماعیت کے اصول پر ہوا۔ قرآن مجید بار بار مسلمانوں کو ایک امت بننے کی دعوت دیتا ہے جیساکہ ارشاد ربانی ہے: "وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیعًا وَلَا تَفَرَّقُوا”
"اللہ تعالیٰ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھامو اور آپس میں تفرقہ مت پیدا کرو۔”
(سورۃ آل عمران، آیت 103)
یہی وہ آیت ہے جو ہجرت کے بعد مدینہ میں مختلف قبائل اور مذاہب کے درمیان میثاقِ مدینہ کا مرکز بنی، جس کی بدولت ایک عظیم فلاحی معاشرہ تشکیل پایا۔
مگر افسوس! آج ہم نے قرآن کے اس پیغامِ وحدت کو پسِ پشت ڈال دیا۔ ہم اسلام دشمن قوتوں پر غصہ تو کرتے ہیں، مگر اپنے اعمال کا محاسبہ نہیں کرتے۔

کفار کی باہمی ہم آہنگی، ایک سبق آموز مشاہدہ:

تاریخ گواہ ہے کہ کفار و مشرکین اپنے باطل نظریات میں سیکڑوں اختلاف کے باوجود اسلام کے خلاف متحد ہو جاتے ہیں:

غزوۂ خندق (5ھ): قریش، یہود، اور غطفان جیسے قبائل نے ایک جٹ ہوکر مدینہ پر حملہ کیا۔
(سیرت ابن ہشام، جلد 3، ص: 197)
صلحِ حدیبیہ (6ھ): دشمنوں کی سیاسی چالاکیوں سے صحابۂ کرام کو بڑی آزمائش پیش آئی۔
(صحیح بخاری، کتاب الشروط، باب الشروط فی الجہاد)
فتح مکہ (8ھ): مشرکین نے مدینہ کی ریاست کو ختم کرنے کے لیے آخری حربے آزمائے۔
(سیرت ابن کثیر، جلد 3، ص: 565)
دورِ جدید میں بھی فلسطین، شام، یمن، کشمیر، برما- جہاں کہیں بھی مسلمان مظلوم ہیں، وہاں دشمن اقوام متحد اور متحرک ہیں۔ ان کے درمیان رنگ، نسل، زبان یا جغرافیہ کی قید نہیں، صرف ایک چیز مشترک ہے: اسلام دشمنی۔
"إِنَّهُمْ اتَّخَذُوا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ اللَّهِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ”
"بے شک انہوں نے شیطانوں کو اللہ کے سوا اپنا دوست بنا رکھا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں۔”
(سورۃ الاعراف، آیت 30)

مسلمانوں کی باہمی دوری: ایک زخم، ایک المیہ:

مسلمانوں کا حال اس کے برعکس ہے:

ذات، برادری، قوم، قبیلہ، علاقائیت، زبان، اور مفاد کے نام پر تفریق۔
علما پر الزامات، اولیاء پر شکوک، مخلصین پر بدگمانیاں۔
مسجدوں میں صفیں سیدھی مگر دلوں میں فاصلے باقی۔

کسی نے کیا خوب کہا:
"جو بات بگڑی ہوئی قوموں کو بنا سکتی تھی
افسوس! وہ بات ہمارے یہاں بھی بگڑ گئی ہے”

سیرتِ مصطفی ﷺ: اخوت اسلامی کا عملی ماڈل:

سرکارِ دو عالم ﷺ نے صرف زبانی نہیں، بلکہ عملی طور پر اخوتِ اسلامی کا ایسا مثالی نمونہ پیش کیا کہ:
مواخاتِ مدینہ کے تحت مہاجرین و انصار کو بھائی بھائی بنایا۔
(سیرت ابن ہشام، جلد 2، ص: 147)

حجۃ الوداع میں فرمایا:
"لَا فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلَىٰ عَجَمِیٍّ وَلَا لِعَجَمِیٍّ عَلَىٰ عَرَبِیٍّ، وَلَا لِأَحْمَرَ عَلَىٰ أَسْوَدَ، وَلَا لِأَسْوَدَ عَلَىٰ أَحْمَرَ، إِلَّا بِالتَّقْوَى”
"نہ کسی عربی کو عجمی پر فضیلت ہے، نہ عجمی کو عربی پر، نہ گورے کو کالے پر، نہ کالے کو گورے پر، سوائے تقویٰ کے۔”
(مسند احمد، حدیث: 23489)
مزید فرمایا:
"المسلم أخو المسلم، لا یظلمہ، ولا یخذلُہ، ولا یحقِرُہ”
"مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے؛ نہ اس پر ظلم کرے، نہ اسے تنہا چھوڑے، نہ اس کی تحقیر کرے۔”(صحیح مسلم، کتاب البر، حدیث: 2564)
پھر سوال یہ ہے: ہم جو نبی کے امتی ہیں، آپ ﷺ کی سنتِ اخوت پر کیوں نہیں عمل کرتے؟

فرقہ واریت اور تعصب، ایک فکری زہر:

علمی اختلاف رحمت ہے، مگر جب یہی اختلاف:
الزام تراشی میں بدل جائے-
تکفیر و تضلیل کا ہتھیار بن جائے-
سیاسی یا ذاتی مفاد کا ذریعہ بن جائے-
تو وہ اختلاف نہیں، امت کے شیرازے کو توڑنے والا زہر بن جاتا ہے۔
"وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ”
"اور آپس میں جھگڑا نہ کرو، ورنہ کمزور پڑ جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔”
(سورۃ الانفال، آیت 46)

آج ہمیں اختلاف کے آداب سیکھنے کی ضرورت ہے، کہ اختلاف کو دشمنی نہ بنائیں، بلکہ فکری تنوع سمجھیں۔

اولیائے کرام کا پیغام: محبت، قربت، وسعت:

حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ نے فرمایا:
"نفرتیں مٹاؤ، دلوں کو جوڑو، محبت کا پیغام عام کرو۔”
(ملفوظاتِ خواجہ اجمیری، مرتبہ: صوفی مجیب الحق)
اورامام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
"مسلمانوں کے باہمی تعلق کو مضبوط کرو، یہی دین کی روح ہے۔”
(مکتوبات امام ربانی، دفتر دوم، مکتوب 23)

حل کی طرف قدم:

  1. دلوں میں وسعت پیدا کی جائے:
    فروعی اختلافات کو فکری دائرے میں رکھ کر دلوں کو قریب لایا جائے۔
  2. علم و شعور کو فروغ دیا جائے:
    عوام کو قرآن، سنت اور سیرتِ نبوی کی روشنی میں اسلام کا اصل پیغام سکھایا جائے۔
  3. سیاسی چالوں سے باخبر رہیں:
    مسلمانوں کو آپس میں لڑانے والی طاقتیں آج بھی سرگرم ہیں، ہمیں ان کی سازشوں کو پہچاننا ہوگا۔
  4. روحانی و اخلاقی تربیت ہو:
    اولیائے کرام کی خانقاہیں اخوت کی عملی تجربہ گاہیں تھیں، ہمیں اسی نظامِ تربیت کو زندہ کرنا ہوگا۔
  5. مثبت سوشل میڈیا مہمات:
    نفرت پھیلانے کے بجائے اصلاح، محبت، اور اخوت کے پیغام کو عام کرنے کی مہمات چلائی جائیں۔
    حاصل کلام یہ ہے کہ آج امت کو شاعر کے اس شکوے کو صرف سننا نہیں، سمجھنا اور اپنانا ہوگا:

کفر سے کفر بغل گیر نظر آتا ہے
کیوں نہیں ہوتے مسلماں بھی مسلماں سے قریب؟

آیئے! اس سوال کو اپنا سوال بنائیں، اس درد کو اپنا درد بنائیں، اور اس پیغام کو عملی دعوتِ اصلاح کا ذریعہ بنائیں۔

جب ہم ایک دوسرے کے قریب ہوں گے، دلوں میں محبت ہو گی، مساجد میں اخلاص ہو گا، محفلوں میں خیر خواہی ہو گی، تب ہی امتِ مسلمہ پھر سے سربلند ہو سکے گی۔

پاک پروردگار کی بارگاہ میں دعا ہے کہ:مولیٰ تعالیٰ! ہمارے دلوں کو جوڑ دے، امت کو متحد فرمادے، اور ہمیں اخوتِ اسلامی کا سچا داعی بنا دے۔ آمین یا رب العالمین بجاہ النبی الکریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم۔

از:نظام احمد قادری مصباحی
بانی و صدر: تحریکِ پیغامِ انسانیت
بدلباغ،لہرابازار،برجمنگنج،ضلع مہراجگنج (یوپی)

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے