جنگ بڑھتی ہی جارہی ہے امریکا کی تمام دھمکیوں کو درکنار کرتے ہوئے ایران اسرائیل پر تابڑ توڑ حملے کیے جارہا ہے، اب امریکا کے جنگ میں شامل ہونے کے امکانات بڑھتے جارہے ہیں، حملے طرفین سے جاری ہیں اور دونوں کا خاصہ جانی، مالی نقصان ہو رہا ہے، امریکی صدر بھی آیت اللہ علی خامنہ ای کو مارنے کا عندیہ دے رہے ہیں، خامنہ ای کے ٹھکانے کے متعلق ٹرمپ نے کہا ہے کہ مجھے معلوم ہے کہ وہ کہاں چھپے ہیں، اسرائیل اور امریکہ کے بیانات سے یہ ظاہر ہے کہ وہ حکومت بدلنا چاہتے ہیں جس کے لیے رضا پہلوی جیسے لوگ بیٹھے ہوئے لار ٹپکا رہے ہیں ۔
وہیں خامنہ ای نے بھی اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ میرے جسم کی کوئی حیثیت نہیں، مرنے کے لیے تیار ہوں لیکن جھکنے کو نہیں، ہر چیز کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا، ایران نے آج حیفا، تل ابیب کے بعد یروشلم میں بھی حملے کیے ہیں، جنگ جس موڑ پر پہنچ رہی ہے وہاں ایران کے لیے مشکلات یقینی ہیں، ایسے میں روس اور چین کی مدد ایران کو حوصلہ دیے ہوے ہے لیکن اتنا یقینی ہے کہ یہ سامنے آکر جنگ نہیں کریں گے، روس ایران کی مدد اس لیے بھی کرے گا کیوں کہ ایران نے اپنے ڈرون روس یوکرین جنگ میں روس کو دیے، خبریں ہیں کہ چین بھی مدد کر رہا ہے لیکن یہ بات فوجی امداد اور ساز و سامان تک ہی محدود رہے گی، اتر کوریا کے” کم جونگ ان” کا بھی بیان آیا ہے کہ ایران اکیلا نہیں ہے ہم ساتھ ہیں لیکن سیدھی جنگ میں شاید کوئی ساتھ نہ آئے گا….
کیا یوگا اگر امریکا ایران پر قبضہ کر لے
اس وقت چین اور روس مشرق وسطیٰ میں جم کر کاروبار کر رہے ہیں ، روس کو بھی ایران کی طرح امریکی پابندیوں کا سامنا ہے ایسے میں تیل اور گیس کا بڑا سپلائر ایران اگر ان دونوں ملکوں کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے تو چین اور روس دونوں کو تیل اور گیس کی قلت ہونا یقینی ہے، یا پھر امریکی ریٹ اور شرائط پر تیل گیس یا دیگر کاروبار کرنا ہوگا، ایسا ہونے پر نہ صرف ایران بل کہ پھر عرب ممالک پر بھی اسرائیل اور امریکا کا شکنجہ کسے گا اور ہر بات ماننی ہوگی، ابھی جو عرب ممالک کچھ حد تک بچے ہوے ہیں تو وجہ ایران ہی ہے، کیوں کہ جب تک ایران پر قبضہ نہ ہو تب تک سب کی سننا پڑے گی، ورنہ ایر بیس، اسپیس اور ان کے فوجیوں کی ہر سہولت کا انتظام کون کرے گا؟ ایران کے بعد امریکا اور اسرائیل کو عرب ممالک کی ضرورت نہیں پڑے گی، اس لیے ان ممالک میں موجود امریکی فوجی اڈے اور ان میں موجود اسلحہ سے چند لمحوں میں کسی بھی ملک پر یہ دونوں قبضہ کر لیں گے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ ایران کے بعد کوئی بھی ملک سلامت نہیں رہے گا، چند سالوں کے اندر سب ختم ہو جائیں گے، دنیا بھر کو امریکا اور اسرائیل کا چہرہ اس وقت صاف نظر آئے گا جب ہر چیز کی قیمت امریکا، اسرائیل طے کریں گے…
آج کی خاموشی کل کی موت ہے، G 7 ممالک کی بیٹھک میں سارے ملکوں نے ٹرمپ کے آگے گھٹنے ٹیک دیے، پہلے حملہ اسرائیل نے کیا ہے باوجود اس کے سارے دیش یہ کہ رہے ہیں کہ اسرائیل کو حق دفاع حاصل ہے، دنیا نے اس سے بڑی بد دیانتی شاید کبھی نہ دیکھی ہوگی، ایران جو بھی کر سکتا ہے اسے اپنے تحفظ کے لیے کر گزرنا چاہیے پھر شاید وقت نہ ملے ۔
ایران لڑائی پر کیوں اڑا ہے؟
1980 کے بعد سے ایران نے پراکسی وار کو ہی ترجیح دی ہے، پچھلے کئی سالوں میں اس کے فوجی افسران، سانس داں قتل ہوے لیکن ایران نے کھل کر جواب نہیں دیا، آخر آج ایران ایسا کیوں کر ریا ہے؟
دنیا جانتی ہے کہ ایران کے پاس وافر مقدار میں یورینیم موجود ہے A I E A اس بات کو کلیر کر چکی ہے ، فروری میں ایک رپورٹ آئی تھی کہ ایران نیوکلیر ہتھیار بنانے کے قریب ہے، اب دنیا بھر کے لوگ اس شش و پنچ میں ہیں کہ کیا ایران بغیر تیاری کے اتنی بڑی لڑائی مول لے سکتا تھا؟ اس کے دو جواب مجھے سمجھ آتے ہیں ۔
(1) ایران اپنا جوہری پروگرام اس حال میں لے آیا ہے کہ وہ چند دنوں میں جوہری ہتھیار بنا سکتا ہے، اس لیے جنگ جاری ہے اور ایہ اس کے ٹیسٹ کے اعلان کے لیے ایسا کر رہا ہے جو اس کے لیے بھی نہایت موزوں وقت ہے، ایسے میں اگر ٹیسٹ ہوتا ہے تو ٹیسٹ کے بعد آدھی دنیا ایران کی طرف ہوگی ۔
(2) امریکا یا اسرائیل کو یہ یقین ہو گیا ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کے نہایت قریب ہے، اگر اسے یقین ہوتا کہ بنا لیا ہے تو شاید حملہ نہ کرتا، کیوں کہ کسی بھی ملک کے لیے جوہری ہتھیار جنگ روکنے کا واحد ذریعہ ہیں، یا پھر امریکا اسرائیل یہ چاہتے ہیں کہ اگر ایران نے بنا لیا ہے تو ٹیسٹ کرے ضرور کرے گا اس طرح سالوں کا شک و شبہ ختم ہو جائے گا اور پھر ہم دنیا بھر میں ایران پر مزید پابندیاں لگا سکیں گے، اگر نہیں بنایا ہے تو حکومت تبدیل کرکے جوہری پروگرام پر قبضہ کر لیں گے اس طرح ملک بھی ملے گا اور بیٹھے بٹھائے جوہری ہتھیاروں میں اضافہ بھی ہو جائے گا، دیگر ایشیائی ممالک تک پہنچ آسان ہو جائے گی ہر ملک پر نظر رکھنا آسان ہوگا نیز ہر ملک امریکی، اسرائیلی میزائلوں کیا رینج میں ہوگا ۔
زندہ رہنا ہے تو حالات سے ڈرنا کیسا
جنگ لازم ہو تو لشکر نہیں دیکھے جاتے
جاری…..
تحریر: محمد زاہد علی مرکزی
چیئرمین تحریک علمائے بندیل کھنڈ
18/6/2025
21/12/1446