جنگ کا ساتواں روز ہے اور طرفین سے حملے جاری ہیں، ایران اور اسرائیل دونوں کے یہاں سے خبروں کو سینسر کیا جارہا ہے، انٹرنیٹ بند ہے اس لیے بہت ہی معمولی خبریں باہر آئی ہیں ، کل ایران میں اسرائیلی حملے کافی تیز ہوے ہیں اور ان کا نشانہ ملٹری بیسس، جوہری تنصیبات، بڑے عہدے دار ہیں، ایران کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ان کا دفاعی نظام فعال ہوگیا ہے، اب تک ایران نے اسرائیل کی جانب سے ہونے والے ہوائی حملوں میں کافی نقصان اٹھایا ہے، ساتھ ہی پانچ ایف 35 طیارے مار گرائے ہیں، کئی جاسوسی اور حملہ آور ڈرون بھی مار گرائے ہیں، جانی نقصان ایران کا زیادہ ہوا ہے اسرائیل کا کم، کل ایران نے سجیل نامی نئی میزائل لانچ کی، جس کی بل کھاتی اداؤں نے ساری دنیا کو محو حیرت کر دیا ہے، کہا جارہا ہے کہ یہ میزائل فضا میں جاکر واپس آکر ٹارگٹ کو ہٹ کرتا ہے، اس کی رینج کئی ہزار کلو میٹر ہے، کچھ عرب ذرائع کے مطابق کل رات بھی ایرانی حملے جاری رہے ہیں جن کی تصاویر اب نکل کر آرہی ہیں، انھیں میں سے ایک ویڈیو آور تصویر میں صاف دکھ رہا ہے کہ ایران کا ایک میزائل سوروکا نامی ہسپتال میں گرا ہے جس سے ہسپتال بری طرح متاثر ہوا ہے، اسرائیلی میڈیا کے مطابق ایرانی حملوں میں اب تک پانچ ہزار اسرائیلی بے گھر ہو چکے ہیں ۔
بہرحال خبریں اب کم نکل کر آرہی ہیں، لیکن جنگ پورے شباب پر ہے ۔
آیت اللہ خامنہ ای کی اخوتی تقریر
جنگ کے بیچ کچھ حقائق بھی جان لینا چاہیے، ایرانی رہنما آیت اللہ خامنہ ای ایک ویڈیو میں کہ رہے ہیں کہ جو ہمارا دشمن ہے وہی عراق، لیبیا، شام، فلسطین، عرب کا دشمن ہے، یہ بات بالکل درست ہے لیکن یہ بات ایران کو اس سے پہلے کیوں سمجھ نہ آئی؟ 55 ہزار فلسطینی شہید کر دیے گئے تب یہ اخوت کہاں تھی؟ کہنے کو لوگ کہ رہے ہیں کہ ایران ہی بولتا رہا ہے لیکن بولنے سے کیا ہوا؟ ان کی جانوں کا نقصان اور زیادہ ہوا، ان جا سب سے بڑا لیڈر ان کے یہاں مارا گیا، جب اسرائیل کمزور پڑ رہا تھا عین اس وقت حزب اللہ نے ہتھیار ڈال دیے یعنی آگ لگا کر جمالو دور کھڑی ہوگئی! ااگر حزب اللہ ہتھیار نہ ڈالتا تو اسرائیل میں جنگ بندی ہوچکی ہوتی، ایران نے اس وقت یہ فیصلہ کیوں نہ لیا کہ حزب اللہ کی مزید مدد کی جائے اور فلسطینیوں کو راحت مل سکے…..
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر امریکا ساتھ نہیں آتا تو یہ جنگ چند روز میں ہی ختم ہو جائے گی، اسرائیل جتنا کر سکے گا کر کے پیچھے ہٹ جائے گا، اسرائیل اپنا نقصان دیکھتا ہے تو فوراً حسب عادت ہاتھ پیر جوڑ کر جنگ بند کر دیتا ہے جیسا کہ ماضی میں لبنان اور ایران کے ساتھ ہو چکا ہے ، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خامنہ ای جس اخوت کی بات کر رہے ہیں کیا اس وقت وہ یہ شرط رکھیں گے کہ غزہ میں بھی جنگ بندی ہونی چاہیے، نہیں اور ہرگز نہیں! پھر وہ کس منہ سے کہ رہے ہیں کہ یہ ہمارے بھائی ہیں، کیا شام میں بشار الاسد کے ساتھ مظالم میں ایران ساتھ نہیں تھا؟ کیا عراق کی تباہی میں ایران نہیں تھا؟ ایسا بھی نہیں کہ لیڈر کوئی اور رہا ہو، یہی خامنہ ای کل بھی تھا اور آج بھی ۔
خلاصہ یہ ہے کہ مجودہ جنگ ایران کی اپنی جنگ ہے جو وہ لڑ رہا ہے، ہم بھی چاہتے ہیں کہ ایران ہی غالب رہے کیوں کہ ایران کے زوال سے مغرب مشرق وسطیٰ میں وہ کھیل کھیلے گا جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، لیکن اسے امت مسلمہ سے جوڑ کر دیکھا جانا اور یہ سمجھنا کہ ایران امت مسلمہ کے لیے لڑ رہا ہے بالکل غلط ہے، اگر آپ کو یہ بات سمجھ نہیں آتی تو جنگ بندی تک کا انتظار کیجیے سمجھ جائیں گے ۔
جنرل عاصم منیر بنے ٹرمپ کے مہمان
پ ا ک کی جانب سے ایرانی حمایت میں جو رزولیوشن پاس کیا گیا اور ایران نے جو بیان بازی کی اسے دیکھتے ہوئے امریکا نے پھر سے پ ا ک کو پُچکارا ہے، جیسے افغانستان کے خلاف انھوں نے اپنی زمین دی تھی شاید اسی طرح کا کھیل یہاں بھی کھیلا جانا ہے، امریکا چاہتا ہے کہ اسے ایران کے پڑوس میں جگہ مل جائے جہاں سے وہ ایران پر زمینی اور فضائی حملے بآسانی کر سکے، جنرل صاحب کی خوشی اور ٹرمپ صاحب کو نوبل پرائز کی وکالت سے لگتا تو یہی ہے کہ امریکا کو اس کی مطلوب شئے دیر سویر مل ہی جائے گی ۔
وہیں بھارت میں اس ملاقات سے بکھیڑا کھڑا ہوگیا ہے اپوزیشن اسے ودیشن نیتی کی ہار بتا کر حملہ آور ہے کہ مودی اور ٹرمپ اگر اتنے ہی بڑے دوست ہیں جیسا کہ دعویٰ کیا جاتا ہے تو انڈیا کا دشمن وہاں کیا کر رہا ہے؟ اس کی مہمان نوازی کیوں ہو رہی ہے؟ مہمان نوازی کا سبب تو ہم آپ کو بتا ہی چکے ہیں اس لیے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، رہی اپوزیشن کی بات تو وہ کسی لائق نہ کل تھا اور نہ آج ہے، نقار خانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ حیثیت نہیں ۔
جاری……..
تحریر: محمد زاہد علی مرکزی
چیئرمین تحریک علمائے بندیل کھنڈ
19/6/2025
22/12/1446