تعلیم سیاست و حالات حاضرہ

مغلوں کے کردار کو مسخ کرنے کی کوشش

حال ہی میں این سی ای آرٹی کی نصابی کتاب میں جو تبدیلیاں کی گئی ملک بھر میں اس تشویشناک صورت حال پر سخت ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ این سی ای آرٹی کے نصاب میں شامل تاریخ کے مضمون سے متعلق کتاب میں جو تبدیلیاں کی گئیں وہ حکومت کی منشاء و مرضی کے مطابق تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر نئی نسل کے ذہن کو نفرت زدہ بنانے کا ایک خطرناک منصوبہ ہے۔ تاریخ کی اس کتاب میں عہد مغلیہ کے بادشاہوں کو ظالم و جابر، بے رحم و سفاک، قاتل اور پوری انسانی آبادی کا صفایا کرنے والا بتایا گیا جو سماج میں مکمل طور پر نئی نسل کے ذہن و دماغ میں زہر گھولنے کا کام کرے گی۔ سوال یہ ہے کہ نصابی کتابوں کی تیاری جوکہ ماہرینِ تعلیم کی نگرانی میں کی جاتی ہے کیا سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے کوئی حکومت خود سے نصاب کو تبدیل کرنے کی مجاز ہے؟ ضرورتاً یا طلباء کے مفاد میں نصاب میں تبدیلیاں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں یہ کوئی معیوب بات نہیں لیکن ہندوتوا کے عزائم کے لئے سیاسی نوعیت کی تبدیلیوں کو بھارت کی تاریخی حیثیت پر ایک بدنما داغ ہی خیال کیا جاسکتا ہے۔
2014ء کے بعد سے بھارت میں زمینی سطح پر جو ناگفتہ بہ حالات پیدا کئے جا رہے ہیں کیا ہمارے دانشور اس سے ناواقف ہیں؟ اس وقت جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ اسی منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی تیاری زوروں پر ہے۔ لہٰذا! مؤرخین دانشوران اور برسرِ اقتدار حکمراں مخالف جماعتیں اپنی بیان بازی سے ماحول کو جس قدر بھی گرم کرتے رہیں لیکن مرکزی حکومت پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ کام ایک طے شدہ ایجنڈے کے تحت ہو رہا ہے۔ تعلیمی نصاب میں مغلوں کی تاریخ کو جس طرح سے توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا اس سے مغلیہ تاریخ کے بارے میں لوگوں کا حقیقی علم صفر ہو جائے گا۔ آر ایس ایس کا خیال ہے کہ جو دماغ بنتا ہے وہ اسکولوں میں بنتا ہے اور اس میں ایک حد تک سچائی بھی ہے۔ آر ایس ایس کے زیراہتمام چلنے والے اداروں سے نکلنے والے طلباء سے آپ بات کریں تو آپ ماضی اور حال سے متعلق ان کا شعور بالکل مختلف پائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ 1977ء میں بھی نصابی کتابوں کے حوالے سے بحث چلی تھی۔ پھر جب یہ اٹل بہاری واجپئی کے دور اقتدار میں آئے تب بھی انہوں نے نصاب کو اپنے انداز میں بدلنے کی کوشش کی اور اب ایک بار پھر وہی کام ہو رہا ہے۔
ہمارا وطن عزیز بھارت ایک ایسا عظیم ملک ہے جس کی بنیاد کثرت میں وحدت، مذہبی رواداری اور آئینی مساوات پر رکھی گئی۔ ہمارے آئین نے ہر شہری کو مذہبی آزادی اور ہر مذہب کو مساوی احترام کی ضمانت دی ہے۔ مگر افسوسناک پہلو یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے بعض اقدامات ان بنیادی اقدار کی نفی کر رہے ہیں۔ این سی ای آرٹی کی نصابی کتابوں میں مغل حکمرانوں کے کردار کو مسخ کرنا نہ صرف تاریخ سے انحراف ہے بلکہ ایک ایسے سیکولر سماج کے خلاف سوچی سمجھی مہم ہے جہاں ہر مذہب کو مساوی درجہ دیا جاتا رہا ہے۔ ایسی کوششیں تعلیمی اداروں ہی کو نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے فکری مستقبل کو بھی زہر آلود کر رہی ہیں۔ تاریخ وہ سچ ہے جسے نہ بدلا جاسکتا ہے نہ جھٹلایا جاسکتا ہے۔ اکبر اورنگزیب، شاہجہاں یا دیگر مغل حکمران بھارت کی تہذیب، فن تعمیر، سیاست اور معاشرت کا حصہ رہے ہیں۔ ان کی حکمرانی میں غلطیاں بھی ہوئیں اور غیر معمولی خدمات بھی انجام پائیں۔ مگر انہیں یکطرفہ اور منفی رنگ دے کر پیش کرنا نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ تعصب پر مبنی دانشوری کی علامت بھی۔ اگر اکبر صرف مندروں کا توڑنے والا تھا تو جودھا بائی کی موجودگی، ان کا ہندو مندر میں پوجا کرنا اور اکبر کی رواداری کیسے بیان کی جائے گی؟ تاریخ کو اپنے سیاسی مفادات کی عینک سے دیکھنے کا مطلب ہے پورے ملک کی شعوری توہین۔ این سی ای آرٹی جیسے قومی ادارے کی ساکھ اس کی علمی غیر جانبداری میں پنہاں ہے۔ نصاب میں مذہبی جھکاؤ یا سیاسی مفاد کے لئے تاریخ کو از سرِ نو لکھنا ایک تعلیمی جرم ہے جو طالب علموں کے ذہنوں کو تعصبات سے آلودہ کرتا ہے۔ آج مغلوں کی تاریخ کو نصاب سے خارج کرکے اورنگزیب کو صرف ایک ظالم بادشاہ کی حیثیت سے بیان کرنا اور یہ نہ بتاتا کہ اس نے مندروں کی مرمت کرائی، جاگیریں دیں اور بعض درگاہیں خود منہدم کرائیں تاریخ کے ساتھ بد دیانتی ہے۔ ایسے میں آج کے جمہوری اصولوں کی کسوٹی پر صدیوں پرانے کرداروں کو پرکھنا محض سنجیدہ تاریخ نویسی نہیں بلکہ سیاسی مہم جوئی ہے۔ اگر حکومت نئی نسل کو سچائی، اخلاق اور اقدار سے روشناس کرانا چاہتی ہے تو اسے گیتا کے ساتھ قرآن، بائیل اور گرو گرنتھ صاحب جیسے مقدس کتابوں کی تعلیمات شامل کرنی چاہیے کیونکہ یہ کتابیں انسانیت، محبت اور عدل کا پیغام دیتی ہیں۔ گیتا کروڑوں ہندوؤں کی مقدس کتاب ہے جس کا احترام سب کرتے ہیں مگر تعلیمی اداروں میں ایک مذہب کی کتاب پڑھانا آئینی غیر جانبداری کی خلاف ورزی ہے۔ آئین ہند کا آرٹیکل اٹھائیس ریاست کو مذہبی تعلیم دینے سے منع کرتا ہے سوائے اس کے کہ ادارہ مذہبی ہو۔ اگر ہم اخلاقی تعلیم چاہتے ہیں تو سبھی مذاہب کو مساوی درجہ دے کر ان کی اقدار کو بھی شامل کرنا ہوگا۔ موجودہ حکومت کے اقدامات اکثر یہ تاثر مضبوط کرتے ہیں کہ وہ ایک خاص مذہب کو دیگر مذاہب پر فوقیت دینا چاہتی ہے۔ یہ رجحان بی جے پی کے نچلی سطح پر کارکنان کے رویوں میں جھلکتا ہے جہاں مقامی افراد اکثریتی جذبات کو بھڑکا کر سیاسی فائدہ اٹھاتے ہیں جو جمہوری اخلاقیات اور مذہبی مساوات کے منافی ہے۔ یہ عمل نہ صرف فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دیتا ہے بلکہ آئین کی روح کے بھی خلاف ہے۔ اگر سیاست کے نام پر تاریخ میں تحریف کی گئی تو قوم کے ذہنوں میں نفرت کے بیج بوئے جائیں گے جن کا خمیازہ برسوں تک بھگتا ہوگا۔ بہتر یہی ہے کہ تعلیمی نظام کو سیاست کا میدان نہ بنایا جائے۔ سیکولرزم بھارت کے آئینی ڈھانچے کا ستون ہے۔ ہر منتخب نمائندہ، ہر وزیر اور ہر سرکاری افسر آئین کی پاسداری کا حلف اٹھاتا ہے۔ اس کے باوجود اگر انہی اداروں کے ذریعے سیکولر اصولوں کی پامالی ہو رہی ہو تو یہ نہ صرف حلف شکنی ہے بلکہ ایک ایسے جمہوری ملک کے ساتھ غداری بھی جس کی بنیاد مذہبی رواداری پر رکھی گئی تھی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کچھ حلقے اکثریتی ووٹ بینک کو خوش کرنے کے لئے تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہے ہیں۔ آج اگر اکبر کو ولن بنایا جا رہا ہے تو کل شاید اشوک یا بہادر شاہ ظفر کو بھی متنازعہ قرار دیا جائے۔ یہ رجحان نہ رُکے گا نہ تھمے گا جب تک اسے آئینی مزاحمت کا سامنا نہ ہو۔ ملک کے ہر باشعور شہری، مؤرخ، ماہر تعلیم اور آئینی محافظ کو اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ تاریخ کو مذہب کی عینک سے دیکھنا اور پڑھانا ہمارے تعلیمی اور سماجی ڈھانچے کے لئے زہر قاتل ہے۔ سیکولرزم صرف ایک سیاسی نعرہ نہیں بلکہ یہ ہماری اجتماعی شناخت اور گنگا جمنی تہذیب کا بنیادی وصف ہے۔ ایسے میں غیر جانبدار علمی مباحث اور تحقیق کو فروغ دینا نا گزیر ہے۔ اگر حکومت واقعی قومی مفاد میں کام کرنا چاہتی ہے تو تاریخ کو اس کے تناظر میں رہنے دے اسے اقتدار کی مہم کے تابع نہ بنائے۔ ورنہ ہم ایک ایسے اندھیر نگر کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں روشنی پر پہرے ہوں گے اور آئینہ دکھانا جرم ہوگا اور نئی نسل کس زہریلے ذہن کے ساتھ دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ پیش آئے گی اس کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ ملک جو اپنی رواداری، عدم تشدد، ہم آہنگی، ملنساری اور باہمی میل جول کے لئے ساری دنیا میں انفرادی شناخت رکھتا ہے اس کی دنیا میں کیا شناخت بنے گی؟ آج کی دنیا گہری تحقیق کے بعد حقائق تک پہچنے کی طرف گامزن ہے لیکن آٹھویں کلاس میں پڑھائی جانے والی کتاب حقائق سے پرے ہوگی تو دنیا میں ہماری مذاق ہی بنے گی۔ این سی ای آرٹی کو چاہیے کہ ایسی کتاب وہ نئی نسل کے ہاتھوں میں نہ پہنچائے جس کو پڑھ کر دنیا ہماری ذہنی پسماندگی پر تبصرے کرے بلکہ اس طرح کے نصاب ترتیب دے کہ ترقی کرتی دنیا میں نئی نسل اپنی انفرادی شناخت قائم کرسکے۔

تحریر : (حافظ)افتخار احمد قادری، کریم گنج، پورن پور
iftikharahmadquadri@gmail.com

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے