سیاست و حالات حاضرہ

کرکٹروں کی بیف پارٹی پر سناٹا کیوں؟

تحریر: غلام مصطفےٰ نعیمی
مدیر اعلیٰ سواد اعظم دہلی

آپ کب کیا کھانا چاہتے ہیں یہ آپ کا نجی اور ذاتی معاملہ ہے۔ پوری دنیا میں اسے انسان کا بنیادی حق مانا گیا ہے لیکن ہمارے دیس میں کیا کھانا ہے یہ آپ نہیں حکومت طے کرتی ہے۔حکومت کی اسی نفرتی پالیسی کی وجہ سے گلی کوچوں میں نفرتی چِنٹُوؤں کی ٹولیاں بے موسم گھاس کی طرح اُگ آئی ہیں جو ہر کسی کے کھانے/دانے کو چیک کرتے گھومتے ہیں۔انہیں چند بھکتوں کے نشانے پر ان دنوں انڈین کرکٹ ٹیم کے نائب کپتان روہت شرما آگئے ہیں۔انڈین کرکٹ ٹیم ان دنوں آسٹریلیائی ٹور پر ہے۔جہاں کورونا پابندیوں کے درمیان کرکٹ کھیلی جارہی ہے۔اس درمیان ٹیم کے پانچ کھلاڑی کورونا پروٹوکول کے خلاف ایک ہوٹل میں کھانا کھاتے نظر آئے۔ان کی بدقسمتی کہ ہوٹل کا بِل (Bill) وائرل ہوگیا۔بِل کے مطابق ان کھلاڑیوں نے بیف (گائے) اور خنزیر (pork) کا گوشت کھایا تھا۔خنزیر کے گوشت پر شاید بھکتوں کو اعتراض نہ ہوتا لیکن بیف کا نام آتے ہی کچھ پکے اندھ بھکتوں کا پارہ چڑھ گیا اور انہوں نے سوشل میڈیا پر ہی کھلاڑیوں کو کھری کھوٹی سنانا شروع کردی۔حالانکہ میڈیا اور سیاست دانوں نے اس معاملے کو ایسے ہضم کرلیا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔خدا نخواستہ اگر کوئی مسلم کھلاڑی بیف کھا لیتا تو اب تک میڈیا اور سیاست دان اس پر چڑھائی کر چکے ہوتے مگر یہاں بیف کھانے والوں میں اپنے ہی لوگ شامل تھے اس لیے ساری خبر کو بغیر پانی کے ہی گلے سے اتار لیا گیا۔

بھکت بننے کا ایک بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ آپ کا دل ودماغ دوسرے کے قبضے میں چلا جاتاہے اور آپ اپنے سوچنے سمجھنے کی طاقت کھو بیٹھتے ہیں۔اس کے بعد بھکت وہی دیکھتا ہے جو اس کا سوامی اور آقا اسے دکھانا چاہتا ہے۔ایسے ہی کچھ سوامیوں اور آقاؤں نے اپنے بھکتوں کے دماغ میں یہ بات بٹھا رکھی ہے کہ بھارت ایک شاکاہاری (سبزی خور) دیس ہے۔بس مسلمان ہی گوشت خور ہیں۔جبکہ حقیقت اس کے خلاف ہے۔سیمپل رجسٹریشن سسٹم بیس لائن سروے کے مطابق بھارت میں 71؍فیصد لوگ گوشت کھاتے ہیں۔حکومتی رپورٹ کے مطابق بھارت میں مسلمانوں کی کل آبادی 14.23؍ فیصد ہے۔اگر مسلمانوں کی کل آبادی کو گوشت خور مان لیا جائے تو باقی 85.77؍فیصد غیر مسلم آبادی بچتی ہے۔اس پچاسی فیصد آبادی میں 56.77؍ فیصد غیر مسلم آبادی گوشت خور ہے۔یعنی گوشت نہ کھانے والوں کی تعداد محض 29؍ فیصدہے۔کس صوبے میں کتنے فیصد لوگ گوشت کھاتے ہیں اس فہرست میں ملاحظہ کریں:
🔹آندھرا پردیش: 98.25
🔹تلنگانہ: 98.7
🔹تمل ناڈو: 97.65
🔹اڈیشہ: 97.35
🔹کیرل: 97
🔹بہار: 92.45
🔹چھتیس گڑھ: 82.05
🔹بنگال: 79.4
🔹آسام: 79.4
🔹جھارکھنڈ: 79.4
🔹کرناٹک: 78.9
🔹اتراکھنڈ: 72.65
🔹مہاراشٹر: 59.8
🔹دلّی: 60.5
🔹یوپی: 52.9
🔹ایم پی: 49.4
🔹گجرات: 39.05
🔹پنجاب: 33.25
🔹ہریانہ: 30.75

ان تمام صوبوں میں آسام، بنگال اور یوپی میں مسلم آبادی ۲۰؍تا ۳۰؍ فیصد ہے باقی دیگر صوبوں میں مسلم آبادی ۲؍ سے ۱۳؍ فیصد کے درمیان ہے لیکن ان صوبوں میں گوشت کھانے والوں کی تعداد ۳۰؍ فیصد سے ۹۸؍ فیصد تک ہے۔اب بھکت جَن سوچ کر بتائیں کہ مسلمانوں کے علاوہ اتنی بڑی غیر مسلم آبادی گوشت کیوں کھاتی ہے؟
گوشت کے نام پر مسلمانوں کے جان و مال لوٹنے والے بھکت، ٹی وی پر نوٹنکی کرنے والے اینکر اور گئو ماتا کی قسمیں کھانے والے نیتا کرکٹروں کی گوشت خوری پر کیوں خاموش ہیں؟

اسے ہمارے دیس کی بدقسمتی ہی کہا جائے گا کہ اکیسویں صدی میں بھی ہمارے یہاں کھانے پینے کی بنیاد پر نفرت اور سیاست کی جاتی ہے۔کھانا پینا ہر انسان کا بے حد نجی اور ذاتی معاملہ ہے لیکن مسلمانوں سے نفرت اور سیاسی نفع کے لالچ میں کھانے پینے کو بھی دشمنی نکالنے کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔حالیہ واقعہ سے یہ بات نہایت واضح طور پر ثابت ہوجاتی ہے کہ اس ملک کے غیر مسلم بھی اول درجے کے گوشت خور ہیں۔گودی میڈیا اوربھکتوں کو چاہیے کہ جس طرح مسلمانوں کے خلاف شور مچاتے ہیں ویسی ہی مہم دیگر گوشت خوروں کے خلاف بھی چلائیں، ورنہ اپنی آنکھوں سے بھکتی کا چشمہ اتار دیں اور ملکی امن وامان کو برباد نہ کریں۔

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے