ہندوستان کے پر آشوب ماحول اور ناگفتہ بہ حالات کا جائزہ لیجئے تو آپ کومعلوم ہو جائے گا کہ مسلمانوں کو اپنی زندگی بسر کرنا دوبھر ہو گیا ہے۔ ہر طرف ظلم و بربربیت کا بازار گرم دیکھائ دے رہا ہے۔ مذہب اسلام سے رشتہ رکھنے والے ہر انسان اپنی زندگی کی آخری سانس خوف وہراس کے عالم میں گزار رہا ہے۔ دل ڈر اور سہم سا گیا ہے قوم مسلم کو سماج میں بغض و کینہ اور حسدوجلن کی نگاہ سے دیکھنے لگے ہیں۔ غیر قوم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا اس ملک میں کوئی حق نہیں ہمیں امن و شانتی اور فرحت و شادمانی سے جینے کا حق نہیں
مسلمانوں کو کبھی گاؤں کشی کے نام پر لہو لہان کیا جارہا ہے تو کبھی چوری کے نام پر بد نام کرکے موت کے گھاٹ اتارا جارہا ہے۔ اگر کوئی مسلمان اپنے حق کے خاطر اپنی آواز کو بلند کرتا ہے تو اس کا گلا دبا کر اس کی آواز کو بند کردی جاتی ہے اگر ہہم گھر سے باہر نکلتے ہیں تو اپنی جان کو ہتھیلی پر لے کر نکلتے ہیں اور ہمیشہ خدشہ لگا رہتا ہے کہ زندگی کا یہ آخری دن ہے اس وطن عزیز میں اب ایک خونی روایت کا جنم ہو رہا ہے۔ انسانی شکل میں وحشی درندے دندناتے پھر رہے ہیں جو بے قصودر مسلمانوں پر ظلم وتشدد کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ برسوں سے مسلمانوں کے خلاف غیر قوم کے دلوں میں نفرت کی جو بیج بوئ گئ تھی وه اب تناور درخت بن گیا ہے۔ خون ریزی اور شر انگیزی چنگاری کی طرح تیزی کے ساتھ ہمارے گرد ونوا میں پھیل رہے ہیں۔ ایسے سنگین حالات میں مسلمانوں کا کوئی پرسان حال نہیں اور ناکردہ گناہوں کا بوجھ اٹھائے پھر رہے ہیں۔جے شری رام کا نعره نہ لگانے پر موت کا منھ دیھکنا پڑ رہا ہے۔ آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سونچیےیہ کہاں کا نیائےہے اگر حالات اسی طرح نا سازگار رہے تو انسانیت کا کیا حشر ہوگااس کا اندازہ آپ اپنے صوابدید کے مطابق لگا سکتے ہیں۔ جب تک حکومت کمر بستہ نہ ہوگی تب تک ایسے ہی بے گناہوں کی جانیں شر پسندوں کے ہاتھوں ضائع ہوتی رہیں گی۔ ایسے دلخراش حالات کو دیکھ کر خون کے آنسو رونا آتا ہے۔
ازقلم: محمد آفتاب عالم مصباحی، سیتامڑھی ،استاذ دار العلوم فیضِ عام اناؤ