بیسویں صدی کے آغاز میں جدید دنیا نے پہلی خوفناک اور تباہ کن جنگ عظیم دیکھی جو 1914ءسے 1918ء تک چار سال تک جاری رہی۔اس جنگ میں مہلک جنگی ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا جس سے لاکھوں لوگ مارے گئے اور اتنی ہی تعداد میں لوگ زخمی اور معذور ہویے،اتنے بڑے پیمانے پر موت اور تباہی نے جنگجوں قوموں کو حقیقی معنوں میں بیدار کیا اور انہیں احساس دلایا کہ مستقبل میں جنگ سے پرہیز کیا جائے۔ بین الاقوامی مسائل اور تنازعات جو جنگ کو اکسانے والے محرکات اور عوامل ہوتے ہیں انہیں امن اور بات چیت کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے،ایک ایسا بین الاقوامی ادارہ ہونا چاہیے جو بیٹھ کر اقوام کے درمیان اختلافی مسائل اور تنازعات کا پرامن حل کرے اور دنیا میں امن اور خوشحالی کے لیے کوشش کرے۔ اسی خیال کو ذہن میں رکھتے ہوئے جمعیت اقوام (League of Nations) کو وجود میں لایا گیا۔
اگرچہ جمعیت اقوام کا قیام عمل میں لایا گیا لیکن یہ اپنے مقاصد اور عزائم کو پورا نہیں کر سکی جن کے لیے یہ قائم کی گئی تھی۔ یہ بین الاقوامی تنازعات اور مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی اور اس لیے یہ دنیا میں امن قائم نہیں کر سکی۔ جمعیت اقوام کے قیام کے صرف دو دہائیوں بعد سنہ 1939 میں ایک اور عظیم جنگ کا آغاز ہو گیا جسے دوسری جنگ عظیم (Great War II) کے نام سے جانا جاتا ہے۔
جمعیت اقوام کی سب سے نمایاں کمزوری یہ تھی کہ جب دو چھوٹے ملکوں کے درمیان تنازعہ کھڑا ہو جاتا تھا تو اس نے معاشی پابندیوں اور فوجی کارروائی کی دھمکی اور تنبیہ کے ساتھ تنازعہ کو فوری طور پر حل کر دیتا تھا لیکن جب دو مضبوط ملکیں کسی علاقائی تنازعہ پر جھگڑ پڑتی ہیں یا کسی ملک نے کسی دوسرے ملک کی زمین کے ٹکڑے پر قبضہ کر لیتا تو جمعیت اقوام اتنی فعال نہیں ہو تی جتنی کمزور ملکوں کے معاملے میں تھی۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد جرمنی اور جاپان جیسے ملک کی علاقائی توسیع اور الحاق کا لالچ ختم نہیں ہوا۔ چین کا شمال مشرقی صوبہ منچوریا (Manchuria) تیل،لکڑی اور ربڑ کے ساتھ ساتھ معدنی وسائل سے مالا مال تھا،دوسری طرف جاپان کے پاس اپنی صنعت چلانے کے لیے خام مال اور قدرتی وسائل کی کمی تھی۔اس لیے جاپان چین کے قدرتی وسائل پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ علاوہ ازیں وہ چین میں کمیونزم (communism) کے فروغ کو بھی روکنا چاہتا تھا۔ اس لیے جاپان نے سنہ 1931 میں منچوریا پر حملہ کیا۔چین جو اس وقت ایک کمزور ملک تھا اس بار جمعیت اقوام سے مدد کی اپیل کی۔ اس کے بعد جمعیت اقوام نے 1932 میں لٹن کمیشن (Lytton Commission) کا تقرر کیا جس نے تجویز پیش کی کہ جاپان کو منچوریا سے دستبردار ہونا چاہیے اور منچوریا کی چینی خودمختاری کو تسلیم کرنا چاہیے۔ جاپان نے اس تجویز کو مسترد کر دیا اور 1933ء میں جمعیت سے علیحدگی اختیار کر لی۔ جمعیت اقوام کو نظر انداز کرتے ہوئے جاپان نے 1935ء میں بیجنگ سمیت چین کے ایک بڑے حصے کو فتح کر لیا۔ جمعیت اقوام نے جاپان کی جارحیت اور پرتشدد رویوں پر تنقید تو کی لیکن جاپان کی مسلح توسیع پسندی کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔
دوسرے یورپی ممالک کی طرح اٹلی کی بھی افریقہ میں کالونیاں (colonies) تھیں۔افریقہ کے مشرق میں اٹلی کی کالونیاں صومالیہ (Somalia) اور اریٹیریا (Eritrea) تھیں لیکن وہ قدرتی وسائل سے اتنے لبریز نہیں تھے جتنے دوسرے تھے۔ چنانچہ اٹلی نے حبشہ (جدید ایتھوپیا) پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اٹلی نے سنہ 1935 میں حبشہ (Abyssinia) پر حملہ کیا۔ جب حبشہ نے جمعیت اقوام سے مدد کی اپیل کی تو جمعیت نے اٹلی کی مذمت کی اور اس پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں لیکن اس کے باوجود اٹلی نے حبشہ کو فتح کر لیا۔ اس کے بعد تمام چھوٹی ریاستوں کا جمعیت سے اعتماد اٹھ گیا۔ 1935 کے بعد جمعیت اقوام کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ جب جارح ریاستوں جیسے جاپان، اٹلی اور جرمنی نے چھوٹے ممالک پر حملہ کیا تو جمعیت ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے لیے تیار نہیں تھی اس طرح جمعیت اقوام ایک ناکام بین الاقوامی ادارہ بن کر رہ گیا۔ جمعیت اقوام کے دو اہم ممالک برطانیہ اور فرانس تھے لیکن وہ بھی پہلی جنگ عظیم میں کمزور ہو چکے تھے اور وہ جاپان اٹلی اور جرمنی جیسی یورپی بڑی طاقتوں کے خلاف کوئی فوجی کارروائی کرنے سے خوفزدہ تھے۔ چنانچہ برطانیہ اور فرانس نے خوشامد کی پالیسی (policy of appeasement) اپنائی۔ جرمنی کے ہٹلر کو جمعیت اقوام کی واضح کمزوری دکھائی دی اور اس نے ورسائی کے معاہدے (Treat of Versailles) کی خلاف ورزی کی جسے ہٹلر نے جرمنی کے لیے غیر عادلانہ اور غیر منصفانہ سمجھتا تھا۔ اس کے بعد ہٹلر کے مقاصد اور عزائم بلند ہو گئے۔اس نے دوسری جنگ عظیم کے دوران اپنے کھوئے ہوئے تمام علاقوں کو واپس لینے کا فیصلہ کیا۔ اس نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ تمام جرمن لوگوں کو جرمن Reich یا سلطنت میں بسایا جایے۔ اس لیے ہٹلر نے ان تمام علاقوں کو فتح کرنے کا منصوبہ کیا جہاں جہاں جرمن آبادی تھی۔ ایک بڑی جرمن آبادی کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے جرمنی کا موجودہ سائز کافی نہیں تھا اور اس لیے اس نے اس مقصد کے لیے مزید علاقوں کو فتح کرنے کا عزم کیا۔ اب ہٹلر نے اپنے مقاصد اور عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جارحیت کی پالیسی پر عمل کیا۔ مارچ 1936 جرمن فوج نے دریائے رائن کے کنارے واقع رائن لینڈ (Rhineland) پر قبضہ کر لیا اور فرانس نے کسی قسم کی مزاحمت نہیں کی۔ ہٹلر چیکوسلواکیہ (Czechoslovakia) کے سوڈیٹن لینڈ (Sudetenland) پر قبضہ کرنا چاہتا تھا، جو زیادہ تر جرمنوں کی آبادی والا تھا۔ ستمبر 1938 میں میونخ معاہدہ (Munich pact) ہوا جس میں برطانیہ، فرانس اور اٹلی نے سوڈیٹن لینڈ کو جرمنی کے حوالے کرنے پر اتفاق کیا۔ برطانیہ اور فرانس نے چیک حکومت پر زور دیا کہ وہ میونخ معاہدے کی تجاویز کو قبول کرے۔ انکار کی صورت میں اسے برطانیہ اور فرانس سے کوئی مدد نہیں ملے گی۔ چیک کو میونخ معاہدے کی شرائط کو تسلیم کرنا پڑا۔اس نے دکھایا کہ کس طرح جمعیت اقوام کے برطانیہ اور فرانس کے ارکان نے ہٹلر کی خواہشات کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ہٹلر کی پیاس نہ بجھی۔ سنہ 1939 میں جرمن نازی فوجیوں نے چیک سرزمین کے بڑے حصے بشمول بوہیمیا (Bohemia) اور موراویا ( Moravia) پر قبضہ کر لیا۔ برطانیہ اور فرانس نے جرمنی کی جارحیت اور توسیعی کارروائیوں کے خلاف کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا۔
1939 میں ہٹلر نے حملہ کر کے جرمن آبادی والے لتھوانیا (Lithuania) پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد ہٹلر نے پولینڈ کو الحاق کے لیے نظریں جمائیں۔ ہٹلر پولش کوریڈور (Polish Corridor) اور بندرگاہی شہر ڈانزگ (Danzig) بھی چاہتا تھا تاکہ سرزمین جرمنی کو مشرقی پرشیا (Prussia) سے ملایا جا سکے۔Danzig پہلے سے ہی ایک بین الاقوامی آزاد شہر تھا. جرمنی کی جارحیت روکنے کے بجائے برطانیہ نے پولینڈ پر دباؤ ڈالا کہ ڈینزگ کو جرمنی کے حوالے کر دے لیکن پولینڈ نے انکار کر دیا۔ اسی دوران جرمنی نے روس کے ساتھ ایک غیر جارحیت کے معاہدے ( non aggression pact ) پر دستخط کیے اور دونوں ممالک نے پولینڈ کو اپنے درمیان تقسیم کرنے پر اتفاق کیا۔ ستمبر 1939 کے پہلے دن جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا اور روس نے بھی مشرق سے پولینڈ پر حملہ کر دیا۔ پولینڈ جرمنی اور روس کے درمیان تقسیم ہو گیا .مغربی پولینڈ جرمنی نے لے لیا اور مشرقی پولینڈ روس نے لے لیا. اس کے بعد جرمنی نے یکے بعد دیگرے کئی ممالک پر قبضہ کر لیا۔ اپریل 1940 میں جرمنی نے Baltic sea کے ساحلی ممالک ڈنمارک اور ناروے پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا، اگلے مہینے ہالینڈ اور بیلجیم دونوں نے جرمن فوجیوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ اس کے بعد مئی سے جون 1940 تک جرمنی نے شمالی اور جنوبی فرانس دونوں پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا۔ فرانس نے باضابطہ طور پر 22 جون کو جرمنی کے سامنے ہتھیار ڈال دیا۔ جمعیت اقوام مکمل طور پر ناکام ہو چکا تھا۔ ۔ فرانس کی کامیاب فتح کے بعد سنہ 1940 میں جرمنی برطانیہ کے ساتھ جنگ میں مصروف ہو گیا لیکن جرمنی کو برطانیہ کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
اس کے بعد سنہ 1941 میں جرمنی نے روس کے خلاف آپریشن بارباروسا (Operation Barbarossa) شروع کیا ۔ جرمنی نے روس کے ساتھ عدم جارحیت کا معاہدہ توڑ کر روس پر حملے شروع کر دئیے۔ جرمنی کی یہ بہت بڑی غلطی تھی۔ یہ حملے تین سمتوں کے طرف تھا – شمال میں یہ لینن گراڈ کی طرف تھا جسے اب سینٹ پیٹرزبرگ کہا جاتا ہے، وسط میں ماسکو کی طرف تھا اور جنوب میں یوکرین کی طرف تھا۔ یہ حملہ روس سے کمیونزم کو ختم کرنے اور مزید روسی علاقوں کو جرمنی سے جوڑنے کے لیے کیا گیا تھا۔ لیکن روس کے موسمی حالات اور انتہائی سرد موسم نے جرمن فوجیوں کو آگے بڑھنے اور لڑنے سے روک دیا۔ ہٹلر کو مہم ختم کرنا پڑا۔
دوسری عالمی جنگ میں امریکہ نے حصہ نہیں لیا لیکن وہ اتحادی ممالک یعنی برطانیہ، فرانس اور چین کو پیسے دے کر اور خوراک، تیل اور جنگی سامان فراہم کرکے مدد کر رہا تھا۔ امریکہ نے جاپان کے خلاف جدید جنگی ساز و سامان کے ساتھ چین کی مدد کی۔امریکہ جنوب مشرقی ایشیا (South East Asia) میں جاپان کی توسیع کو روکنا چاہتا تھا اور اس لیے اس نے جاپان کو تیل کی سپلائی پر پابندی لگا دی۔ اس کے ردعمل میں 7 دسمبر 1941 کو جاپان نے پرل ہاربر (Pearl Harbour) پر حملہ کر کے امریکی بحری جہازوں، جنگی جہازوں، ہوائی جہازوں کو تباہ کیا اور امریکیوں کو ہلاک کر دیا۔ اس واقعے کے بعد امریکہ نے دوسری عالمی جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا ۔ اس واقعہ سے پہلے امریکہ ایک غیر جانبدار قوم کے طور پر کام کر رہا تھا۔ مئی 1942 تک جنوب مشرقی ایشیا کے تقریباً تمام بحرالکاہل جزائر کو جاپان اپنے کنٹرول میں لے چکا تھا۔ جاپان نے سنگاپور، ملائیشیا میانمار انڈونیشیا، فلپائن اور دیگر جزیروں پر قبضہ کر لیا۔ اس طرح جاپان تیل کی سپلائی پر امریکی پابندی کی تلافی کے لیے جنوب مشرقی ایشیا کے قیمتی تیل کے وسائل پر کنٹرول حاصل کرلیا ۔جاپان کو شکست دینے کے لیے امریکہ نے جزیرہ ہاپنگ کی پالیسی (Policy of island Hopping) اپنائی۔اس کے ذریعے امریکہ نے ایک جزیرے پر قبضہ کرکے وہاں فوجی اڈہ قائم کیا اور اسے دوسرے جزیرے پر قبضہ کرنے کے لیے لانچنگ پوائنٹ کے طور پر استعمال کیا۔اس پالیسی سے امریکہ کے لیے اچھے نتائج برآمد ہوئے اور اس نے کامیابی کے ساتھ بحرالکاہل کے جزائر جاپان کے ہاتھوں سے چھڑا لیے۔اس طرح امریکا ان بحرالکاہل جزائر کی آزادی کا سبب بنا۔
1944ء میں اتحادی افواج زیادہ تر برطانوی اور امریکیوں نے پورے فرانس کو جرمنی سے آزاد کرایا۔ اس کے بعد بیلجیئم کو جرمنی سے آزاد کرا دیا گیا۔ جنوری 1945ء میں جرمنی کو مشرق میں روس اور مغرب میں برطانیہ اور امریکہ کی مشترکہ افواج کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ ہٹلر نے 30 اپریل 1945ء کو خودکشی کی اور اس کے بعد جرمنی نے 7 مئی 1945ء کو ہتھیار ڈال دیے۔جرمنی کے زوال کے بعد 6 اگست کو امریکہ نے جاپان کے ہیروشیما پر بمباری کی اور تین دن بعد 9 اگست کو ناگاساکی پر بمباری کی۔ان واقعات کے بعد جاپان امریکہ کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گیا اور اسی کے ساتھ دوسری جنگ عظیم ختم ہویی۔
دوسری عالمی جنگ کے بہت سے نتائج برآمد ہوئے۔ اس کے نتائج میں سے ایک اقوام متحدہ کی تنظیم کا قیام ہے۔ یہ باضابطہ طور پر 24 اکتوبر 1945ء کو وجود میں آیا۔UNO کے مقاصد ہیں:(1)بین الاقوامی امن و سلامتی کو برقرار رکھنا۔(2) اقوام کے درمیان مساوات اور خود ارادیت کے اصول کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات استوار کرنا.(3)دنیا کے لوگوں کے لیے انسانی حقوق اور آزادی کو فروغ دینا۔اقوام متحدہ کا سب سے اہم اور موثر ادارہ سلامتی کونسل ہے۔ اس کے پانچ مستقل ارکان ہیں یعنی برطانیہ، فرانس، روس، چین اور امریکہ۔ ہر مستقل رکن کے پاس کسی فیصلے کو ویٹو کرنے کا اختیار ہے، یعنی کسی قرارداد کو مسترد کرنے کا اختیار۔ سلامتی کونسل کے اختیارات: یہ بین الاقوامی تنازعات کو حل کرتی ہے اور دنیا میں بین الاقوامی امن و سلامتی کو برقرار رکھتی ہے۔ یہ کسی جارح پر اقتصادی پابندیاں عائد کر سکتی ہے اور ضرورت پڑنے پر جارح کے خلاف فوجی کارروائی کر سکتی ہے۔
اقوام متحدہ کا قیام اس لیے ہوا کہ جمعیت اقوام غیر فعال اور غیر موثر ہو چکی تھی، یہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی، لیکن اقوام متحدہ کے قیام کے بعد اقوام متحدہ نے بھی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے زیادہ ترقی نہیں کی۔ یہ جنگوں کو ختم کرنے میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ چھوٹے پیمانے پر 1945 کے بعد سے پوری دنیا میں بہت سی جنگیں لڑی جا چکی ہیں۔ مستقل ارکان سمیت بہت سے ممالک کے پاس جوہری بم ہیں۔اقوام متحدہ جوہری ریاستوں کو جوہری ہتھیاروں کو بنانے سے نہیں روک سکی ہے۔ اقوام متحدہ کچھ ممالک کو ایٹمی بم بنانے کی اجازت دیتا ہے اور دوسروں کو ایسا کرنے سے روکتا ہے۔ یہ سراسر ناانصافی ہے۔ غیر مقاتلین کے خلاف مہلک ہتھیاروں کے استعمال پر پابندی ہونی چاہیے ۔ اقوام متحدہ عشروں پرانے اسرائیل فلسطین تنازعہ کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ وہ اسرائیل کو فلسطین کے مقبوضہ علاقوں کو فلسطینیوں کے حوالے کرنے پر مجبور نہیں کر سکا۔حالیہ دنوں میں اقوام متحدہ اسرائیلی افواج کے ہاتھوں فلسطینیوں کے قتل عام کو نہیں روک سکی۔عالمی عدالت انصاف جو کہ اقوام متحدہ کا ایک ادارہ ہے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو جنگی مجرم قرار دینے میں ناکام رہی ہے۔اقوام متحدہ روس کو یوکرین پر حملہ کرنے سے روکنے میں ناکام رہا ہے۔ مختصر یہ کہ اقوام متحدہ کم و بیش جمعیت اقوام جیسا ادارہ بن چکا ہے۔
تحریر: ریاض فردوسی، 9968012976