تعلیم نسواں کی اہمیت و ضرورت آج کے دور میں کسی سے مخفی نہیں ہے تعلیم نسواں کے لفظ پر اگر غور کیا جائے تو اس میں بہت ساری چیزیں چھپی ہوئی ہیں اور تعلیم ایک ایسا عمل ہے جس سے نسلا بعد نسل اپنی معلومات تہذیبی اور تمدنی وغیرہ ورثہ آنے والی قوموں اور نسلوں کو منتقل کرتی ہے اور علم دین حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے اور تعلیم نسواں ایک ایسا موضوع ہے جی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے اور جس کی افادیت پر اہل قلم وقتہ فوقتاً کچھ نہ کچھ ضرور۔ لکھتے رہتے ہیں اور جب جس قوم کی مائیں پڑھی لکھی ہوں تعلیم سے آراستہ ہوں تو اس قوم کے بچے تعلیمی میدان کے شہسوار ہوا کرتے ہیں۔
اسی نظریے کو مد نظر رکھ کر وقت و حالات کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے محب قوم و ملت پیکر اخلاص ومحبت خلیفہ سرکار تاج الشریعہ علیہ الرحمہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد غفران رضا قادری نے تعلیم نسواں کے لیے ایک تعلیم نسواں کا ایک عظیم قلعہ بنام جامعہ خوشتر رضائے فاطمہ قصبہ سوار ضلع رامپور کی بنیاد رکھی تھی جو بحمداللہ تعالی خواتین اسلام کے لیے یہ عظیم قلعہ نہایت نفع بخش ثابت ہوا جس میں درس و تدریس کے لیے تجربہ کار با صلاحیت معلمات و معلم کی خدمات و محبت شاقہ کی وجہ سے علمی گلشن اور اور خواتین اسلام کی تعلیم و تربیت کے اس عظیم گلشن کے ہریالی میں اضافہ ہوا
اور جامعہ کے بنیاد سے لیکر اب تک تعلیم و تربیت کا کام بہت ہی تیزی کے ساتھ الھمد للہ کام چل رہا ہے
اور اب تک متعدد طالبات سند فضیلت و قرات جامعہ ہذا سے حاصل کر چکی ہیں اور جہاں تعلیم پر پوری توجہ دلائی جاتی ہے وہیں ساتھ ہی ساتھ تربیت کے ماہ نجوم بھی مکمل شان و شوکت کے ساتھ جگمگا رہے ہیں
رب قدیر کی بار گاہ میں دعا ہیکہ مولی تعلیم دین و سنیت کے اس عظیم قلعہ کو مزید ترقیوں سے ہمکنار فرمائے آمین یارب العالمین بجاہ سید المرسلین ﷺ
ازقلم: انیس الرحمن حنفی رضوی، بہرائچ شریف، خادم جامعہ ہذا