دنیا میں جی سکوں گا کیا میں خوشی کے ساتھ
دشمن جو لگ گئے ہیں میری زندگی کے ساتھ
ایسا نہ تھا کبھی جو میرا حال آج ہے
میں جی رہا تھا یار بڑی سادگی کے ساتھ
دل میں ہزار حسرتیں ہیں سوچتا ہوں میں
کیسے کٹے گی عمر میری مفلسی کے ساتھ
وعدہ تھا جس کا ساتھ نبھائے گا عمر بھر
ملتا ہے آج کل وہ بہت بے رخی کے ساتھ
جس نے کبھی خلوص سے باتیں ہی نہیں کی
رہنا بھی کون چاہے گا اس آدمی کے ساتھ
روشن اس انجمن میں ہیں کچھ شاندار لوگ
جو سن رہے ہیں مجھ کو بھی زندہ دلی کے ساتھ
افروز روشن کچھوچھوی