غزل

غزل: کیسے کٹے گی عمر میری مفلسی کے ساتھ

دنیا میں جی سکوں گا کیا میں خوشی کے ساتھ
دشمن جو لگ گئے ہیں میری زندگی کے ساتھ

ایسا نہ تھا کبھی جو میرا حال آج ہے
میں جی رہا تھا یار بڑی سادگی کے ساتھ

دل میں ہزار حسرتیں ہیں سوچتا ہوں میں
کیسے کٹے گی عمر میری مفلسی کے ساتھ

وعدہ تھا جس کا ساتھ نبھائے گا عمر بھر
ملتا ہے آج کل وہ بہت بے رخی کے ساتھ

جس نے کبھی خلوص سے باتیں ہی نہیں کی
رہنا بھی کون چاہے گا اس آدمی کے ساتھ

روشن اس انجمن میں ہیں کچھ شاندار لوگ
جو سن رہے ہیں مجھ کو بھی زندہ دلی کے ساتھ

افروز روشن کچھوچھوی

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے