اچانک سے ہوا کا ایک جھونکا جانے کس سمت سے اٹھا اور یکلخت طوفان کی شکل اختیار کرگیا۔ لوگ ہواس باختہ اور جان حلق میں لئے جائے پناہ کی تلاش میں نکل پڑے۔ سب کو اپنی پڑی تھی۔ کوئی کسی کا پرسانِ حال نہیں ہونٹوں پر "جان بچی تو لاکھوں پائے” کی صدائیں اور ہائے ہائے کے شور شرابے۔ سماعت سے ٹکراتے کرخت لہجے اور بچوں کے بلک، بلک رونے کی آوازیں ذہن تک رسائی حاصل کر ذہن کو ماؤف کرنے کو بس تھیں۔
در اصل وہ آندھی ظلم کی آندھی تھی جو طوفانِ نوح اور گرجتے کڑکتے آسمان سے اترنے والے عذاب کی طرح ان نادار مظلوموں پر مسلط ہوگئی۔ بیچارے زمانے کے ستائے جاتے بھی تو کہاں جاتے؟؟؟
جی ہاں بالکل میں قدس فلسطین اور غزہ کی بات کر رہا ہوں۔ فضا سوگوار، چاروں طرف بم، بارود اور مہلک ہتھیاروں کے استعمال سے لوگوں کا خون ناحق۔ آسمان حیرت زدہ ہے۔ اور زمین بچوں، بوڑھوں، نوجوانوں، مردود اور عورتوں کے لہو سے لالہ زار ہے۔ خلا میں پھیلی خون کی بو اور ہر سمت شہداء کٹی پھٹی لاشوں کی ڈھیر۔ دفن کرنے کو بھی مہلت نہیں کہ ڈھنگ کی قبر تیار کی جائے۔ کئیوں کو تو ایک ہی قبر میں تہہ بہ تہہ دفن کر دیا۔
کوئی تعزیت نہ کوئی پرسان جب بھی لبوں پر مسکان لبیک یا اقصی کے فلک شگاف نعرے۔ خاندان کے خاندان کو موت کے گھاٹ اتار کر بد بختوں نے اپنی شقاوت اور بے سر و سمانی کے عالم میں بھی علمِ جہاد کی علمبرداری کرنے والے سعادت مندوں نے اپنی حب اسلام کا بھر پور مظاہرہ کیا۔ حد تو یہ ہے کہ بے سر و سامانیوں کے اس عالم میں بھی دنیا کے سوپر پاور امریکا اور عزرائیل جیسے شدت پسندوں کو بھی ناکوں چنے چبانے پر مجبور کردیا۔ جان ہتھیلی پر لئے سر پر کفن باندھے باطل کے سامنے کود پڑے۔ یہ منظر دیکھ حبیب جالب کے انقلابی شاعری کے پانچ مصرعے یاد آرہے ہیں۔۔۔ !!!
میں بھی خائف نہیں تختۂ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
آج تقریبا سوا سال ہونے کو آگئے بم باری جاری و ساری ہے۔ ظلم کا ہر طرف بسیرا، بربریت کا دور دورہ ہے۔ شدت و انا اور شر پسندی نے پورے فلسطین کی کائنات جو کو مسموم و مکدور کر کے رکھ دیا ہے۔ آہ و بکا، چینخ و پکار، رونے اور بلکنے کی صدائیں دل دہلا دینے والے سانحات بھی پیشِ دید رہے۔ پھر بھی "لا الہ الا اللہ” لبوں پر جاری اور دلوں میں اب ایمان کا نور باقی ہے۔
حیرت تو مجھے ان حکومتوں پر ہوتی ہے جو خود کو اسلامی حکومت کہتی ہیں۔ جو خود کو طارق بن زیاد، محمد بن قاسم، صلاح الدین ایوبی کی وارث کہہ کر ان پاک باز ہستیوں کی روحوں کو تکلیف اور ایذا پہچاتی ہیں۔ ہائے رے ایمان کے سوداگر جب اپنا ہی سکہ کھوٹا ہو تو دوسروں سے کیا گلہ کرنا۔ ایسے مصلحت پسندوں کی خاطر بھی پانچ مصرعے۔۔۔۔۔ !!!
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
جاری۔۔۔۔۔ !!!
راقم الحروف: محمد اختر رضا امجدی
متعلم جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی مئو