تحریر: غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی
دو تین دن سے سوشل میڈیا پر ایک مولوی کی پوجا والی ویڈیو وائرل ہے۔لوگوں کو حیرت ہے کہ ایک اعلی تعلیم یافتہ شخص کس طرح مرتد ہو سکتا ہے؟
جواب بے حد سادہ ہے، عالم ہو یا جاہل، جب دنیا ہی انسان کا پہلا اور آخری مقصد بن جائے تو انسان کسی بھی حد کو پار کر سکتا ہے، چاہے غیرت وخود دوری ہو یا دین وایمان!
دولت و شہرت کے لیے غیرت وایمان کا سودا عرصہ دراز سے چلا آرہا ہے۔اب تک اس کھیل میں سیاست دان اور فلمی افراد ہی نظر آتے تھے لیکن اب مذہبی پہچان رکھنے والے لوگ بھی اس میدان میں قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔حالیہ ویڈیو اسی بیمار ذہنیت کا ایک نمونہ بھر ہے، ورنہ ہمارے درمیان ایسے کتنے ہی لوگ موجود ہیں جو بس موقع ملنے کی تاک میں بیٹھے ہیں، جیسے ہی موقع ملا ایسے کتنے ہی ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کرتے نظر آئیں گے۔
اسباب کیا ہیں؟
ارتداد کے بنیادی اسباب میں لالچ اور خوف سب سے اہم ہیں۔موجودہ دور میں بھی یہی دو اسباب سب سے اہم نظر آتے ہیں لیکن ماضی اور حال کے ارتدادی واقعات میں بنیادی فرق ان ذرائع اور مقامات کا ہے جن کو سہارا بنا کر ارتداد کو مضبوطی سے پھل پھولنے کا موقع مل رہا ہے۔موجودہ دور کے ان ذرائع کی مختصر فہرست کچھ اس طرح ہے:
1۔سنیما
2۔سیاست
3۔میڈیا
4۔خانقاہ
مذکورہ ذرائع اور مقامات سے وابستہ افراد ارتداد کو سافٹ اور پر کشش انداز میں پیش کرتے ہیں۔جس کے باعث عام لوگ ارتداد کو نارمل سا عمل سمجھنے لگتے ہیں۔وقت کے ساتھ بڑھتی قربتیں، قربتوں کے بدلے ملتے انعامات مزید ہمت بندھاتے ہیں اس طرح انسان آہستہ آہستہ پورے طور پر ارتداد کے پنجوں میں پھنس جاتا ہے۔طرفہ تماشا یہ کہ اپنے پھنس جانے پر انہیں افسوس نہیں خوشی کا احساس ہوتا ہے:
ظالم تھا وہ اور ظلم کی عادت بھی بہت تھی
مجبور تھے ہم، اس سے محبت بھی بہت تھی
سنیما سرے ہی سے مذہب مخالف انڈسٹری ہے۔مذہبی غیرت قربان کیے بغیر یہاں داخلہ ممکن ہی نہیں ہے۔پہلے مرحلے میں خاندانی غیرت اور کامیابی کے لیے مذہبی غیرت کی قربانی بنیادی شرط ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہاں آکر اداکار یوسف خان کو دلیپ کمار، اداکارہ مہ جبیں کو مینا کماری بننا پڑتا ہے، تو شاہ رخ وسلمان جیسے اداکار علانیہ بت پرستی کرتے نظر آتے ہیں۔
سیاست میں مذہبی پہچان کے ساتھ آگے بڑھنے میں بڑی مشکلات ہیں۔غیر مذہبی شخص کے مقابلے مذہبی انسان کو دس گنا زیادہ محنت اور پچاس گنا زیادہ مخالفت جھیلنا پڑتی ہے۔بیگانوں سے زیادہ اپنے اور مخالفین سے زیادہ حاسدین پریشان کرتے ہیں۔یہاں کامیابی اور حصول منصب کا مختصر اور آسان راستہ مذہبی تصلب کو چھوڑنا ہے۔مذہبی غیرت قربان والوں کو عہدہ ومناصب دئے جاتے ہیں۔جس کے لیے اچھے خاصے پڑھے لکھے اور باشعور انسان بھی غیرت دینی کو قربان کرنے میں جھجک محسوس نہیں کرتے۔سیاسی لیڈروں کی علانیہ بت پرستی کی کتنی ہی مثالیں ہمارے آس پاس موجود ہیں۔گذشتہ دنوں رام مندر افتتاح کے موقع پر کتنے ہی نام نہاد مسلمانوں نے علانیہ بت پرستی کی۔
میڈیا کا حال بھی سیاست ہی کی طرح ہے، جہاں مذہبی تصلب کو راہ کا روڑا اور ترقی میں رکاوٹ سمجھا جاتا ہے اور کچھ حد تک بنایا بھی جاتا ہے۔دولت وشہرت کے رسیا مذہب کا سودا کرکے ارتداد کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں۔جس کے نتیجے میں وقتی طور پر ہی سہی ان کی دنیوی خواہشیں ایک حد تک پوری ہوجاتی ہیں۔میڈیا کے دائرے میں مین اسٹریم میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا influencer بھی شامل ہیں، جو اپنے فالوورز/سبسکرائبر اور اشتہار دہندگان کی خوشی کے لیے کسی بھی حد تک جانے تیار رہتے ہیں۔یہی مزاج ایک دن انہیں دینی حمیت سے بھی خالی کر دیتا ہے۔
یوں کہہ لیں کہ سنیما پہلے ہی قدم پر مذہب کی قربانی مانگتا ہے جب کہ سیاست اور میڈیا میں مذہبی پختگی راستے کی رکاوٹ بنتی آئی ہے۔جلد باز اور لالچی لوگ زیادہ دیر تک خود کو روک نہیں پاتے اور نظریاتی طور پر گمراہی کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔
خانقاہی فتنہ
ہوسکتا ہے اس فہرست میں خانقاہ کا نام آپ کے لیے باعث حیرت ہو، لیکن حالت بتا رہے ہیں کہ مذہبی بے راہ روی میں دنیا پرست خانقاہیں بھی ایک مضبوط ذریعہ بنی ہوئی ہیں۔جس کا سہارا لیکر لوگوں کے دینی تصلب پر شب خون مارا جا رہا ہے۔صوفیانہ روا داری کے نام پر کفریہ رسم ورواج کو اپنایا جارہا ہے۔دشمنان دین کی عزت و پذیرائی کرکے دولت ومنصب حاصل کرنے کی ہوڑ سی لگی ہوئی ہے۔
🔹ملک میں کئی مقامات پر بزرگان دین کے نام پر مندر بنائے جا چکے ہیں، جہاں عقیدت کے نام پر کھلے عام شرک کیا جا رہا ہے۔ایک مندر تو خاص اسی شہر میں بنایا گیا ہے جہاں ان کا مزار پاک موجود ہے۔یوپی اور پنجاب میں کئی جگہ بزرگوں کے مجسمے رکھ کر انہیں کے نام کے مندر بنا لیے گیے ہیں۔
🔸کتنی ہی خانقاہوں میں پیروں کو سجدہ کیا جاتا ہے۔اب تک اس گمراہی میں جہلا ہی مبتلا تھے مگر اب عالمانہ وضع رکھنے والے مولوی صورت بھی پیروں کو سجدہ کرنے لگے ہیں اور اسے درست ٹھہرانے کی زبانی وقلمی کوششیں بھی کر رہے ہیں۔
🔹اہل ہنود اور صاحبان اقتدار کی خوشی کی خاطر بعض خانقاہوں میں ہولی، دیوالی جیسی کتنی ہی کفریہ رسمیں نہایت اہتمام کے ساتھ منائی جارہی ہیں۔رواداری اور صلح کل کے نام پر مذہب بیزاری کو مسلسل بڑھاوا دیا جارہا ہے۔
مذکورہ حرکات کا تعلق فرد واحد یا کسی حادثاتی واقعے سے نہیں ہے۔ایسے اقدامات کے پیچھے مکمل ایک نظریہ کار فرما ہے جس کی ترجمانی یہ لوگ کچھ اس طرح کرتے ہیں:
ہاتھ میں گیتا رکھیں گے
سینے میں قرآن رکھیں گے
میل بڑھائے جو آپس میں
وہی دھرم ایمان رکھیں گے
یعنی جس طرح سنیما، سیاست اور میڈیا سے وابستہ افراد دین ومذہب کو پامال کرنے اور ارتداد کو بڑھاوا دینے میں متحرک کردار ادا کر رہے ہیں، ویسا ہی کام اب خانقاہوں سے وابستہ لوگ بھی انجام دے رہے ہیں۔فرق صرف اتنا ہے کہ فلمی، سیاسی اور میڈیائی لوگ دنیا کے نام پر دین برباد کر رہے ہیں تو طمع پرست خانقاہی دین بربادی کے لیے دین ہی کا نام استعمال کر رہے ہیں۔
ارتداد کے پھلنے پھولنے میں مذکورہ ذرائع بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں۔جن سے متاثر ہوکر عام لوگ بھی اس لعنت میں مبتلا ہورہے ہیں۔
تدارک کیسے ہو؟
کسی بھی فتنے کا تدارک کرنے کے لیے عزم وہمت اور زمینی محنت کی ضرورت ہوتی ہے بشرطیکہ کوشش صحیح سمت میں کی جائے۔اس ضمن میں چند اقدامات یہ بھی کیے جاسکتے ہیں:
🔸غیروں کے مذہبی تہواروں اور تقریبات میں شرکت سے پرہیز کریں، اولادوں کو بھی روکیں۔
🔹اسکولوں میں کلچرل پروگرام کے نام پر مسلم بچوں کو ہندو تہواروں میں شامل کرنے پر سخت رویہ اپنائیں۔یہ آپ کا قانونی اور مذہبی حق ہے۔
🔸اپنے بچوں کو غیروں کے مذہبی کارٹون دیکھنے سے باز رکھیں۔ننھا ذہن وہیں سے خراب ہوتا ہے۔
🔹خود کے اسکول/کالج بنانے کی مہم چلائیں۔صرف بنا کر مطمئن نہ ہوں، دینی مزاج کے ساتھ معیاری تعلیم بھی فراہم کریں۔
🔸ترجیحی بنیادوں پر کوچنگ سینٹر کھولیں۔کوچنگ دینے والوں کی دینی تربیت بھی کریں۔کلچرل پروگرام کے عنوان سے اپنی تہذیب کو عام کریں۔
🔹توحید و رسالت پر عام فہم انداز اور بہترین اسلوب میں مسلسل خطابات اور لکچر کرائے جائیں، جو ہمارے روایتی جلسوں سے ہٹ کر جدید انداز پر منعقد کیے جائیں۔بولنے والے افراد موضوع پر مکمل دسترس رکھنے والے ہوں۔جدید اعتراضات کا جواب دینے کا ہنر جانتے ہوں۔
🔸چھوٹے بچوں کو بچپن ہی سے ایمان سے محبت اور شرک سے بیزاری سکھائیں۔بطور ہیرو صحابہ/علما/اولیا کا تذکرہ کریں۔صحابہ/علما/اولیا کی بہادری، ہمت اور عقل مندی کے قصے سنائیں۔
🔹فرزندان مدارس کی فکری تربیت پر خصوصی توجہ دیں۔اس کے لیے خصوصی کلاسیں اور خطابات کا اہتمام بھی کرایا جائے تاکہ بعد فراغت دشمنوں کا آلہ کار بن کر قوم کی گمراہی کا ذریعہ نہ بن سکیں۔
🔸سوشل میڈیائی ذرائع کا مذہبی کاز کے لیے ماہرانہ استعمال کریں۔اچھی اسکرپٹ اور عمدہ پیش کش کے ذریعے اپنے نظریات کی تشہیر کریں۔
🔸 فلم انڈسٹری کے گھناؤنے سچ کو مہارت وسنجدگی سے اجاگر کریں۔چمکتے پردے کے پیچھے چھپی کالی داستانوں کو اچھی طرح ایکس پوز کریں، تاکہ انہیں آئڈیل ماننے والے نوجوانوں پر ان کی حقیقت اچھی طرح ظاہر ہو۔
🔹سیاسی طور پر ہمیشہ اس انسان کا ساتھ دیں جو کم از کم اسلامی عقیدے پر پختہ ہو، کفر وشرک کے معاملے میں کمزور نہ ہو۔شرکیہ امور پر لچک رکھنے والے لیڈر کی ہرگز ہرگز حمایت نہ کریں بھلے ہی وہ کتنا ہی کام آنے والا ہو۔ایسوں کی حمایت سے ہی دوسروں کو بھی دین بیزاری کی ترغیب ملتی ہے۔
🔸خانقاہی نسبتوں کے نام پر کسی بھی دین بیزار پیر کے دھوکے میں نہ آئیں۔احترام کے نام پر سجدے کرانے والے ہوں، یا رواداری کے نام پر ہولی، دیوالی منانے والے، ایسے تمام لوگوں کا بائیکاٹ کریں۔
🔹کسی سیاسی یا سماجی مدے کی حمایت کی بنا پر کسی بھی نیوز اینکر کے معتقد نہ بنیں۔غلط بات پر تنقید اور ٹوکنے کا مزاج بھی رکھیں۔
اس کے علاوہ جو بھی مفید اقدامات ہوں انہیں اختیار کیا جائے تاکہ ہماری نسلیں ارتداد کے طوفان سے اپنا ایمان محفوظ رکھ سکیں۔
- یاد رکھیں!
اگر آج ہم نے اس عنوان کی حساسیت کو نہیں سمجھا اور اس کے تدارک کی سنجیدہ کوششیں نہیں کیں تو عوام کے ساتھ ساتھ علما ومشائخ کا لباس پہننے والوں میں بھی ارتداد کا ایسا طوفان آئے گا جس سے ملت اسلامیہ کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑے گا۔اس لیے اٹھیں اور اپنی جد وجہد سے اندھیری رات کے سینے پر حق و صداقت کا سورج اُگا کر قوموں کا مستقبل روشن کرنے کی کوشش کریں۔
سیاہ رات نہیں لیتی نام ڈھلنے کا
یہی تو وقت ہے سورج ترے نکلنے کا
8 ربیع الاول 1446ھ
12 ستمبر 2024 بروز جمعرات