اصلاح معاشرہ مذہبی مضامین

عقل کا تقاضا حیا ہے

تحریر:سرتاج عالم راہی
کاشیباڑی ٹھاکرگنج

ہمارے بعض ناسمجھ بھائیوں کا خیال ہے کہ "ویلنٹائن ڈے” پر عقل مند، پڑھے لکھے اور کھلے ذہن کے لوگ اعتراض نہیں کرتے بلکہ اس کو غلط کہنے والے جاہل، کم عقل اور تنگ نظر ہیں، حالانکہ عقل مندی کا تقاضا ہے کہ انسان باحیا و پاکدامن ہو جبکہ فحاشی و بے حیائی جہالت کی غماز ہوتی ہے جیسا کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی : ٣٥٤ھ) فرماتے ہیں :
الواجب على العاقل لزوم الحياء لأنه أصل العقل وبذر الخير، وتركه أصل الجهل وبذر الشر، والحياء يدل على العقل كما أن عدمه دال على الجهل.
عقل مند پر لازم ہے کہ حیاء اختیار کرے کیونکہ یہ عقل مندی کی بنیاد اور بھلائی کی ترویج ہے جبکہ اس (حیا) کو چھوڑ دینا جہالت کی بنیاد اور برائی کی ترویج ہے. اور جس طرح حیاداری، عقل مندی پر دلالت کرتی ہے اسی طرح بے حیائی جہالت کا پتا دیتی ہے.
حیا کے بغیر ظاھری خوب صورتی فضول ہے
فِیۡهِنَّ قٰصِرٰتُ الطَّرۡفِ لَمۡ یَطۡمِثۡهُنَّ اِنۡسٌ قَبۡلَهُمۡ وَ لَا جَآنٌّ. فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ. کَاَنَّهُنَّ الۡیَاقُوۡتُ وَ الۡمَرۡجَانُ.
"جنت میں (شرمیلی، باحیا) نیچی نگاہوں والی حوریں ہیں، جنہیں ان سے پہلے کسی جن و انس نے ہاتھ نہیں لگایا. پس تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا انکار کروگے؟ وہ حوریں گویا یاقوت اور چمکتے موتیوں جیسی ہونگی.”(الرحمن : 56، 58)ان آیات میں اللہ تعالٰی نے حوروں کی پاکدامنی و حیا کو ان کے ظاہری حسن و خوبصورتی سے پہلے ذکر کیا ہے کیونکہ ایسے حسن وجمال کی کوئی قیمت نہیں ہوتی جس میں پاکدامنی اور حیا نہ ہو
قرآنِ مجید میں تین شخصیات کی حیاداری وپاکدامنی خصوصی طور پر بیان ہوئی ہے :

  1. سیدنا یوسف علیہ السلام.(أني لم أخنه بالغيب)
  2. سیدہ مریم
    ( التي أحصنت فرجها)
  3. مدین شہر کے نیک شخص کی بیٹی
    (تمشي علي استحياء)
    نتیجتاً اللہ تعالٰی نے یوسف علیہ السلام کو نبی،
    سیدہ مریم کو ایک نبی کی ماں
    اور بنتِ مدین کو ایک نبی کی بیوی بنا دیا.
    معلوم ہوا کہ وصفِ حیا کو اپنانا ترقی و عروج کا ذریعہ ہے جس قوم میں حیا ہوتا ہے وہ حقیقی ترقی یافتہ ہوتی ہے اور حیا سے عاری قومیں حقیقی پستی کا شکار ہیں.
    ایک بیٹی کی تربیت کی بنیادی ذمہ داری تین لوگوں پر ہوتی ہے، بھائی، باپ، ماں.
    کسی بچی کا غلط قدم ان تینوں کی تربیت پر سوالیہ نشان لگا دیتا ہے.
    مگر یہ بھی سچ ہے تربیت کی ذمہ داری ادنی سے اعلی کی طرف ہے : یعنی (والدین کی موجودگی میں) سب سے کم ذمہ داری بھائی کی پھر باپ کی اور سب سے زیادہ ذمہ داری ماں کی ہے والدین کے ذاتی کردار کا اثر اولاد پر لا محالہ طور پر ہو جاتا ہے، جیسا کہ ما كان أبوك امرء سوء وما كانت أمك بغيا. اور سورہ کہف میں ہے وکان ابوھما صالحا۔
    والله أعلم بالصواب

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے