مذہبی مضامین

گہوارۂ قلب مومن میں اب جذبۂ ایماں سوتا ہے

دل و جان سے اللہ اور اس کے حبیبؐکی وفاداری و اطاعت شعاری کو اپنا زندگی کا مقصد اولین بنانے والے اہل بیت اطہار، صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، بزرگان دین اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے کہ دارین کی حقیقی و پائیدار کامیابی و کامرانی کا راز اللہ اور اس کے حبیب کے احکامات کی پیروی میں مضمر ہے۔ لہٰذا ان نفوس قدسیہ کے دلوں میں عشق الٰہی ، محبت مصطفیؐ اور دین اسلام کی سربلندی کے لیے ایثار و قربانی پیش کرنے کا جذبہ ہمیشہ موجزن رہتا تھا جس کے باعث دنیا کی کوئی طاقت نہ انہیں زیر کرسکی اور نہ روح فرسا اذیتیں ان کے ایمان کو کمزور کرسکیں۔ امیہ بن خلف جمحی نے حضرت سیدنا بلال حبشی ؓ کو عرب کی چلچلاتی دھوپ میں مکہ مکرمہ کے پتھریلے کنکریوں پر لٹاکر سینے پر بھاری پتھر رکھوادیتا ، آپؓ کی گردن میں رسی ڈالکر بچوں سے کہتا کہ مکہ کی پہاڑیوں میں گھمائیں، اسلام کی پہلی شہیدہ حضرت سیدنا عمارؓ کی والدہ محترمہ حضرت سیدنا سمیہؓکی شرمگاہ میں نیزہ ماکر ابو جہل نے شہید کردیا، حضرت سیدنا خباب ابن ارتؓ کے سر کے بال نوچے گیے، آپؐ کی گردن کو مروڑا گیا الغرض صحابہ کرام پر مخالفین و معاندین اسلام اور ظالموں نے سختی کا سلسلہ جاری رکھا یہاں تک کہ انتہائی گرم لوہے کی سلاخیں آنکھوں پر پھیری گئیں لیکن صحابہ کرام کا ایمان اس قدر مثالی و مضبوط تھا اور قرآن و سنت کی اتباع و پیروی میں وہ اس قدر مستعد تھے کہ ان تمام سخت تکالیف کے باوجود دشمنان اسلام صحابہ کرام کو دین اسلام سے برانگیختہ کرنا تو درکنار ان مبارک ہستیوں کے پائے استقامت کو لمحہ بالبصر کے لیے متزلزل بھی نہیں کر پائے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے صحابہ کرام کی ایمان کو ساری امت مسلمہ کے لیے مثال و نمونہ قرار دیا ہے۔ اللہ تعالی نے ان مبارک ہستیوں کے ایمان و تقوی اور اخلاق و کردار کی برکت سے مسلمانوں کو اتنا نوازا کہ تاریخ انسانیت میں اس کی مثال نہیں ملتی چنانچہ تاریخ انسانیت شاہد ہے کہ جب عظیم الشان اسلامی فتوحات کا طویل سلسلہ شروع ہوا تو اسلامی سلطنت کی حدود عرب صحرا سے نکل کر اطراف عالم تک پہنچ گئیں اور یورپی ممالک مسلم حکمرانوں سے خوفزدہ رہنے لگے تھے ، مسلمانوں نے فلسطین بالخصوص بیت المقدس پر مسیحی قبضہ بحال کرنے کی غرض سے 11ویں سے 13 ویں صدی عیسوی تک لڑی جانے والی صلیبی جنگوں میں اہل یورپ کو شکست فاش دی۔ لیکن جب سے مسلمانوں کے ایمان میں کمزوری آنے لگی انہوں نے آخرت کے مقابل دنیا کو ترجیح دینا شروع کیا، اسلامی تعلیمات سے انحراف کرنے لگے ، قابلیت سے زیادہ اقربا پروری کو فروغ دینے لگے ، سائنسی مزاج ، بحث و تحقیق کو پروان چڑھانے کے بجائے اندھی تقلید کرنے لگے تو مسلمانوں کی عظیم سلطنتیں زوال پذیر ہوئیں اور ان کا خاتمہ ہوگیا اوراب عالم یہ ہے کہ مسلم حکمراںمغربی و یوروپی ممالک کے رحم و کرم پر ہیں۔ جس امت مسلمہ نے اپنی جذبۂ ایمانی، اخلاق کی بلندی اور کردار کی پاکیزگی سے عملی طور دنیا کے سامنے ریاست مدینہ کا تصور پیش کیا تھا آج وہی قوم مقامات مقدسہ پرنیم برہنہ خواتین کے رقص و سرور کی محافل سجارہی ہیں، لوگ جوق در جوق اس میں شرکت کررہے ہیں۔ جو علماء تصوف کا نام سنتے ہی آگ بگولہ ہوجایا کرتے تھے اور خانقاہی نظام کو غیر اسلامی قرار دینے کے لیے تقریری و تحریری طور پر زمین و آسمان کے قلابے ملادیتے تھے وہ علماء بھی ایسے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں جیسے یہ حرکات مذمومہ دین اسلام کا حصہ ہوں ۔ ہمارے اس طرز عمل سے ہمارے دعوائے ایمان کی قلعی کھل جاتی ہے۔ ہم بس اتنے مسلمان ہیں کہ ہماری پیدائش مسلم گھرانے میں ہوئی ہے، ہمارا نام مسلمانوں جیسا ہے۔ میلاد النبیؐ، گیارہویں شریف، بزرگان دین کے اعراس کی محافل کے جواز پر صحابہ کرام کی زندگی کا حوالہ طلب کرنے والے کیا یہ بتاسکتے ہیں کہ فحش و منکرات کو بڑھاوا دینے والی یہ محافل کس صحابی رسولؐ کے عمل سے ثابت ہے؟ یہ ایمان و اسلام نہیں ہے بلکہ خود غرضی و ہوا پرستی ہے۔ طرفہ تماشہ یہ ہمیں اس بات پر فخر بھی ہے کہ ہم امت محمدی ہے جسے آئیڈیل بناکر دنیا میں بھیجا گیا ہے ،جس کے کندھوں پر بنی آدم کے اخلاق و کردار کو سنبوارنے کی مذہبی ذمہ داری ہے۔ افسوس صد افسوس ایمان کی کمزوری کے باعث ہمارا اپنا کردار مسخ ہوچکا ہے ایسے عالم میں ہم دوسروں کی کیا رہنمائی کریں گے؟ عملی طور پر ہم مغربی تہذیب کی اندھی تقلید کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کو معیار انسانیت سمجھنے لگے ہیںجو درحقیقت اسلامی تعلیمات سے اعراض و روگردانی کرنے کی بدترین مثال ہے۔ معیار ایمان یعنی صحابہ کرام اپنے ایمان و عقیدہ کے تحفظ و بچائو کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے تھے وہیں آج مسلمانوں کی اکثریت دنیا کے حقیر مفادات کے لیے سب سے پہلے اپنے ایمان کا سودا کرنے کے لیے تیار ہے۔ یہ مسلمانوں کی ایمان کی کمزوری اور بدکرداری کا ہی نتیجہ ہے کہ اوقاف کی 80فیصد جائیدادیں تباہ و برباد ہوگئیں جس کی وجہ سے آج کا مسلمان تعلیمی پسماندگی اور معاشی بدحالی کا شکار ہے۔ امت مسلمہ کی موجودہ حالات کے لیے وقف بورڈ میں کام کرنے والے وہ تمام لوگ ذمہ دار ہیں جنہوں نے اوقافی جائیدادوں کی تباہی پر خاموشی اختیار کیے ہوئے تھے۔ اگر ہمارے اندر ایمانی حرارت ہوتی تو ہم بروقت اوقافی جائیدادوں میں دھاندلیاں کرنے والوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے اور آج ہمیں اس قدر ذلت و رسوائی کی زندگی گزارنے پر مجبور نہ ہونا پڑتا۔ متعصب اور فرقہ پرست طاقتیں ہندتوا ایجنڈا کے مطابق وقف ترمیمی بل 2024 کو قانونی شکل دینے پر مصر ہیں جس کے مجوزہ ترمیمات درحقیقت وقف بورڈ کی خود مختاری کو ختم کرنے، مسلمانوں سے وقف جائیدادیں چھیننے اور وقف املاک کو ہڑپنے کی درپردہ مذموم کوشش ہے۔ اس بل کی مسلمان ہی نہیں بلکہ سیکولر ذہنیت کا حامل ہر ہندوستانی شہری جنگی پیمانے پر مخالفت کررہا ہے۔بحیثیت امت مسلمہ مسلمانوں کو اس بل کی مخالفت کرنے کے ساتھ ساتھ جس بنیاد پر بل متعارف کروایا گیا ہے اس کی اصلاح کی بھی اسی شدت سے کوشش کرنی چاہیے۔ سچر کمیٹی 2006 کی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیاگیا کہ وقف جائیدادوں سے کماحقہ استفادہ نہیں ہورہا ہے اس لیے سچر کمیٹی نے اصلاحات کو ناگزیر قرار دیا تھا تاکہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے وقف املاک کا صحیح استعمال ہوسکے۔مسلمانوں کے ایمان کی کمزوری اور کردار کی پستی ہی تھی کہ امت مسلمہ نے ان اصلاحات کی طرف توجہ ہی نہیں دی چونکہ اس سے ہمارے ذاتی مفادات وابستہ تھے۔ کاش مسلمان سچر کمیٹی رپورٹ کے مطابق جنگی خطوط پر ہندوستان کے تمام وقف بورڈ میں اصلاحات لانے ،دھاندلیوں کا تدارک کرنے اور بدعنوان عہدیداروں اور ملازمین کے خلاف جنگی خطوط پرمہم چلاتے تو شاید موجودہ حکومت کو وقف ترمیمی بل4 202 متعارف کروانے کی ہمت ہی نہ ہوتی۔مسلمانوں کو سب سے پہلے اپنی غلطی کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ موجودہ نازک و تباہ کن حالات کے لیے خود ان کی بداعمالیاں ذمہ دار ہیں۔ لہٰذا حالات کی تبدیلی کے لیے مسلمانوں کو اپنے کردار میں تبدیلی لانی پڑے گی جس کی اولین شرط امت مسلمہ کا اپنی زندگی کو قرآن و حدیث کے مطابق گزارناہے ۔ اللہ تعالی نے دنیا کو دار المحن اور آخرت کو دار الجزا بنایا ۔ اللہ تعالی کا لطف و کرم ملاحظہ فرمایئے کہ دار المحن یعنی محنت و مشقت کرنے کا دن24 گھنٹے کا بنایا اور اس کو بھی دوحصوں یعنی دن اور رات میں تقسیم فرمایا رات کو انسان کی میٹھی نیند اور ہر طرح کی راحت و لذت کے لیے بنایا اور دن کو وجود اس لیے بخشا گیا تاکہ انسان روزگار حاصل کرسکے۔ اگر انسان حدود الٰہیہ کی پاسداری کرتے ہوئے رزق حلال کماتا ہے تو رب کائنات اس کی نوازش کے لیے جو نظام مقرر فرمایا ہے اس کا ایک دن پچاس ہزار سال کا ہے۔ 24 گھنٹے والے ایام کی تعداد بہت کم ہے لیکن پہچاس ہزار سال والے دنوںکا کوئی اختتام ہی نہیں ہے۔ خوش بخت ہے وہ انسان جو رات میں راحت و آرام کرنے کے ساتھ عملی قوتوں کو مستعد و توانا بناتے ہیں تاکہ دن میں کسب معاش کے ساتھ کسب فضائل بھی ان کے لیے آسان ہوجائے۔ کس قدر بد بختی ہے اس انسان کی جو دنیا کے حقیر مفادات کے لیے آخرت کی عظیم نعمتوں اور سرفرازیوں سے اپنے آپ کو محروم کرنے کے ساتھ دنیاوی زندگی کوبھی اجیرن بنالیتا ہے۔ آج ہم پوری دنیا بالخصوص وطن عزیز ہندوستان میں جس پر آشوب اور ہولناک دور سے گزر رہے ہیں، ہمارے ساتھ جو تعلیمی، معاشی، سیاسی اور سماجی ناانصافیاں ہورہی ہیں، ہم جو بے یقینی، بے چارگی اور خوف و ہراس کے ماحول میں زندگی بسر کررہے ہیں، تو ان سب کی ایک اہم وجہ ہمارے ایمان کی کمزوی اور کردار کی پستی ہے جس کی وجہ سے مسلم معاشرہ بالخصوص نوجوان نسل عیش و عشرت، فسق و فجور اور اخلاقی پستیوں کے دلدل میں دھنس چکا ہے۔اگر ہم شاندار و تابناک ماضی کی واپسی اور کھوئی ہوئی شان و شوکت چاہتے ہیں تو ہم پر لازم ہے کہ اپنے اندر اہل بیت اطہار، صحابہ کرام، تابعین ، تبع تابعین اور بزرگان دین جیسا جذبہ ایمانی، اخلاق کی بلندی اور کردار کی پاکیزگی پیدا کریں۔ اللہ تعالی ہمیں بھی نوازے گا جس طرح اس کی نوازشوں کی بارش ہمارے اسلاف پر ہوئی تھی۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفی ﷺ ہمیں قرآن اور صاحبِ قرآنﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔

تحریر: پروفیسر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی
کامل الحدیث جامعہ نظامیہ ، M.A., M.Com (Osm)

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے