سیاست و حالات حاضرہ

شام پر حملہ کیا گریٹر اسرائیل کی تیاری ہے؟

سمجھ نہیں آتا کہ بات کہاں سے شروع کی جائے، مسلمانوں کی بے بسی اور آپسی خانہ جنگی، غداری دیکھ کر دماغ ماؤوف ہوجاتا ہے، غلطیاں تو سبھی حکم رانوں سے ہوتی ہیں سبھی قومیں اپنے حکم رانوں کو نہ صرف معاف کر دیتی ہیں بل کہ انھیں مکمل سپورٹ بھی کرتی ہیں لیکن مسلمانوں کو اپنے لوگوں کی غلطیاں برداشت کرنا نہیں آتا، اس لیے وہ غلطیاں دیکھ کر مخبری، غداری سے لے کر ساری حدیں پار کر جاتے ہیں، کچھ دہائیوں قبل کے مشرق وسطی پر نظر ڈالیں تو عراق، لیبیا، شام جیسے ممالک کی چمک لندن، پیرس کو منہ چڑھاتی نظر آتی تھی، حکم رانوں کی غلطیوں اور عوام کی مکاریوں نے آج سب کے ہاتھوں میں کٹورا تھما دیا گیا ہے، شام 13 سالوں سے خانہ جنگی کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کے لیے بھی "مشق گاہ” بنا ہوا ہے، صدام حسین کے بعد عراق کی حالت نہایت خستہ ہے، لیبیا کو بغاوت کے ذریعے تباہ کر دیا گیا ہے، جب کہ لیبیا میں عوام کو حکومت کی جانب سے بے شمار اقسام کی سہولیات میسر تھیں، جیسے پڑھائی، میڈیکل، نوجوانوں کو وظائف وغیرہ وغیرہ ۔ آج لیبیا اور عراق کے وہ لوگ جو صدام حسین اور قذافی کو کو تانا شاہ کہتے نہیں تھکتے تھے اپنی غلطیوں پر آنسو بہا رہے ہیں، لیکن اب پچھتائے کیا ہوتا ہے جب چڑیا چگ گئی کھیت!!! ۔

شام میں خانہ جنگی کی ابتدا

شام میں خانہ جنگی مارچ 2011 میں شروع ہوئی تھی۔ یہ جنگ بشار الاسد کی حکومت کے خلاف عوامی عدم اطمینان کی وجہ سے شروع ہوئی۔ اس احتجاج کو عرب بہار کا نام دیا گیا۔ جلد ہی عسکریت پسند بھی اس میں شامل ہو گئے۔ اس جنگ میں حکومت اور عوام کے درمیان کافی ابہام پیدا ہوا۔ اس جنگ میں ایران اور روس صدر بشار الاسد کے ساتھ تھے جبکہ باغیوں کو( جو آج بھی بغاوت کر رہے ہیں) ترکی، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور امریکہ کی حمایت حاصل تھی۔ بشار الاسد 2011 میں روس، ایران، لبنان کی مدد سے اپنی حکومت بچانے میں کامیاب ہوگئے تھے، اس جنگ میں لاکھوں لوگ مارے گئے اور لاکھوں بے گھر ہو گئے۔ شام کے 50 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو ملک چھوڑنا پڑا اور تقریباً 60 لاکھ افراد ملک کے اندر ہی بے گھر ہوئے ۔
چند دنوں میں شام پر یورپی کٹھ پتلی حکومت طے ہے، کیوں کہ مسلح لڑاکے ادلب، حلب، حمات پر قبضہ کر چکے ہیں، حالات سے ایسا لگتا ہے کہ پانچ سے دس دنوں میں حمص کے علوی خان دان کی کئی عشروں سے جاری یہ حکومت ختم ہو جائے گی، جنگ جُو حمص سے محض پانچ کلو میٹر دور رہ گئے ہیں، مسلح گروپ حمص کے دیہی علاقے تلبیسہ اور الرستن میں داخل ہو گئے ہیں اور وہاں مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے، اسی طرح انھوں نے حمص کے وسط سے تقریبا 7 کلو میٹر دور واقع بتیر معلہ کے قصبے کے علاوہ الغنطو اور الدار الكبيرہ پر بھی قبضہ کر لیا ہے ۔مسلح گروپوں نے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر جنگ جوؤں کے ان علاقوں میں داخل ہونے کے ویڈیوز پوسٹ کیے گئے ہیں ۔ ان گروپوں نے اپنے طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ حمص شہر سے 5 کلو میٹر دور ہیں۔ اگر اس شہر پر قبضہ ہوتا ہے تو دمشق کا فاصلہ یہاں سے محض 20 کلو میٹر بچے گا، ظاہر ہے کہ پھر راجدھانی بچ نہیں سکتی، حالات و قرائن اس جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ جو کچھ لڑائی ہوگی وہ اسی شہر یعنی حمص میں ہوگی، اگر شامی فوج یہاں سے پیچھے ہٹتی ہے تو بشار الاسد خود ہی حکومت چھوڑنے کا اعلان کر سکتے ہیں، اگر ایسا نہیں ہوتا تو مسلمانوں کا خون پانی جیسا بہے گا ۔

حمات پر قبضہ، حمص کی باری

مختلف نیوز ایجنسیوں کے مطابق "ھیئہ تحریر الشام‘‘ اور اس کے اتحادی مسلح دھڑوں نے شام کے چوتھے بڑے شہر حمات کو تین اطراف سے گھیرنے میں کامیاب ہونے کے بعد اس پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کا اعلان کردیا ہے ۔” شامی فوج نے ایک بیان میں اعتراف کیا ہے کہ حمات کے سٹریٹجک شہر کے کھونے کا نقصان ہم قبول کرتے ہیں ۔ شامی فوج نے اس شہر میں تعینات فوجی یونٹوں کو شہر سے باہر منتقل کر دیا ہے۔ سیریئن آبزرویٹری نے اطلاع دی ہے کہ 200 سے زیادہ فوجی گاڑیاں جنوبی حمات کے دیہی علاقوں سے حمص کی طرف واپس چلی گئیں۔ حمات شہر اور اس کے دیہی علاقے فوجی اور جغرافیائی دونوں سطحوں پر اہم حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ ایک اسٹریٹجک شہر ہے جو شام کی گہرائی میں واقع ہے اور حلب کو دمشق سے ملاتا ہے۔ یہ شہر دمشق سے 213 کلومیٹر شمال میں اور حمص سے 46 کلومیٹر شمال میں اور حلب شہر سے تقریباً 135 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔ یہ 2011 میں شروع ہونے والی جنگ کے دوران شامی حکومت کے کنٹرول میں رہا ہے ۔

حمات کا اہم جغرافیائی محل وقوع اسے شمال اور جنوب، مشرق اور مغرب کے درمیان ایک مربوط مقام بناتا ہے۔ اس کی مرکزی شاہراہیں دمشق، حلب، حمص اور الطاکیہ جیسے اہم شہروں کو جوڑتی ہیں۔ حمات خاص طور پر دریائے اورونٹیس کے کنارے اپنے پانی کے پہیوں کے لیے مشہور ہے جو شہر کی مرکزی توجہ کا مرکز ہے۔ یہ پانی کے پہیے قرون وسطیٰ میں بنائے گئے تھے اور وہ شہر کے باغات، حماموں، مساجد اور کنوؤں تک پانی پہنچاتے تھے۔ ایجنسی فرانس پریس کے مطابق یونیسکو نے حمات کو عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا ہوا ہے۔

حمص پر قبضہ دمشق کی سانسیں روک دے گا

یہ شہر حلب سے دمشق کے راستے کے ایک تہائی سے زیادہ راستے پر واقع ہے اور اس پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد مسلح دھڑوں کے لیے حمص کی طرف پیش قدمی کا راستہ کھل گیا ہے ۔ حمص ملک کے وسط میں واقع ایک بڑا شہر ہے جو زیادہ تر گنجان علاقوں کو جوڑنے والا ہے۔ حمص پر کنٹرول حاصل ہونے کی صورت میں دارالحکومت دمشق اور شام کے ساحل کے درمیان نقل و حمل اور سپلائی لائن منقطع ہو جائے گی۔ یعنی حمص دارالحکومت دمشق کا دل ہے آگر حمص پر جنگ جو کنٹرول کر لیتے ہیں تو دمش کی حرکت قلب بند ہونا طے ہے، اس شہر کی آبادی میں سنی مسلمانوں کی اکثریت ہے جس کی آبادی تقریباً 10 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ تاہم اس میں علوی فرقے کی ایک اقلیت بھی شامل ہے۔ اسی فرقے کا الاسد خاندان پانچ دہائیوں سے زیادہ عرصے سے شام پر حکومت کر رہا ہے۔

دمشق کی حفاظت گریٹر اسرائیل سے حفاظت ہے

یہ مسلح گروپ فوج کے لیے اسٹریٹجک اہمیت سمجھے جانے والے اس شہر حمات میں داخل ہوگئے ہیں۔ اس شہر کا تحفظ دارالحکومت دمشق کو محفوظ بنانے کے لیے ضروری ہے۔ شام میں 2020 کے بعد اس پیمانے کی پہلی لڑائی میں اب تک 826افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق 27نومبر کے بعد سے 2 لاکھ 80 ہزار سے زیادہ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ جب کہ شام میں 2020ء کے بعد اس طرح کی پہلی لڑائی میں ایک ہفتے کے اندر 826 افراد ہلاک ہوئے، شامی فوج کے 65 آفیسر اور اہم عہدے داران بھی مارے گئے ہیں، ان اموات میں 110 شہری بھی شامل ہیں۔ انسانی حقوق کی شامی رصد گاہ المرصد کے سربراہ رامی عبدالرحمن نے العربیہ کو دیے گئے بیان میں کہا کہ مسلح گروپوں کی یہ پیش قدمی شام سے حزب اللہ کے لیے لبنان جانے والی ہتھیاروں کی امداد کا سلسلہ منقطع کر دے گی۔

ہم پچھلی پوسٹ میں بتا چکے ہیں کہ جنگ جو اگر شام پر قبضہ کرتے ہیں تو ایران، شام، لبنان کا گٹھ جوڑ ختم ہو جائے گا، نتیجے میں ایران کے ہاتھوں سے اس کے دو حمایتی ملک نکل جائیں گے، شام اور لبنان، پھر اسرائیل کا لبنان پر قبضہ نہایت آسان ہو جائے گا، کیوں کہ شام سے اسرائیل کو تو امریکی مدد پہنچے گی اور اسرائیل دو-طرفہ حملے بھی کرے گا ، لیکن حزب اللہ کی ایرانی مدد ختم ہو جائے گی یعنی دیر سویر لبنان بھی ختم ہو جائے گا ۔اگر اسرائیل حماس کو ختم نہ کر سکا تو پھر فلسطین پر بھی اسرائیلی قبضہ یقینی ہو جائے گا کیوں کہ یہاں بھی اسرائیل دو طرفہ حملہ کرنے لائق ہو جائے گا، اس طرح اسرائیل کا گریٹر اسرائیل بننے کا خواب پورا ہو جائے گا، شام کی حکومت کا جانا عالم اسلام کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے، عالمی تناظر میں دیکھیں تو شیعہ یا سنی دیکھ کر خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ یہ چیز صرف شام تک محدود نہیں رہے گی بل کہ بڑھ کر فلسطین اور دیگر مسلم ممالک تک پہنچنے والی ہے، شام جانے کا مطلب ہوگا کہ اسرائیل کا گریٹر اسرائیل کے خواب کی طرف یہ پہلا قدم اٹھ گیا ہے ۔

تحریر: محمد زاہد علی مرکزی
چیئرمین تحریک علمائے بندیل کھنڈ

7/12/2024
4 /6/1446

اس سلسلے کی مزید قسطیں!

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے