ایران کے حملے کے بعد اسرائیلی ہوائی اڈوں پر ملک چھوڑنے کی بھیڑ دکھائی دے رہی ہے، اسرائیل نے شام میں روسی اڈوں پر ہوائی حملے کیے ہیں جس کے بعد جنگ کا دائرہ مزید وسیع ہونے کا امکان ہے – اسرائیل نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ شام میں ہونے والے حملوں میں حزب اللہ چیف حسن نصر اللہ کے داماد کی موت ہوگئی ہے – بھارتی میڈیا میں یہ خبر بھی دیکھی گئی کہ نتین یاہو نے روس کے صدر ولادی میر پوتن سے بات کرنا چاہی لیکن پوتن نے بات کرنے سے انکار کردیا – روس کا لبنان کو امدادی سامان روانہ کرنا اور نیتن یاہو سے بات نہ کرنا امریکا، اسرائیل کو صاف اشارہ ہے کہ دال یہاں نہیں گلنے والی –
کل رات ہی G7 ممالک کی میٹنگ ہوئی جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ایران اسرائیل تنازعہ کا حل سیاسی طور پر ممکن ہے،لیکن زور اس بات پر دیا گیا ہے کہ ایران پر مزید پابندیاں عائد کی جائیں، اس کا مطلب ہے کہ اسرائیل ابھی ایران پر حملے کے متعلق نہیں سوچ رہا، اسرائیل کے حواری بھی شاید ایران سے بچنے کی صلاح دے رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایرانی حملے کے تین دن بعد بھی اسرائیل کی طرف سے ایران پر حملہ نہیں کیا گیا ہے، ہاں لبنان، شام میں ضرور حملے ہو رہے ہیں لیکن لبنان فورسز کی طرف سے کہا گیا ہے کہ آگے بڑھ رہی اسرائیلی فوج کو ہم نے پیچھے دھکیل دیا ہے، لبنان نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے اتری اسرائیل پر راکٹ سے حملہ کیا ہے –
یمنی حوثیوں نے گزشتہ کل بحر احمر میں ڈرون حملے سے برٹش تیل ٹینکر "کارڈیلیا مون” کو اڑا دیا ہے جس کی تصاویر اور ویڈیو سوشل میڈیا پار عام ہیں، یہ جہاز اسرائیل کو تیل سپلائی کر رہا تھا، حوثیوں نے بھی اس کا ویڈیو جاری کیا ہے جس میں سے دھواں اٹھتا دکھ رہا ہے، یمنی حوثی پچھلے چند مہینوں سے اپنی بحری حدود سے کسی بھی ایسے جہاز کو نہیں گزرنے دے رہا ہے جو اسرائیل کو فائدہ پہنچا سکے – نیز روس نے لبنان کو 33 ٹن خورد و نوش، طبی سہولتوں اور روز مرہ استعمال کا ضروری سامان روانہ کیا ہے –
حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ کو تقریباً ایک سال ہونے جا رہا ہے۔ اور اب اسرائیل کھل کر حزب اللہ کو نشانہ بنا رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے پیجر حملے سے شروع ہونے والا حملہ اب فضائی حملوں میں بدل گیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق لبنان میں اسرائیلی بمباری سے اب تک 580 سے زائد اموات ہوچکی ہیں جن میں درجنوں بچے بھی شامل ہیں۔ لبنان کے وزیر صحت نے اسے ‘نسل کشی’ قرار دیا ہےپچھلے سال 7 اکتوبر کو جب اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ شروع ہوئی تو حزب اللہ بھی اس میں کود گیا ۔ اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ نے کہا تھا کہ اگر حزب اللہ نے مداخلت کی تو لبنان کو اس کی قیمت چکانی پڑے گی۔ اس کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے بھی خبردار کیا کہ اگر حزب اللہ نے اس لڑائی میں شامل ہونے کی غلطی کی تو اسے پچھتانا پڑے گا۔
19 ستمبر کو اسرائیلی فوج نے لبنان کے مختلف مقامات پر حزب اللہ کے ٹھکانوں پر حملہ کیا۔ اس دن 100 راکٹ لانچروں سے حملے کیے گئے۔ 20 ستمبر کو اسرائیل نے بیروت میں ایک بڑا حملہ کیا۔ یہ حملہ حزب اللہ کے رضوان یونٹ پر ہوا۔ اسرائیل نے اس حملے میں حزب اللہ کے 10 سینئر کمانڈروں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
پھر 23 ستمبر کو اسرائیل نے دو دہائیوں میں سب سے خطرناک حملہ کیا۔ جنوبی لبنان میں اسرائیلی فوج کا حملہ۔ اس حملے میں اب تک 580 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہگاری نے کہا کہ فوج اسرائیلی سرحد سے ملحقہ حزب اللہ کو لبنان سے نکالنے کے لیے جو بھی ضروری ہوگا کرے گی۔
اس سے پہلے لبنان میں جنگ کب ہوئی؟
1982 کی جنگ اور حزب اللہ کی تشکیل
مارچ 1978 میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) نے اسرائیل میں گھس کر ایک امریکی سیاح کو قتل کر دیا۔ اس کے بعد ایک بس کو ہائی جیک کر کے 34 یرغمالیوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ جواب میں اسرائیلی فوج نے لبنان پر حملہ کیا اور ان کے ٹھکانوں کو چن چن کر نشانہ بنایا۔ تقریباً دو ماہ بعد اقوام متحدہ کی مدد سے کچھ امن ہوا۔
جب کہ PLO اور اسرائیلی فوج کے درمیان وقتاً فوقتاً تنازعات ہوتے رہے۔ دونوں کے درمیان جنگ بندی جولائی 1981 میں اس وقت ٹوٹ گئی، جب PLO نے اسرائیل میں 270 سے زیادہ حملے کیے، جن میں 29 اسرائیلی ہلاک اور 300 سے زیادہ زخمی ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت لبنان میں PLO کے 15 سے 18 ہزار جنگ جو تھے۔ حالات 1982 میں اس وقت خراب ہوئے جب فلسطینی گروپ نے برطانیہ میں اسرائیلی سفیر کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ اسی سال 6 جون کو اسرائیلی فوج نے ‘آپریشن پیس فار گیلیلی’ شروع کیا۔
اسی دوران ایران کے پاسداران انقلاب نے اسرائیلی فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے حزب اللہ بنائی۔ اسرائیلی فوج نے لبنان پر اپنے حملے تیز کر دیے ۔ اطلاعات کے مطابق ایک ستمبر 1982 تک پی ایل او کے 14 ہزار سے زائد جنگ جو لبنان چھوڑ چکے تھے۔ پی ایل او کے چیئرمین یاسر عرفات بھی ان میں شامل تھے۔ بالآخر یہ جنگ 5 جون 1985 کو ختم ہوئی۔
2006 میں 34 دن تک چلی جنگ
12 جولائی 2006 کو حزب اللہ نے اسرائیل پر راکٹ حملہ کیا۔ اس کے بعد حزب اللہ کے جنگجو اسرائیلی سرحد میں داخل ہوئے اور تین فوجیوں کو ہلاک کر دیا۔ جبکہ دو کو یرغمال بنا لیا گیا۔ اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے لبنان کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا اور اسے ‘جنگ کا عمل’ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ لبنان کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت لبنانی حکومت میں حزب اللہ کے دو وزیر تھے۔ اسی رات اسرائیلی فوج نے لبنان پر حملہ کیا۔ اسرائیلی فوج نے زمینی اور فضائی حملے جاری رکھے۔ لبنان کے مختلف مقامات پر فضائی حملے کیے گئے۔ فضائی حملے میں بیروت کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کا رن وے بھی تباہ ہو گیا۔
اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان 34 دنوں تک جاری رہنے والی اس جنگ میں 1100 سے زائد لبنانی شہری مارے گئے۔ اس میں 165 اسرائیلی شہری بھی مارے گئے۔ اگرچہ یہ جنگ کسی نے نہیں جیتی لیکن لبنان کو براہ راست بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ انٹرنیشنل ریڈ کراس کمیٹی کے مطابق اس جنگ میں اسرائیلی فوج نے 30 ہزار سے زائد مکانات کو یا تو مکمل طور پر تباہ یا نقصان پہنچایا تھا۔ 109 پلوں اور 78 طبی سہولیات کو نقصان پہنچا۔
2006 سے جب اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان آخری بار لبنان میں جنگ ہوئی تھی،اب دونوں کی عسکری صلاحیتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اسرائیل کے پاس اس وقت آئرن ڈوم دفاعی نظام بھی نہیں تھا لیکن اب ہے۔ اس وقت حزب اللہ کے پاس 3 سے 5 ہزار جنگ جو تھے لیکن اب اس کے پاس 30 سے 50 ہزار جنگ جو ہیں۔ اسی سال حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے پاس ایک لاکھ سے زیادہ جنگ جو ہیں۔ یہی نہیں حزب اللہ کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس کے پاس 1 سے 2 لاکھ راکٹ ہیں۔
لبنان کی پہلی جنگ تقریباً 3 سال تک جاری رہی۔ اور دوسری لبنان جنگ 34 دنوں میں ختم ہوئی۔ اب تیسری جنگ کتنی دیر تک جاری رہتی ہے اس کا انحصار حزب اللہ کے مذاکرات کی میز تک آنے پر منحصر ہے۔ سب سے بڑا سوال یہ ہوگا کہ ایران کیا کرے گا؟ ایران حزب اللہ کو پراکسی وار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایران خطے میں اپنی سب سے بڑی طاقت کو کھونا نہیں چاہے گا۔ اس صورت میں لبنان پر مزید حملے ایران کو اسرائیل کے ساتھ جنگ میں کودنے پر مجبور کر سکتے ہیں ورنہ شام، لبنان اور یمن کے حوثی ایران سے دور ہو جائیں گے، اگر ایران بھی اس جنگ میں کود پڑا تو مشرق وسطیٰ میں تنازع مزید گہرا ہو سکتا ہے۔ فی الحال تو ایران محض ایک حملہ کرکے خاموش ہے اب آگے دیکھیے کیا ہوتا ہے –
تحریر: محمد زاہد علی مرکزی
چئیرمین تحریک علمائے بندیل کھنڈ
جاری….
4/19/2024
30/3/1446
اس سلسلے کی پہلی دو قسطیں یہاں پڑھیں!
“لبنان اسرائیل جنگ، دشمنی پرانی ہے” پر 2 تبصرے