ہائے افسوس کہ فتنوں کے دروازوں کا افتتاح یوں ہوا کہ اس کی روک تھام تقریبا ناممکن نظر آرہی ہے، امت آپس میں دست و گریباں ہے، اسلامِ خلاف تحریکیں مسلمانوں کی آبروریزی پر اتر آئی ہیں، دن بدن انکی درازئ زبان اور دریدہ دہنی بڑھتی جارہی ہے، مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑنا، مسلم بچیوں کو مرتد کرنے کی تحریکیں چلانا، گاہ، گاہ پیرہن پوش اور داڑھی کوش مسلمانوں کو مارنا پیٹنا، حتی کہ ہم آہ بھی کردیں تو ٹہر جاتے ہیں مجرم وہ قتل کریں پھر بھی کوئی بات نہیں ہے۔
اتنا برداشت کیا کہ شاید لفظِ برداشت کو شرمندگی اور عار محسوس ہورہی ہو، اتنا تو ٹھیک تھا یہ ہماری عزت و غیرت کی بات تھی مگر کچھ برسوں سے گستاخیاں بامِ عروج پر ہیں، کوئی بھی منھ اٹھا کر اپنی خرابئ نسب و نسل کا ثبوت پیش کرنے لگتا ہے، ہمارے آقا ﷺ کی شان میں کفار ہرزہ سرائیوں پہ ہرزہ سرائیاں کئے جارہے ہیں اور ہم ہیں کہ کوئی ٹھوس اور مستحکم فیصلے کی جانب رغبت نہیں کر پارہے۔
اگر ہماری جانب سے کوئی تحریری یا تقریری کارروائی ہوتی بھی ہے تو ہمیں ہی موردِ الزام ٹھہرا کر نظرِ زنداں کر اس کی صعوبتوں کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ اور اگر ہم قانون اور آئین کو پیشِ نظر رکھ قانونی کارروائی سر انجام دینے کے درپئے ہوتے ہیں تو جھوٹ کی آس دلا کر چھوڑ دیا جاتا ہے، مزید دوسرا کوئی راستہ اختیار کیا جائے تو آتنکی ہونے کی مہر ہم بے چاروں اور بے یاروں پر ثبت کردی جاتی ہے۔ خیر کچھ بھی ہو ہم نے یہی سیکھا اور پڑھا ہے کہ گستاخوں کی ایک ہی سزا سر تن سے جدا سر تن سے جدا !!!
اگر ہماری غیرت و عزت اور جان و مال کی بات ہوتی تو ہمیں برداشت تھی، مگر ہمارے نبی کی شان میں گستاخیاں کرنے والوں کی ایک ہی سزا ہے کہ ان کی گردنیں سرِ بام و بازار مار دیا جائے۔ اگر آپ یہ نہیں کر سکتے کوئی بات نہیں دوسری سزا آپ دینا چاہتے ہیں۔ تو اس کا بھی حل ہے ہمارے پاس کہ کم از کم عمر قید کی سزا ان حرامیوں کو ضرور میسر آئے، یہ تو لازمی اور جزمی آپ کو کرنا ہی ہوگا۔ وگرنہ مسلمانوں کی غیرت کی بات نہیں کہ خاموش ہو جائیں گے لڑ بھڑ کر بلکہ پیغیمرِ اسلام کے ناموس کی بات ہے اگر سب نے ایک ہو کر آپ کے خلاف محاذ کھڑا کر دیا جب تو آپ کا اللہ ہی مالک۔
ایک بار پھر حکومتِ ہند سے گزارش کرتا ہوں۔ جتنی جلدی ہوسکے اس کا تدارک کریں اور جملہ گستاخان کو سلاخوں کے پیچھے بند کریں۔ مسلمانوں نے آئین پر بارہا بھروسہ کیا ہے۔ آپ کو چاہئے کہ ان کے اس بھروسے کا بھرم رکھیں، وگرنہ مسلمانوں کی آپ اپنی کارکردگی شروع ہوگئی تو تاریخ پھر دوہرائی جائے گی اور ایک بار پھر کہنے والا کہے گا۔
دشت تو دشت ہے دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحرِ ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے
الحاصل یہ کہ تمام گستاخوں کو قید و بند میں بس نہ رکھا جائے، بلکہ اس کی صعوبتوں سے انہیں دوچار بھی کیا جائے، بالخصوص کتے کے پلے "نرسنگھا نند” کو جو بی جے پی کا پلو اوڑھ کر ہمارے مسلمات پر انگشت نمائی اور دریدہ دہنی کررہا ہے۔ ایک بار پھر اس کی ویڈیو نظرِ نگاہ ہوئی تو استعجاب ہوا پھر وہی قاعدہ پیشِ نگاہ گردش کرنے لگا "پدرم سلطان بود” ہمارے ابو مودی اور یوگی جی اقتدار پر ہیں ہمیں کیا ہونا ہے۔ ایک ہی بات کہنا ہے اپنی ان گھٹیا حرکتوں سے باز آجاو ابھی بھی وقت ہے۔
مزید ہم بارگاہ نبوی میں معذرت خواہ ہیں کہ آقا ﷺ آپ کی ناموس پر انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں اور ہم عاجز ہیں۔ ہماری اس عجز کا کوئی درماں کیجئے۔ دل پژمرہ ہوچکا ہے اور جان پارہ پارہ اس دنیا کے حالات دیکھ کر آقا کریم، کرم کریں، ہم شرمندہ ہیں۔ بس یہی سوچ کر دل کرچی کرچی اور جان حلق کو آجاتی ہے۔ کہ اگر بروز محشر آپ ﷺ نے سوال کرلیا کہ میرے ناموس کی خاطر تو نے کیا کیا؟
اس وقت سے خوف کھاتا ہوں کہ مجھ سے کوئی جواب نہ بن پڑے گا اور منھ بھلا کیسے دکھاؤں گا؟ اور کیا جواب دوں گا؟ میرے آقا ہم شرمندہ ہیں نحیف و ناتواں اور بے بساط و معذور ہیں۔
مولی کریم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں سچا پکا عاشق رسول اور محافظِ ناموسِ رسالت بنائے مزید جملہ کفار و مستشرقین کی تدارک کا جذبہ عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم۔
راقم الحروف: محمد اختر رضا امجدی
متعلم: جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی مئو یوپی