تحریر: محمد زاہد علی مرکزی
چئیرمین تحریک علمائے بندیل کھنڈ
اتنی تمہید کے بعد اب یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ آخر جنگ کا سبب کیا ہے؟ اور کب سے یہ جنگ ہو رہی ہے؟ تو چلیے تھوڑا پیچھے چلتے ہیں تاکہ آگے کی کہانی سمجھی جا سکے –
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازعہ ایک صدی سے زیادہ پرانا ہے۔ اسرائیل کا وجود 1948 سے پہلے نہیں تھا۔ یہ پورا فلسطین تھا جس پر کبھی سلطنت عثمانیہ کی حکومت تھی۔ اسرائیل 14 مئی 1948 کو معرض وجود میں آیا۔ 1967 میں چھ روزہ جنگ میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی، مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا۔
اقوام متحدہ کی قرارداد 1947
پہلی جنگ عظیم 1914-1918 کے دوران ہی برٹین (انگلینڈ) نے یہودیوں کے لیے ایک علاحدہ ریاست کا أعلان کیا اور سلطنت عثمانیہ سے فلسطین کو آزاد کرا لیا، یہودی صدیوں سے اس زمین کے خواہش مند تھے اور خفیہ کوششیں جاری تھیں، 1922 میں league of Nation نے برٹین کو فلسطین میں کلی اختیار دے دیا، دنیا بھر سے یہودی فلسطین کی طرف ہجرت کرنے لگے، جون 1940 میں یہودیوں کی آبادی 456,743 تھی، یہودی اب فلسطین کی آباد آبادی کا 31.2 فیصد ہیں۔ 1931 میں یہ شرح 16.9 تھی اور 1922 میں جب برطانوی قبضے کے بعد گنتی ہوئی تو یہ تعداد محض 83,790 تھی یعنی فلسطینی آبادی کا صرف 11.1 فی صد ۔ 1918 سے 1940 کے درمیان فلسطین میں یہودیوں کی تعداد کئی گنا بڑھ گئی، چوں کہ یہ علاقہ اب برٹین کے قبضے میں تھا اور یہودیوں کے زیر انتظام آگیا تھا اس لیے برٹین نے انڈیا کی طرح یہاں بھی تقسیم وَالا فارمولا اپنایا –
دوسری عالمی جنگ 1939-1945 میں دنیا تباہی کے مناظر دیکھ چکی تھی، جرمنی میں یہودی لاکھوں کی تعداد میں مارے گئے، یورپی ممالک میں یہودیوں کے ساتھ سلوک ناروا تھا، برطانیہ اپنی طاقت کھو رہا تھا، ساری دنیا میں لوگ اس سے بیزار اور بر سر پیکار تھے، برطانیہ اور فرانس نے مشرق وسطی کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا اور مختلف ریاستوں کا قیام عمل میں آیا، تاہم فلسطین برطانیہ کے زیرتسلط ہی رہا جہاں عرب قوم پرستوں اور صیہونی تنظیموں کے درمیان کشیدگی بڑھنے لگی۔
صیہونی تنظیموں نے عسکری گروہ قائم کر لیے جنھوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد الگ ریاست کے لیے دباؤ بڑھانا شروع کر دیا تھا – اسی دباؤ کے چلتے اقوام متحدہ نے 1947 میں فلسطین کی تقسیم کی تجویز پیش کی۔ یہ تجویز فلسطین کو یہودی اور عرب ریاستوں میں تقسیم کرنے کی تھی۔ جب کہ یروشلم کو بین الاقوامی شہر بنانے کی تجویز تھی۔ یہودی رہنماؤں نے اس تجویز کو قبول کیا، لیکن عرب رہنماؤں نے اسے قبول نہ کیا۔
فلسطین پر اسلامی قبضہ کب تک رہا
20 اگست 636ء مطابق 16 ھجری کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اسلامی لشکر نے فلسطین کو فتح کر لیا۔ یہ قبضہ پرامن طریقہ سے عمل میں آیا۔ 463 سال تک یہاں عربی زبان اور اسلام کا دور دورہ رہا۔ تاہم یہودی ایک اقلیت کی حیثیت سے موجود رہے۔ گیارہویں صدی کے بعد یہ علاقہ غیر عرب سلجوق، مملوک اور عثمانی سلطنتوں کا حصہ رہا۔ 1189ءمیں سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو فتح کیا اور یہاں مسلمانوں کی حکومت قائم ہو گئی۔
چار صدیوں تک عثمانیوں کی حکمرانی کے بعد 1917ء میں برطانیہ نے اس خطے کو اپنی تحویل میں لے لیا اور اعلان بالفور کے ذریعہ یہودیوں کے لیے ایک قومی ریاست کے قیام کا وعدہ کیا گیا۔ پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ جرمنی کے ساتھ تھا اور جرمنی یہ جنگ ہار گیا اس لیے عثمانیوں کے ہاتھ سے فلسطین نکل گیا – بہر حال اسلام کے ابتدائی زمانے سے لے کر سلطنت عثمانیہ کے خاتمے تک چند سالوں کو چھوڑ کر فلسطین پر مسلمانوں کا ہی قبضہ رہا ہے –
اسرائیل کی تشکیل اور عرب اسرائیل جنگ
اسرائیل 1948 میں ایک نیا ملک بنا، اگلے ہی دن اردن، مصر، شام اور عراق نے حملہ کر دیا۔ یہ پہلی عرب اسرائیلی جنگ تھی جس کے نتیجے میں اقوام متحدہ کے منصوبے کے مطابق جہاں عرب ریاست بننا تھی، وہ علاقہ مختلف ممالک کے قبضے میں آ گیا اور یوں فلسطینیوں کے لیے ایک سانحے نے جنم لہا۔ ساڑھے سات لاکھ فلسطینی ہمسایہ ممالک خود فرار ہوئے یا انھیں اسرائیلی فوجیوں نے بے دخل کر دیا۔ یہ جنگ تقریباً ایک سال کے بعد 1949 میں ختم ہوئی۔ نتیجے کے طور پر اسرائیل نے اقوام متحدہ کی تجویز کردہ حدود سے باہر اپنی سرحدیں بڑھا دیں۔ جنگ کے دوران ہزاروں فلسطینی یا تو بھاگ گئے یا جلاوطن کر دیے گئے۔ اس واقعہ کو ‘نقبہ’ کہتے ہیں۔
1967 کی چھ روزہ جنگ
اسرائیل نے 1967 میں مصر پر حملہ کیا۔ اس کی وجہ سے مصر، اردن اور شام کے ساتھ چھ روزہ جنگ چھڑ گئی۔ اسرائیل نے مصر سے غزہ کی پٹی اور جزیرہ نما سینائی، اردن سے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم اور شام سے گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد 1982 میں سینا مصر کو واپس کر دیا گیا۔ فلسطینی اسی جنگ سے قبل کی تقسیم پر رہنا چاہتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ امن معاہدے 1967 سے قبل والی حالت پر ہوں گے –
1980 میں اسرائیل نے یروشلم پر قبضے کا اعلان کیا، فلسطین بھی اسے اپنا حصہ مانتا ہے، ابھی بھی دنیا کے بیشتر ممالک نے یروشلم کو تسلیم نہیں کیا ہے –
اوسلو معاہدہ
13 ستمبر 1993 کو واشنگٹن میں سابق امریکی صدر بل کلنٹن کی موجودگی میں ہوا، اوسلو معاہدہ اسرائیل اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کے درمیان ہونے والے معاہدوں میں سے ایک تھا۔ 4 مئی 1994 میں اوسلو 2 مصر میں ہوا، معاہدے کے تحت فلسطینی اتھارٹی کی تشکیل ہوئی اور پی ایل او نے اسرائیل کو تسلیم کیا۔ اس معاہدے کے تحت مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے کچھ علاقوں پر فلسطینی کنٹرول کی منتقلی کا عمل بھی شروع ہوا۔ موجودہ اسرائیلی صدر اس معاہدے کو تسلیم نہیں کرتے اور جب سے اقتدار میں آئے تب سے امن معاہدوں کی کوئی حیثیت نہ رہی –
اسرائیل کی غیر قانونی بستیاں!
اسرائیلی افواج نے اپنی بستیاں چھوڑ دیں اور یک طرفہ طور پر غزہ کی پٹی سے انخلا کیا۔ لیکن اقوام متحدہ اب بھی غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے کنٹرول کو تسلیم کرتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پٹی میں باہر جانے اور آنے والی ہر چیز کو اسرائیل کنٹرول کرتا ہے۔ چاہے وہ بجلی ہو، کھانا ہو یا پانی۔ مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر ایک تنازعہ رہی ہے۔ یہ بستیاں بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر قانونی تصور کی جاتی رہتی ہیں ۔
حماس اور غزہ کی پٹی
1987 میں حماس کا عمل قیام میں آیا تب سے لے کر آج تک حماس جنگ کر رہا ہے – 365 مربع کلومیٹر پر پھیلی غزہ کی پٹی میں تقریباً 22 لاکھ فلسطینی آباد ہیں۔ اس پٹی کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بھی کہا جاتا ہے، اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ غزہ کی پٹی پر حماس کا کنٹرول ہے۔ جبکہ یہاں رہنے والے فلسطینیوں کا انحصار اسرائیل پر ہے۔ غزہ کی پٹی تو مکمل تباہ ہو گئی ہے لیکن اسرائیل حماس کا حماس کو ختم کرنے کا دعویٰ محض دعویٰ ہی دکھ رہا ہے –
ایران کا حملہ
اب ایران کا یہ حملہ کیا گل کھلاتا ہے یہ دیکھنے والی بات ہوگی، ابھی تک اسرائیل کی جنگ ایسے لوگوں سے ہو رہی تھی جن کے پاس موجودہ دور کے حساب سے لڑنے کے لیے صرف لاٹھی ڈنڈے تھے، لیکن یہاں معاملہ برعکس ہے، اسرائیل جوابی کارروائی کرے گا یہ یقینی ہے، ایسے میں اگر امریکا یا نیٹو جنگ میں شامل ہوتا ہے تو دنیا دو دھڑوں میں تقسیم ہو سکتی ہے، روس، ایران، چین، یمن وغیرہ ایک سائڈ ہونگے دوسری جانب نیٹو ممالک ایسے میں ترکی کا رول بھی قابل دید ہوگا، کیوں کہ وہ بھی نیٹو ممالک شامل ہے، اگر امریکا جنگ میں براہ راست شامل ہوتا ہے تو ایران کا حال بھی افغانستان، عراق، شام، لبنان اور اسرائیل جیسا ہو سکتا ہے –
ایران جوہری ہتھیار کا ٹیسٹ کر سکتا ہے
ایران قریب تیس سالوں سے جوہری پروگرام پر کام کر رہا تھا، کام کبھی رکا اور کبھی چالو رہا، ایران نے بے شمار پابندیاں برداشت کی ہیں، سالوں بائکاٹ سہا ہے، یورینیم کی افزود پر شدید تنقید کا نشانہ بنا ہے، اگر ایران کے پاس ایسا کچھ ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ 90 فیصد ایران بچ جائے گا اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو بس اللہ ہی حافظ ہے – ایران کا یہ حملہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا سبب بھی ہو سکتا ہے، اگر ایسا ہوتا ہے تو دنیا کے لیے نتائج بھیانک ہو سکتے ہیں، اسرائیل، امریکا دونوں ایران کو اپنا سب سے بڑا دشمن مانتے ہیں – فی الحال ایرانی حملے کو 36 گھنٹے سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے لیکن ابھی تک اسرائیل کی طرف سے جوابی کارروائی نہیں کی گئی ہے –
ایران چلا اسرائیل کے نقش قدم پر
کہتے ہیں جو ماضی سے نہ سیکھا وہ مستقبل سے غافل ہے، یہاں ایران کا حملہ ٹھیک اسی طرح کا ہے جیسا مصر اسرائیل جنگ میں اسرائیل کا مصر کے ساتھ تھا، 5 جون 1967 کو اسرائیل نے اپنے وقت کے مطابق صبح 7 بجے اچانک مصر پر حملہ کردیا، مصر اس کے لیے تیار نہیں تھا، اسرائیلی لڑاکو طیاروں نے قریب 8:15 پر مصر کے ملٹری ہوائی اڈوں کو نشانہ بنایا، دو راؤنڈ میں اسرائیل نے مصر کے 420 لڑاکو طیاروں میں سے 286 طیاروں کو نیست و نابود کردیا، ان میں 30 ٹپولو، 16 الیوشن ،28 سکھوئی 12، ،90 مِگ 7 کے 21 طیارے شامل تھے، نتیجتاً یہ جنگ محض 6 دنوں میں ہی ختم ہوگئی –
اب یہ بات واضح ہوگئی کہ ایران کے حملے میں اسرائیل کے فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، ایسے میں اسرائیلی فوجی قوت کو زبردست نقصان ہوا ہے، ایک ویڈیو میں بیلسٹک میزائل گرنے سے 30 فٹ گہرا اور 50 فٹ چوڑا گڑھا ہوگیا ہے، یہ میزائل موساد کے ہیڈ کوارٹر کے محض چار سو میٹر پیچھے گرا ہے، میزائل کتنا پاور فل تھا یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا جا سکتا ہے، اسرائیل سے لے کر امریکا تک اس حملے سے بوکھلا گئے ہیں، ایران کی طرف سے اس حملے کو محض ٹریلر کہا گیا ہے یعنی ایران پوری طرح سے جنگ کے لیے تیار دکھ رہا ہے، ایسے میں لمبی اور خوف ناک لڑائی کا امکان بڑھ گیا ہے –
کوڑھ میں کھاج
سائپرس میں موجود اسرائیلی سفارت کار اورین انولِک کو کچھ نامعلوم بندوق دھاریوں نے اغوا کر لیا ہے، اغوا کے پیچھے ایران حمایتی جنگ جوؤں کا ہاتھ بتایا جارہا ہے، اسرائیل کے صدر پریس کانفرنس میں میڈیا کے سامنے ایک تحریر پڑھتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں جس میں ان کے ہاتھ کانپ رہے ہیں، اسرائیل کے عام لوگ، پولیس فورس اور کچھ تنظیمیں نتین یاہو سے پہلے ہی ناراض ہیں ایسے میں یہ حملہ نتین یاہو کے لیے کوڑھ میں کھاج ثابت ہو سکتا ہے، ایران کا حملہ فوجی بھی ہے اور نفسیاتی بھی، نفسیاتی اس لیے کہ عوام کو نشانہ نہ بناکر صاف پیغام دیا ہے کہ عوام اپنے وزیر اعظم کو باز رکھے ورنہ یہی حملہ ان پر بھی ہو سکتا ہے، شیلٹر ہوم تبھی کام کریں گے جب تک ان میں میزائل نہ گرے، اگر کوئی میزائل گرتا ہے تو ظاہر ہے کہ باہر نکلنے کا راستہ بند ہو جائے گا اور یوں وہ میزائل سے نہیں بھوک اور خوف سے مر جائیں گے، ابھی تک اسرائیل کو جانی نقصان کا سامنا نہیں ہوا، لیکن اسرائیلی عوام کو یہ بات ضرور سمجھ آگئی ہوگی کہ اس بار ٹکر برابر کی قوت کے ساتھ ہے، اگر نتین یاہو اپنی حرکات سے باز نہیں آتا تو ایسے میں اسرائیلی عوام کا رویہ بھی نتین یاہو کو پریشان کرنے والا رہے گا –
لبنان میں اسرائیل کو ہزیمت
ساؤتھ لبنان میں اسرائیلی فوج زمینی راستے آگے بڑھ رہی تھی، گزشہ کل اسے شدید جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے، میڈیا رپورٹس کے مطابق قریب بیس اسرائیلی فوجی مارے گئے ہیں جن کے تابوت بذریعہ ہیلی کاپٹر اسرائیل لے جاتے ہوئے سوشل میڈیا پر عام ہیں، آج بروز جمعرات 3 اکتوبر کو لبنان میں اسرائیلی کارروائی کی خبریں ہیں، لبنان اسرائیل کی جنگیں بھی پرانی ہیں، ان شاء اللہ کل تازہ خبروں کے ساتھ لبنان اور اسرائیل کے مابین اب تک ہونے والی جنگوں کا مختصر حال پیش کیا جائے گا –
نوٹ :ایران کے حملے پر بہت سے احباب کو شکوک و شبہات ہیں اس لیے کچھ کہنا جلد بازی ہوگی، چند ایام میں تصویر صاف ہو جائے گی تب تک جو دکھ رہا ہے اسے ہی دیکھا جائے –
جاری…….
3/10 /2024
29 /3/1446
“ایران اسرائیل جنگ، نتائج بھیانک ہو سکتے ہیں” پر 3 تبصرے