لبنان اسرائیل جنگ بند ہو چکی ہے، ایران کا اسرائیل پر جوابی کارروائی والا وعدہ بھی ٹھنڈے بستے میں پڑا ہے، دنیا کے نئے اسلامی ہیرو نے اہل غزہ کو تنہا چھوڑ دیا ہے، ظاہر ہے لبنان اسرائیل جنگ بندی بغیر ایران کی مرضی کے محال ہے، ایسے میں یہ بات صاف ہو چکی ہے کہ ایران اور لبنان کو اہل غزہ سے کوئی مطلب نہیں تھا، یہی ہم پہلے سے کہتے آرہے ہیں لیکن بہت سے لوگوں کو لگتا تھا کہ نہیں ایران دینی حمیت کی خاطر اس جنگ میں کودا ہے، لیکن اس جنگ بندی کے معاہدے میں کہیں بھی دینی حمیت کی جھلک بھی دیکھنے کو نہیں ملی، معاہدے کی شرائط میں یہ بات تھی ہی نہیں کہ غزہ میں بھی جنگ بندی ہو، لبنان نے صرف اپنے بچاؤ کی باتیں کیں اور دب کر صلح کی ہے، لبنان نے اس بات کو قبول کیا ہے کہ اس کے پاس سرکاری آرمی کے علاوہ مسلح گروہ نہیں ہوں گے، معاہدے کی یہ شرط لبنان کے گلے کی ہڈی بنے گی، ایسے میں لبنان دو کام کر سکتا ہے (1) حزب اللہ کو سرکاری سنگٹھن تسلیم کر لے، حکومت جو کہے اس پر حزب اللہ عامل ہو (2) اگر حزب اللہ حکومت کے کنٹرول سے باہر رہنا چاہتا ہے تو لبنان حزب اللہ کو مرنے کے لیے چھوڑ دے، اول میں لبنانی حکومت کو خطرہ رہے گا کیوں کہ حزب اللہ بہت دنوں تک حکومت کے زیر اثر نہیں رہ سکتا، اگر زیر اثر رہے گا تب بھی حکومت حزب اللہ کے سارے جنگ جوؤں کو قبول کرلے ایسا نہیں ہو سکتا، کیوں کہ حکومت پر ایک لاکھ سے زائد لوگوں کا بار اٹھانا مشکل ہوگا، اگر حزب اللہ اپنی فوجی کٹوتی پر راضی ہوجاتا ہے تو حزب اللہ خود دو گروپوں میں تقسیم ہوجائے گا، ایک سرکاری ایک غیر سرکاری اور یہ بھی لبنان کے لیے بہتر نہیں ۔ حزب اللہ ابھی تک آزاد ادارہ رہا ہے اب کنٹرول میں رہنا مشکل ہوگا ۔ دوم حزب اللہ آزاد رہنا چاہے گا تو حکومت بالکلیہ اسے چھوڑ دے گی، اس طرح اسرائیل جب چاہے گا حزب اللہ پر حملے کے نام پر پورے لبنان میں حملہ کرتا رہے گا اور لبنانی مرتے رہیں گے، چند سالوں بعد نتیجہ کے طور یہ معاہدہ لبنان میں خانہ جنگی کا سبب بھی بن سکتا ہے ۔
اس معاہدے میں ہر طرح اسرائیل کا فائدہ ہے، معاہدے میں یہ بھی ہے کہ اسرائیل جنوبی لبنان میں اپنی فوج رکھے گا، اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ فی الحال شہری جنوبی لبنان نہ لوٹیں، اس وقت اسرائیل کا سخت جانی، مالی نقصان ہو رہا ہے تھا، آئرن ڈوم ڈھکن ہو چکا تھا، نیتین یاہو پر دباؤ بہت تھا اس لیے یہ جنگ بندی ہوئی ہے ۔ اگر لبنان اور ایران چاہتے تو غزہ کو بھی معاہدے میں شامل کر سکتے تھے اور مجبوراً اسرائیل کو یہ بات ماننا پڑتی خواہ اس میں ماہ دو ماہ کا وقت لگتا، لیکن جنگ بندی ہر طرف ہوتی، لیکن لبنان اور ایران نے ایسا نہیں کیا ۔
کس کا کتنا نقصان؟
لبنان کے محکمۂ صحت کے عہدیداروں کے مطابق گزشتہ 13 ماہ کے دوران اسرائیل کے لبنان پر حملوں میں 3760 سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں بڑی تعداد شہریوں کی ہے جب کہ بمباری سے 12 لاکھ سے زیادہ آبادی متاثر ہوئی ہے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے لڑائی کے دوران حزب اللہ کے دو ہزار سے زیادہ کارکنوں کو ہلاک کیا ہے۔ وہیں لبنان میں زمینی کارروائی کے دوران اسرائیل کے قریب 80 فوجی ہلاک ہوئے ہیں جب کہ حزب اللہ کی کارروائیوں کی وجہ سے اسرائیل کے شمالی علاقوں میں آباد لگ بھگ 60 ہزار افراد کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا تھا ۔
اہل غزہ کو تنہا چھوڑ دیا گیا
غزہ کے پریشان لوگوں کو دنیا نے تنہا چھوڑ دیا ہے، تنہائی کے احساس کے ساتھ ساتھ اہل غزہ کو بھی امید ہے کہ غزہ میں بھی اسرائیل اور حماس کے دوران جنگ بندی کی کوئی صورت بنے گی۔ غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی پر بات چیت کی کئی ماہ کی کوششوں میں بہت کم پیش رفت ہوئی ہے اور مذاکرات اب جمود کا شکار ہیں۔ ثالثی کرنے والے خلیجی ملک قطر نے اپنی کوششیں اس وقت تک معطل کر دی ہیں جب تک کہ فریقین ایک دوسرے کو رعایت دینے کے لیے تیار نہیں ہو جاتے۔ یہاں فریقین نہیں فریق واحد کی بات ہوتی ہے یعنی قطر اور دیگر یوروپی ممالک چاہتے ہیں کہ پہلے حماس قیدیوں کی رہائی کرے پھر آگے بات ہوگی، کچھ ہفتوں قبل ایسی خبریں بھی آئی تھیں کہ مذاکرات فیل ہونے پر حماس کے لیڈروں کو قطر نے ملک چھوڑنے کے لئے کہہ دیا تھا ۔
جہاں لبنان میں جنگ بندی ہوگئی ہے وہیں اہل غزہ پر عرصہ حیات مزید تنگ ہوتا جارہا ہے، اسرائیل نے لبنان سے جنگ بندی کے بعد غزہ میں اپنی بستیاں بسانے کا کام شروع کردیا ہے، وہیں لگاتار ہوائی حملے جاری ہیں، پناہ گزین کیمپ نصیرات میں اسرائیلی طیاروں نے کئی فضائی حملے کیے جس میں ایک کثیر المنزلہ عمارت تباہ ہو گئی۔ اسرائیل نے حزب اللہ کے ساتھ جنگ بندی کے ایک روز بعد جمعرات کو ہی غزہ کی پٹی پر حماس کے خلاف لڑائی میں سخت حملے کیے، جن میں کم از کم 17 فلسطینی مارے گئے ہیں ۔ کمال عدوان ہسپتال اور نصیرات کیمپ پر گھیرا تنگ ہوتا جارہا ہے، کئی رپورٹس کے مطابق اسرائیل غزہ میں بہت اندر تک گھس چکا ہے اور یہ جنگ بندی اسرائیل کو پورا موقع دے گی کہ وہ حماس کو مکمل ختم کرکے اہل غزہ پر قابض ہوجائے اور من مانی کرے –
کچھ حزب اللہ کے بارے میں
سن 1975 سے 1990 تک لبنان میں خانہ جنگی جاری رہی، اسی اثنا میں 1982 میں ایران کی سپاہ پاسدارانِ انقلاب نے حزب اللہ کی بنیاد رکھی۔ یہ ایران کی ان کوششوں کا حصہ تھا کہ وہ 1979 کے اسلامی انقلاب کو خطے میں پھیلائے اور 1982 میں لبنان پر اسرائیل کے حملے کے بعد اسرائیلی افواج کا مقابلہ کرے۔ حزب اللہ نے ایران کے شیعہ نظریات کو اپنایا اور لبنان کے شیعہ مسلمانوں کو اپنی تنظیم میں بھرتی کیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ حزب اللہ ایک گروپ سے ایک بڑی مسلح قوت بن گئی جس کا لبنان کی ریاست پر بڑا اثر و رسوخ ہے۔ البتہ لبنان کی جماعتیں حزب اللہ کی مخالفت کرتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس گروپ نے ریاست کو کمزور کیا ہے۔ تنظیم پر الزام لگایا جاتا ہے کہ اس نے لبنان کو یک طرفہ طور پر مسلح تنازعات میں گھسیٹا ہے۔
جاری…….
تحریر: محمد زاہد زاہد علی مرکزی
چیئرمین تحریک علمائے بندیل کھنڈ
30/11/2024
27/5/1446