مولانا عبدالرحمن نورالدین جامی رحمۃ اللہ علیہ کبھی عبدالرحمن دشتی کے لقب سے مشہور تھے، بعد میں انہوں نے اپنا تخلص جامی اختیار کیا اور پھر نعت گوئی کے طفیل تصوف و معرفت کی منزلیں طئے کرتے ہوئے دنیاء اسلام میں علامہ عبدالرحمن جامی ہی سے معروف ہوئے۔ آپ کے ایک مشہور نعتیہ کلام کا مطلع ہے،
جہاں روشن است از جمال محمد ﷺ
دلم تازہ گشت از وصال محمد ﷺ
ترجمہ: محمد ﷺ کے جمال سے دنیا روشن ہے، میرا دل ان کے وصل سے تازہ ہوا۔
فارسی زبان میں لکھی اسی نعت پاک کا ایک شعر اتنا مقبول ہوا کہ قدیم زمانے کی اکثر مساجد، مجالس اور خانقاہوں کے در و دیوار کی زنیت بن گیا، دنیائے اسلام کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و عقیدت اور دیں ہمہ او است کا پیغام دیتا یہ شعر
خوش آں مجلس و مسجد و خانقاہے
کہ در وے بود قیل و قال محمد ﷺ
ترجمہ: مبارک ہے وہ مسجد اور مدرسہ اور خانقاہ، جہاں قیل و قال محمد ﷺ ہوتا ہے (یعنی احادیث کا درس ہوتا ہے اور تصفیۂ قلوب میں اعمال و افعال نبوی ﷺ کی روشنی میں حقیقت و معرفت کی راہ دکھائی جاتی ہے)
یہ شعر آج بھی قدیم خانقاہوں اور مساجد کی زینت بنا ہوا مل جائے گا۔ یوں تو اس مطلع کے تحت وارد تمام اشعار ہی ایک طرف غلامیِ مصطفیٰ کا والہانہ اظہار ہیں تو دوسری جانب عظمت و شانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کی پُر کیف ترسیل بھی ہیں۔ آئیے! اسی نعتیہ کلام کے مذکورہ شعر خوش آں مجلس و مسجد و خانقاہے کہ دروے بود قیل و قالِ محمد پر کچھ گفتگو کریں اس سے پیشتر علامہ جامی علیہ الرحمۃ کے مختصر تعارف کا اعادہ بھی کرتے چلیں۔
تعارف: مولانا عبد الرحمٰن جامی اور عبدالرحمٰن نورالدین محمد دشتی کے نام سے مشہور و معروف صوفی شاعر اور مؤرخ گذرے ہیں۔ آپ کا عرصہ حیات 1414ء سے 1492ء تک محیط ہے۔ آپ اپنے زمانہ میں علمائے اسلام اور صوفیائے اسلام کی صفِ اول میں شمار کیے جاتے تھے۔
مولانا نورالدین عبدالرحمن نقشبندی جامی صوبہ خراسان کے ایک قصبہ خرجرد میں 1414ء کو پیدا ہوئے، اسی نسبت سے انہیں جامی کہا جاتا ہے۔ اگرچہ ان کے والد نظام الدین احمد بن شمس الدین ہرات چلے گئے تھے مگر ان کا اصل وطن "دشت” (اصفہان کا ایک شہر) تھا، اس لئے انہوں نے پہلے دشتی تخلّص اختیار کیا، دوران تعلیم جب ان کو تصوف کی طرف توجہ ہوئی تو سعدالدین محمد کاشغری علیہ الرحمۃ کی صحبت میں بیٹھے، حضرت جامی کو نقشبندی سلسلے کے معروف بزرگ خواجہ عبیداللہ احرار علیہ الرحمۃ سے گہری عقیدت تھی، انہی سے تعلیم باطنی اور سلوک کی تکمیل کی اور خواجہ کی خانقاہ میں جاروب کش ہوئے، اوائل عمر ہی میں آپ نے اپنے والد کے ساتھ ہرات اور پھر سمرقند کا سفر کیا جہاں علم و ادب کی تحصیل کی اور دینی علوم، ادب اور تاریخ میں کمال پایا، تصوف کا درس سعدالدین محمد کاشغری سے لیا اور مسند ارشاد تک رسائی ملی، حج کے لئے بھی گئے اور دمشق سے ہوتے ہوئے تبریز گئے اور پھر ہرات پہنچے، جامی ایک صوفی صافی اور اپنے دور کے جید عالمِ دین تھے، آپ کا نام صوفیانہ شاعری اور نعت پاک میں بہت بلند ہے، جامی حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے عاشقِ زار تھے، اس تعلق سے ان کے بہت سے قصے مشہور ہیں، تقریباً 16 مرتبہ انہیں حج بیت اللہ کی سعادت اور مدینہ منورہ کی زیارت نصیب ہوئی، ان کی مشہور تصانیف مثنوی یوسف زلیخا، لیلیٰ مجنوں، فاتحۃالشباب، واسطۃ العقد، خاتمۃ الحیات، شرحِ ملا جامی، شیخ سعدی کی گلستاں کے جواب میں ایک نثری کتاب بہارستان ہے، اس کے علاوہ سلسلتہ الذھب اور خرد نامہ سکندری ان کی بہت مشہور کتابیں ہیں، آخر عمر میں یہ مجذوب ہو گئے تھے اور لوگوں سے بولنا ترک کر دیا تھا، اسی حالت میں 1492ء میں ہرات میں ان کا وصال ہوا۔
تبصرہ: یہ تھا مشہور نعت گو صوفی شاعر اور جید عالمِ دین علامہ جامی کا تعارف۔ اب آتے ہیں اصل متن کی طرف، علامہ جامی کے درج بالا نعتیہ اشعار کا یہ شعر #؛ خوش آن مجلس و مسجد و خانقاہے کہ در وئے بود قیل و قالِ محمد ﷺ کی طرف، ہند و پاک کی اکثر مساجد اور خانقاہوں میں اور کتابی معلومات کے مطابق عرب و ایشیاء کی اکثر مساجد و خانقاہوں میں ممبر و محراب کے اوپر یا پھر داخلہ دروازے کے اوپر یہ شعر لکھا ہوا آج بھی نظر آتا ہے جس کا مفہوم اوپر بیان کیا گیا کہ مبارک ہے وہ مسجد اور مجلس اور خانقاہ، جہاں قیل و قالِ محمد ﷺ ہوتا ہے، یعنی احادیث کا درس ہوتا ہے، قرآنی تعلیمات کو عام کیا جاتا ہے اور تصفیۂ قلوب میں اعمال و افعال نبوی ﷺ کی روشنی میں حقیقت و معرفت کی راہ دکھائی جاتی ہے۔ لیکن آج کی خانقاہیں اور مجالس علمی و مساجد اہلسنت اُس زمانے کی طرح طالبان علوم نبویہ کی علمی تشنگی دور کرنے کے ساتھ ساتھ روحانی و عرفانی منزلیں طئے کرانے کا ذریعہ نہیں رہیں۔ موجودہ زمانے میں تعمیر ہونے والی نت نئی مساجد و مدارس کے در و دیوار پر مذکورہ بالا شعر لکھنے کا سلسلہ بھی آہستہ آہستہ ختم ہوتا جارہا ہے، یہ کوئی فرض، سنت یا واجب نہیں مگر مساجد، مدارس اور خانقاہوں کے در و دیوار پر کندہ یہ شعر ہر آنے جانے والے کو یہ پیغام دیتا تھا کہ یہ صرف پانچ وقت نمازوں کی ادائیگی کا مقام نہیں بلکہ ایک مسلمان کے پیدا ہونے سے رخصت ہونے تک کے عرصے میں زندگی کے ہر پہلو پر رہنمائی کا مرکز ہے، یہ وہ مقام ہے جہاں سے وادیِ فاران سے طلوع ہونے والے بھلائی اور کامیابی کے پیغام کو نئی نسلوں تک منتقل کرنا ہے، یہی وہ مقام ہے جہاں پانچ وقت اپنے رب کے آگے سربسجود بھی ہونا ہے اور بقیہ اوقات میں قوم و ملت کی روحانی و عرفانی اصلاح کو بھی آگے بڑھانا ہے، اسی مقام سے دینی علوم کو ترویج بھی جاری رکھنا ہے اور شرعی باریکیوں کی نشر و اشاعت کا فریضہ بھی انجام دینا ہے۔
مگر اب وہ مبارک رواج اُٹھتا جارہا ہے اور مساجد مدارس خانقاہوں کی وہ بولتی دیواریں اب خاموش کردی گئی ہیں، اب نہ وہ آواز لگاتی ہیں، نہ لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہیں کہ آئے لوگو! آؤ اور یہاں سے پیغامِ ابدی لے کر جاؤ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سلف صالحین کی روش کو اختیار کیا جائے اور مساجد و مدارس کے در و دیوار پر اس طرح کے آفاقی پیغام بھی تحریر کئے جائیں اور مساجد و مدارس کو تبلیغ دین کے قلعے بھی بنائے جائیں، جس طرح بڑے بڑے دارالعلوم سے علماء، قراء، حفاظ اور مبلغینِ اسلام فارغ ہوتے ہیں اسی طرح مساجد و خانقاہوں سے بھی علم و عرفان کے متوالے اپنی دنیا و عاقبت کو روشن کرتے چلیں، یاد رہے علم و عرفان کا چراغ خاندان کے ہر فرد کی ضرورت ہے، ہر مرد و زن کی ضرورت ہے، ہر بالغ مسلمان کی ضرورت ہے۔ لھذا علامہ جامی کے اسی مقبول شعر کو جس سے قارئین کو آخرت پر متوجہ ہونے، سوچنے سمجھنے اور غور و فکر کرنے کے مواقع میسر آئیں اُسے پھر سے مسجد و محراب کی زینت بنانا چاہیے تاکہ علم سے عمل کی راہیں ہموار ہوں، کہ اصل کامیابی تو آخرت کی کامیابی ہی ہے اور اسے حاصل کرنے کے لیے دنیا میں قیل و قالِ محمد ﷺ کا وسیلہ ضروری ہے، بغیر اس کے نجات ممکن نہیں۔
ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح و شام تو،
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو۔
(علامہ اقبال)
تحریر: رضوی سلیم شہزاد، مالیگاؤں
بتاریخ: 12/09/2024